مایوسی، امید اور نسل نو


نوجوان کسی بھی قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں نوجوان طبقہ آبادی کا چونسٹھ فی صد ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اکیس سے چوبیس سال عمر کے نوجوان کی شرح نو فی صد ہے۔ ہمارے تعلیم نظام میں ایسے افراد تیار کیے جا رہے ہیں جو فارغ التحصیل ہوکرمسائل و مایوسی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عجیب کیفیت ہے کہ نوجوان جو نہایت پرجوش اور جذبۂ عمل سے معمور ہوتے ہیں آج کل احساس کمتری اور محرومی کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔

اطمینان اور تسکین قلب کے فقدان سے معاشرے میں تعمیری فکر رو بہ زوال ہے۔ نوجوان مایوسی کے عالم میں معاشرتی بگاڑ اور خفگی کی طرف مائل دکھائی دیتے ہیں۔ احتجاج میں شدت کی وجہ سے مسائل کے حل کی بجائے معاشرہ تخریب و تباہی کی طرف رواں دواں ہے۔ نوجوانوں کی سرگرمیوں کو دیکھ کر روشن مستقبل کی نوید دور دور تک نظر نہیں آتی۔ شاید اسی موقع پر ساحرؔ لدھیانوی کا یہ شعر صادق آتا ہے :

کبھی خود پرکبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر بات پہ رونا آیا

مایوسی اور امید متضاد سرگرمیوں کی طرف راغب کرتی ہیں۔ امید اگر دلوں میں جاگزیں ہو تو ہرطرف کامیابی اور مثبت سرگرمیوں کو فروغ ملتاہے۔ کمتری کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور قابلیت میں اضافہ ہوتاہے۔ اجتماعی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے روز گار کے مواقع میسر آتے ہیں۔ نوجوان مصروفیات کو اپنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے اذہان میں امید و یقین کے متنوع تخیلات کروٹ لیتے ہیں۔ ہرطرف معاونت و مدد کا ماحول ہوتا ہے۔

نا امیدی سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ نوجوان نسل کا حق ہے کہ انھیں کامیابی کے باہم مواقع میسر ہوں۔ وطن عزیز کے نوجوا ن انتہائی مایوسی کا شکار ہیں۔ ہر طرف مسائل کا انبار ہے۔ نوجوانوں میں خفگی اور احتجاج کی وجہ سے منفی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ بقول داغؔ دہلوی:

نا امیدی بڑھ گئی ہے اس قدر
آرزو کی آرزو ہونے لگی

حکومت کی ایک ذمہ داری نوجوان نسل کے لیے روز گار کے مواقع فراہم کرنا بھی ہیں۔ تعلیم پر والدین کا سب سے زیادہ خرچ ہوتاہے۔ پاکستان میں ہر سال بیس لاکھ نوجوان یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ روز گار کے خاطر خواہ مواقع میسر نہ ہونے سے بے چینی اور اضطراب میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ مرد و زن معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ بے روزگاری کی شرح کے حوالے سے پاکستان میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ روزگار نہ ہونے کے باعث خودکشی کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ کراچی کے ایک باپ میرحسن نے 11۔ جنوری 2020ء بے روزگاری کی وجہ سے نا امیدی کی حالت میں موت کو گلے لگا لیا۔ اس کی بیوہ او ر بچوں کی مایوسی سوال کرتی ہے کہ معاشرے اور ریاست کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟

نواجوان طلبہ و طالبات میرٹ کی دوڑ میں خود کو ناکام و نامراد سمجھتے ہوئے موت کی آغوش میں جانے کو عافیت سمجھ بیٹھے ہیں۔ ملکی جامعات میں نصابات کی تشکیل نو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سائنس اور آرٹس کے مضامین پڑھنے کے بعد عملی زندگی میں دشواریاں اور مشکلات کے حل کی طرف کوئی قدم اٹھتا نظر نہیں آتا۔ موجودہ تعلیم ان کے مسائل کی گتھیاں سلجھانے کی معاونت سے عاری ہے۔

جامعات کو معاشرے کی بہتری اور روزگار سے منسلک کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ہر پیشہ ورانہ ڈگری کی تکمیل پر حکومتی سطح پر پبلک اور پرائیویٹ اداروں میں نوآموز افراد کو کم از کم ایک سال کے لیے انٹرن شپ ملازمت کا اہتمام کیاجائے۔ عملی زندگی سے مربوط نصاب مرتب کیا جائے تاکہ ہر تعلیم یافتہ فرد معاشرے پر بوجھ کی بجائے مفید فرد ثابت ہو۔

پاکستان کا شمار دنیا کی دسویں بڑی افرادی قوت کے طور پر ہوتا ہے۔ کفایت شعاری بہت عمدہ چیز ہے لیکن ایسی بچت کس کام کی کہ خود انسان کی بقا مشکل ہو جائے۔ ایسی صورت حال میں ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ حکومتی کفایت شعاری کی پالیسی سے معیشت محدود اور نوکریاں مسدود ہو گئی ہیں۔ دل گرفتگی کا یہ عالم ہے کہ بشیر بدرکا یہ شعر معاشرتی ترجمانی کرتا دکھائی دیتا ہے :

ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں
دل ہمیشہ اداس رہتا ہے

ڈاکٹر اصغر سیال
Latest posts by ڈاکٹر اصغر سیال (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments