نوجوان کا سب سے بڑا مسئلہ جوانی نہیں، نوکری ہے



بچپن میں سنا تھا میٹرک کی تعلیم حاصل کرنا اعزاز ہے۔ اور میٹرک پاس کرنے کے بعد انسان صحیح طور پر اشرف المخلوقات کہلا سکتا ہے۔ جب ہم نے میٹرک کو پاس کیا تو میٹرک نے ہمیں پاس کر دیا۔ وہ دور گزر چکا تھا جب کسی گاؤں یا محلے میں کوئی ایک میٹرک پاس ہوا کرتا تھا جس سے سارے گاؤں میں بجلی کے بل پڑھائے جاتے تھے۔ ہماری میٹرک ہماری لئے تو قرۃالعین حیدر کا آگ کا دریا ثابت ہوئی جس کے بعد ہمیں منیر نیازی کے ایک اور دریا کا سامنا تھا۔

انٹرمیڈیٹ نام سے کتنا مناسب لگتا ہے یوں لگتا ہے جیسے یہ کوئی لندن سکول آف اکنامکس کی ڈگری کا نام ہے لیکن یہ تو ہمارے پاس کرتے کرتے اپنی ویلیو روپے سے بھی گرا بیٹھی۔ آج انٹرمیڈیٹ کو اتنا کم تر لیا جا رہا ہے کہ ہمارے ہاں اقلیتوں کو انٹرمیڈیٹ کی فکر ستا رہی ہے۔ اور مجھے تو لگتا ہے اگلے چند سالوں تک انٹرمیڈیٹ کو بھی نجکاری وزارت کی فہرست میں شامل کر لیا جائے گا جو بجائے منافع کے نقصان در نقصان میں جا رہی ہو اسے تو ویسے بھی بند ہونا چاہیے عوام کے مستقبل کا سوال ہے۔

جسے کبھی سوال سمجھا ہی نہیں گیا۔ ہم سکول سے کالج جا چکے تھے اور کافی فخر ہوتا تھا کہ ہم کالج جا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ عمارت بھی سکول کی عمارت جیسی تھی بس سبق اور پڑھایا جاتا تھا جس سے ہمارا کوئی خاص قربت کا رشتہ نہیں تھا۔ کالج جاتے ہوئے لگتا تھا کہ یہاں سے نکل کر ہم معزز ہوں گے زمانے میں۔ لیکن ایسا نہیں ہی ہوا جو ہم سوچ رہے تھے جس کھیت میں ہاتھ ڈالتے تھے وہ مولی بن جاتی تھی تعلیم کی سٹاک ایکسچینج میں یہ ڈگری بھی اپنے بھاؤ گرا چکی تھی۔ آب ہمیں یونیورسٹی کا سبق سکھایا گیا۔

یونیورسٹی کے بارے میں ایک بات مشہور کر رکھی تھی کہ وہاں سے ڈگری کے ساتھ نوکری بھیے مل جاتی ہے اور نوکر بنانے والی بھی مل جاتی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا یہ سب تو پرانے لوگوں کے قصے ہیں۔ یونیورسٹی میں انسان کو یونیکوڈ میں بدل دیا جاتا ہے آدھا وقت جی پی اے اور سی جی پی اے کو سمجھنے میں گزر جاتا ہے۔ آدھا وقت نکلتے ہی سی جی پی اے ہاتھ سے پیسے کی طرح نکل جاتا ہے۔ نمبر اور کریڈٹ گیم میں انسان اور حیوان کی پہچان ختم ہو جاتی ہے۔ ہم اقدار، افکار، سوچ، فکر اور تحقیقی ذہن لے کر نکلنے کی بجائے ایک اخراجات کا ورق لے کر نکلتے ہیں جس کے ساتھ نہ ن سے نوکری ملتی ہے اور نہ ہی ن ہی نائلہ ہم تو ذ سے ذلیل سے ہو جاتے ہیں۔

آب اس کے بعد عمر بوڑھی گھوڑی کی طرح بے لگام ہوتی ہوئی ذمہ داریوں کی عمر کو پہنچ جاتی ہے۔ جس انسان نے کبھی ذمہ داری سے ووٹ نہ دیا ہو وہ بھی خاندان کی امنگوں پر پورا اترنے کے لئے محنت کا لفظ جابجا سنتا ہے۔ اور ووٹ کی طرح وہ محنت میں بھی خیانت کا خواہ ہوتا ہے۔ وہ ناکامیوں سے نکل کر نوکری کی تلاش میں پھر سے ناکام ہونے کے لئے نکلتا ہے۔ جہاں اسے ذلالت کے علاوہ کسی کا ساتھ نصیب نہیں ہوتا۔ وہ سڑکوں پر اس طرح پھرتا ہے جیسے پتا نہیں اس کی شلوار کا آزار بند کوئی نکال کر بھاگ گیا ہو یا اس کی شلوار والی جیب کٹ گئی ہو۔ جگہ جگہ دھکے کھانے کے بعد کہتا ہے ”آج کل نوکریاں ہیں ہی نہیں“ اس طرح کے اور بہت سے قول سننے کو ملتے ہیں۔ جیسا کہ ”اب سفارشیں چلتی ہیں“ ”لوگ پہلے بھرتی ہو جاتے ہیں اشتہار بعد میں آتا ہے“ ”رشوت حرام ہے ورنہ اب تک میں نوکری کر رہا ہوتا“

یہ سب جملے ذہنوں میں جم غفیر کی طرح اکٹھے ہو چکے ہوتے ہیں اور انسان کے پاس ذریعہ معاش کے نام پر صرف ”امید کا دامن“ ہوتا ہے۔ یہ کسی کمپنی کا نام ہے یہ بس انسان اپنے آپ سے اظہار تشکر کے لئے استعمال کرتا ہے۔ نوکری، نوکری اور بس نوکری یہ تین الفاظ ایسے ہیں کہ انہیں سننے کے نوجوان ترس جاتا ہے حالانکہ اس کی عمر ”قبول ہے“ کی ہوتی ہے۔ اور اگر حسین اتفاق سے نوکری سے پہلے قبول ہے کر لیا جائے تو عورت تین لفظ سننے کے لئے بے تاب ہو جاتی ہے۔ وہ الفاظ یہاں بیان کر کے میں ماروی سرمد کی کمپنی کو خوش نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی خلیل الرحمٰن کو غصہ دلانا چاہتا ہوں۔

آج کے نوجوان کا سب سے بڑا مسئلہ جوانی نہیں نوکری ہے۔ اسے لگتا ہے کہ جہاں نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لئے ادارے بنے ہوئے ہیں کم از کم وہاں ہی انہیں نوکری مل جائے لیکن وہاں جا کر تو انہیں اپنی جوانی ہی مشکوک لگنے لگتی ہے۔ مطلب ہر طرف سے نہ ہی سمجھی جائے پھر آج کا نوجوان ہوا میں شاپر نہ اڑائے تو اور کیا کرے؟ بازاروں میں سبحان اللہ اور ماشاءاللہ کا ورد نہ کرے تو کیا کرے؟ ویلا بیٹھ کر رومانوی محبتوں کے قصے نہ دیکھے تو کیا کرے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments