سابق انڈین آرمی چیف کا چین کے ساتھ سرحدی معاہدے پر حکومت کا دفاع، ’لوگ حقائق اور سیاسی عسکری فہم سے نابلد ہیں یا پھر وہ شدید تعصب کا شکار ہیں‘


انڈیا اور چین کے درمیان ایکچوئل لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر جاری دیرینہ کشیدگی کے بعد بالآخر دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے لیکن اس پر کئی طرح کے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔

معاہدے کے مطابق انڈیا نے اپنے دائرہ اختیار والے مشرقی لداخ میں پینگونگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کنارے پر دس کلومیٹر چوڑا بفر زون بنانے پر اتفاق کیا ہے۔

اس معاہدے کے حوالے سے دفاعی اور فوجی ماہرین کی آرا منقسم ہیں۔ کچھ لوگ اس معاہدے اور حکومت ہند کا دفاع کررہے ہیں تو کچھ اس کے متعلق سوالات اٹھا رہے ہیں۔

اسی سلسلے میں انڈیا کے سابق وزیر اعظم اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اٹل بہاری واجپئی کے وقت چیف آف آرمی سٹاف رہنے والے وید ملک نے ٹوئٹر پر اس معاہدے کا دفاع کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چین، انڈیا تنازع: لداخ کے خطے میں ایسا کیا ہے جو وہاں تنازعے کو منفرد بناتا ہے؟

چین کا لداخ کی حیثیت سے متعلق بیان، انڈیا کا ایل اے سی کو تسلیم کرنے سے انکار

‘فوج کی قربانیوں سے حاصل ہونے والی کامیابیوں پر شک ان کی تذلیل ہے’

انڈیا چین سرحدی کشیدگی: چین پیچھے ہٹنے پر کیسے راضی ہوا؟

انھوں نے اپنی ٹویٹس میں جو باتیں کہی ہیں وہ اس طرح ہیں:

1۔ مشرقی لداخ میں انڈیا اور چین کے درمیان فوج کی واپسی کے متعلق ہونے والے معاہدے کی تنقید میرے لیے حیران کن ہے۔ زیادہ تر لوگ اس پر تنقید اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ وہ حقائق اور سیاسی عسکری فہم سے نابلد ہیں یا پھر وہ شدید تعصب کا شکار ہیں۔ اس معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں، پینگونگ جھیل کے آس پاس تعینات فوجی 20 اپریل سنہ 2020 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس آئیں گے۔

2۔ کسی تنازعے سے بچنے کے لیے فنگر 4 اور فنگر 8 کے درمیان انتہائی کم درجہ حرارت میں گشت کو روکنا ضروری ہے۔ معاہدے کے مطابق اپریل 2020 کے بعد یہاں تعمیر کردہ کسی بھی سکیورٹی ڈھانچے کو ختم کردیا جائے گا۔ جب کیلاش کا علاقہ خالی ہوجائے گا تو ہمارے فوجی وہاں سے قریب تر حصے چوشول میں تعینات ہوں گے۔

https://twitter.com/Vedmalik1/status/1360604522314305538

3۔ ان سب چیزوں کے ہونے کے 48 گھنٹوں کے اندر، دیپسانگ، گورا، ہاٹ سپرنگ، اور گلوان میں پیچھے ہٹنے کے لیے بات چیت ہوگی۔ دونوں ملکوں کے کیڈر کسی بھی طرح کے معاملے کی نگرانی، تصدیق یا حل کرنے کے لیے ملاقاتیں کرتے رہیں گے۔ اعتماد کی کمی کی وجہ سے ہمارے فوجیوں کے لیے چوکنا رہنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ چینی فوج کوئی غیر منصفانہ فائدہ نہ اٹھائے اور اپنے وعدے کو نہ توڑے۔

4۔ میرے خیال سے فوجیوں کے پیچھے ہٹنے اور پوری طرح سے کشیدگی ختم ہونے میں زیادہ وقت لگنا طے ہے۔ انڈیا اور چین کے مابین کسی بھی قسم کی جنگ حتی کہ جزوی جنگ بھی قومی یا علاقائی مفاد میں نہیں ہے۔ چین کی فوج نے کوشش کی لیکن کسی بھی طرح کا سیاسی یا فوجی تسلط حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ہمارے فوجیوں نے چینی فوج کو روکنے میں اپنی پوری صلاحیت اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔

5۔ ہم نے چین کو پہلے والی حالت پر جانے کے لیے مجبور کردیا ہے۔ بھارت یہ پیغام دینے میں واضح طور پر کامیاب ہوگیا کہ (الف) ایل اے سی کی خلاف ورزی سے دونوں ممالک کے مابین تمام تعلقات متاثر ہوں گے۔ (ب) اپنی سرحد پر تعمیرات جاری رہیں گی اور (ج) انڈیا نے اپنے آپ کو جغرافیائی، سیاسی، سٹریٹیجک اور معاشی طور پر مضبوط کیا ہے۔

6۔ ابھی سے ایل اے سی پر پہلے جیسا امن اور انڈیا اور چین کے مابین پہلے جیسے تعلقات کی توقع کرنا جلدبازی ہو گی۔ ایل اے سی پر انڈیا نے جس طرح کے فوجی اور معاشی اقدامات اٹھائے ہیں اسے جاری رکھنا ضروری ہوگا۔

انڈیا کی جانب سے چین کے مقابلے میں زیادہ ایل اے سی کی خلاف ورزی؟

اس سے قبل انڈیا-چین معاملے پر سابق فوجی سربراہ اور بی جے پی کے رکن پارلیمان جنرل وی کے سنگھ کے ایک بیان پر تنازعہ ہوا تھا جس کے بارے میں انھوں نے سوشل میڈیا پر وضاحت پیش کی ہے۔

جنرل وی کے سنگھ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انڈیا نے چین سے زیادہ بار ایل اے سی (لائن آف ایکچول کنٹرول) کی خلاف ورزی کی ہے۔ وی کے سنگھ کے اس بیان پر راہل گاندھی نے ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا تھا۔

راہل نے ٹویٹ کیا: ‘بی جے پی کے یہ وزیر انڈیا کے خلاف چین کی مدد کیوں کررہے ہیں؟ انھیں اب تک برخاست کردیا جانا چاہیے تھا۔ اگر انھیں برخاست نہیں کیا گیا تو یہ فوج کے ہر جوان کی توہین ہوگی۔’

راہل گاندھی نے بھی اس معاملے کو پارلیمان میں اٹھانے کی کوشش کی لیکن انھیں اجازت نہیں ملی۔ اب وی کے سنگھ نے فیس بک پر ایک ویڈیو جاری کرکے اس کے بارے میں تفصیلی وضاحت دی ہے۔

انھوں نے لکھا: ‘مدورائی میں ایک صحافی نے مجھ سے ہند چین سرحد کے معاملے پر وضاحت طلب کی تھی۔ اس وضاحت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور ایسے لوگوں نے مجھ پر غداری کا الزام لگایا جنھیں ان معاملات کی بہت کم سمجھ ہے۔ مخالفت کرنے کے جوش میں کہیں وہ خود ہی غداری کے مرتکب تو نہیں ہو گئے؟ امید ہے کہ اس ویڈیو سے ان کی سمجھ میں بہتری آئے گی۔’

جنرل وی کے سنگھ نے اس ویڈیو میں کہا: ‘جہاں تک ایل اے سی کا تعلق ہے تو یہ وہ لائن ہے جو سنہ 1959 میں سابق وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو دیے گئے 9/9 انچ کے چینی سفارتی چولائی نقشے پر کھینچی گئی لائن پر مبنی ہے۔ جب آپ اتنے بڑے نقشے پر کچھ طے کرتے ہیں اور اس لائن کو زمین پر اتارنے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ پیچیدہ سوالات سامنے آجاتے ہیں۔

‘کسی بھی چیز کو نقشے سے زمین پر اتارنے کے لیے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ان اصولوں کی بنیاد پر ہم نے ایل اے سی کا اندازہ کیا۔ مجھے امید ہے کہ چین نے بھی ایسا ہی کیا ہوگا۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے میں ہم نے دیکھا ہے کہ چین ایل اے سی کے بارے میں اپنے فائدے کے لیے اپنا موقف بدلتا رہا ہے۔’

یہی وجہ ہے کہ ایل اے سی پر انڈین اور چینی فوجی گشت کے دوران آمنے سامنے رہتے ہیں، بعض اوقات دونوں اطراف میں جھڑپیں، دھکا مکی، کشیدگی اور لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے بھی حملے ہوتے ہیں۔ جب زمین پر کوئی لکیر نہیں لگائی جاتی ہے تو یہ ہونا فطری ہے۔

‘ہم ایل اے سی کا جس طرح اندازہ لگاتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اگر کوئی ہماری حدود میں آتا ہے تو ہم اسے ایل اے سی کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم اپنا گشت اپنے تخمینے کے مطابق کرتے ہیں اور ایل اے سی کو جاتے ہیں جسے چین اپنا سمجھتا ہے تو شاید چین بھی اسے ایل اے سی کی خلاف ورزی کہے گا۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔’

وی کے سنگھ کے مطابق چونکہ دونوں ممالک کے مابین لائن آف ایکچول کنٹرول طے نہیں ہے لہذا ہر چیز قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔ لہذا ایسی صورتحال سامنے آتی رہتی ہے۔

‘چینی فوج نے انڈیا کے علاقے میں پینگونگ جھیل میں خیمے لگائے’

انگریزی اخبار دی ہندو سے ہندوستانی فوج کے کرنل ایس ڈینی (ر) نے کہا ہے کہ چینی فوج نے پینگونگ تسو پر پہلے والی حالت کو تبدیل کردیا ہے۔

کرنل ڈینی کا کہنا ہے کہ جب ہماری توجہ 15 جون کو وادی گالوان میں ہونے والے تشدد پر مرکوز تھی تو چینی فوج نے معاہدوں میں تبدیلی کرتے ہوئے پینگونگ جھیل پر انڈین علاقے میں فنگر چار اور فنگر آٹھ کے درمیان خیمے لگائے اور دوسر ڈھانچہ بھی کھڑے کیے۔

ان کا کہنا ہے کہ چینی فوج نے اس سے پہلے کبھی بھی اتنا بڑا قدم نہیں اٹھایا تھا۔

جنرل ڈینی کے مطابق یہ مسئلہ فنگر-4 کی چین کی سمجھ اور فنگر-8 کے متعلق انڈیا کی تفہیم کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے کہا: ‘مغرب سے مشرق تک آٹھ کلومیٹر کا دائرہ ہے جہاں یہ تمام تنازعہ چل رہا ہے۔ انڈین پوسٹ فنگر 2 اور فنگر 3 کے درمیان ہے جو ایک سڑک سے جڑا ہوا ہے۔

‘چینی چوکیاں سریجاپ پر ہیں جو فنگر 8 سے آٹھ کلومیٹر مشرق میں واقع ہیں۔ چینی فوج نے سنہ 1999 میں فنگر 4 تک اس وقت راستہ بنالیا تھا جب کارگل جنگ کی وجہ سے وہاں ہندوستانی فوجیوں کی تعداد کم تھی۔ اب کوئی انڈین گاڑی فنگر 4 سے آگے نہیں جا سکتی ہے۔ انڈین فوجیوں کو فنگر 8 پر گشت کرنے کے لیے پیدل جانا پڑتا ہے۔ چونکہ چینی فوجی کار کے ذریعے فنگر 4 تک آسکتے ہیں لہذا یہ ان کے لیے سود مند سودا ہے۔’

کرنل ڈینی کے مطابق چین اس علاقے میں انڈین فوجیوں کی موجودگی سے اس لیے پریشان ہوتا ہے کیونکہ انھیں لگا تھا کہ فنگر 4 تک راستے کی تعمیر کے بعد وہاں پر ان کا غلبہ ہوگا۔

انھوں نے کہا: ‘چینی فوجی انڈین فوجیوں کو فنگر 8 میں آنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے ہیں ، لہذا وہ انھیں کئی بار روکتے ہیں۔ چین کئی سالوں سے یہاں پر غلبہ حاصل کر رہا ہے، لیکن سات آٹھ سالوں سے انڈیا نے بھی اپنی تعمیر یہاں شروع کردی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں انڈین فوجیوں کی موجودگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے پہلے جو کام دو مہینوں میں ایک بار ہوتا تھا اب وہ روزانہ ہونے لگا ہے۔’

ہند-چین سرحد پر تقریبا نو ماہ سے تناؤ جاری ہے اور اپوزیشن جماعتیں خصوصا کانگریس پارٹی مرکز میں مودی حکومت پر مسلسل حملہ کرتی رہی ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp