چین میں بارشوں پر اختیار کی تحقیق، انڈیا میں تشویش


چین
چین میں جدید تحقیق سے انڈیا میں خدشات بڑھ جاتے ہیں
بیجنگ کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے لیکن اگر کسی دن شہر کی فضا شفاف ہوتی ہے اور نیلا آسمان نظر آتا ہے تو یہ کوئی خاص دن ہی ہوتا ہے جب کوئی اہم سیاسی اجلاس یا کوئی بین الاقوامی سطح کی ملاقات یا تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہوتا ہے۔ اور یہ کوئی محظ اتفاق نہیں ہے۔

چین کی حکومت کئی برس سے اس نوعیت کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسے موثر انداز میں استعمال کرتی رہی ہے اور گزشتہ دسمبر میں اس نے ایک قدم اور آگے جاتے ہوئے اپنی اس صلاحیت کے دائر کار کو وسعت دینے کا اعلان کیا۔

یہ بھی پڑھیے

سمندر کی بلند ہوتی سطح کے بیچ بحرِ ہند میں ابھرنے والا ’امید کا ایک نیا جزیرہ‘

انٹارکٹک سیل کی تصویر بین الاقوامی مقابلے کی فاتح

دہلی میں آتش بازی کے سامان کی فروخت پر پابندی

چین کا ارادہ ہے کہ مصنوعی طریقہ سے بارش اور برفباری کرنے کی صلاحیت کے دائرہ کار کو سنہ 2025 تک 55 لاکھ مربع کلو میٹر تک بڑھایا جائے جو کہ اس کے مجموعی رقبے کا 60 فیصد حصہ بنتا ہے جو کہ میکسیکو جیسے ملک کے رقبے سے تین گنا زیادہ ہے۔

چین کے اس اعلان سے انڈیا جیسے ہمسایہ ملک میں تشویش پیدا ہو گئی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے تناظر میں کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

تین اہداف

یہ اعلان دسمبر کی دو تاریخ کو چین کی سٹیٹ کونسل نے ایک بیان کے ذریعے کیا۔

اس اعلان میں اس سارے منصوبے کے خدوخال بیان کئے گیے اور وقت کا تعین بھی کر دیا کہ کب تک اس میں طے شدہ تین اہداف کو حاصل کر لیا جائے گا۔

  • اول یہ کہ سنہ 2025 تک مصنوعی بارش اور برفباری کرنے کی صلاحیت کو 55 لاکھ مربع کلو میٹر تک بڑھا لی جائے گی۔
  • دوئم یہ کہ اس تاریخ تک ژالہ باری سے بچاؤ کی صلاحیت بھی 58 لاکھ کلو میٹر تک حاصل کر لی جائے گی
  • سوئم یہ کہ سنہ 2035 تک اس ٹیکنالوجی میں مزید تحقیق اور جدت پیدا کر کے اس صلاحیت کو عالمی سطح پر لے جایا جائے اور سیکیورٹی خدشات کا مداوا جامع ہونے چاہیے۔

اس بیان میں مزید کہا گیا کہ اس منصوبے سے قدرتی آفات سے بچاؤ، زرعی پیداوار، جنگلات او گھاس کے میدانوں کو آگ سے بچانے کے ساتھ ساتھ انتہائی درجہ حرارت اور خشک سالی پر قابو پانے میں مدد دے گا۔ لیکن اس بارے میں زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

https://twitter.com/XHNews/status/1347734724450480140

بیجنگ میں بی بی سی کے نامہ نگار یٹسنگ وانگ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیسا کے اس دستاویز کے عنوان ‘ترقی کے بارے میں رائے’ سے ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت اس کا عمومی ڈھانچہ یا دائر کار متعین کرے گی جبکہ مختلف وزارتیں اور مقامی حکومتیں ٹھوس سفارشات اور اقدامات تجویز کریں گی اور بعد ازاں ان کو وافر مالی وسائل مہیا کیے جائیں گے۔

وانگ نے اس مثال دیتے ہوئے کہا کہ گانسو کے شمالی صوبے میں نے فوری طور پر اپنے بلند بانگ اہداف کا اعلان کر دیا اور اس کی حکمت عملی کا محور بڑے بڑے ڈرون تھے۔

سرکاری خبر رساں ادارے ژنوا کے مطابق حقیقت میں ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ وہ پہلی جگہ بن گئی جہاں چین نے اپنا ‘ویدر موڈفیکشن پروگرام‘ یا موسم میں تبدیلی کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا جس کی بنیاد ڈرونز پر تھی جو کہ مصنوعی بارش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی اولین پراوز کو ‘میٹھی بارش’ کا نام دیا گیا۔

سیڈ کلاوڈنگ

سیڈ کلاوڈنگ یا بادلوں کے بخارات کوئی نئی چیز نہیں ہے نہ ہی چین میں اور نہ ہی دنیا کے کسی اور ملک میں۔

انڈیا کی ریاست کرناٹکا میں منی پال اعلی تعلیم کی ایکڈیمی میں ماحولیاتی ماہر دھناسری جیارام نے بی بی سی کی منڈو سروس کو بتایا کہ ‘یہ بہت ہی عام چیز ہے۔ بہت سے ملک یہ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں۔ چین اس کا استعمال طویل عرصے سے کر رہا ہے۔ انڈیا نے اس کا استعمال کیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں صحرائے اعظم کے ذیلی علاقوں میں براعظم افریقہ کے شمالی مشرقی علاقوں میں جہاں خشک سالی کا مسئلہ ہے اور آسٹریلیا میں بھی۔’

چین

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ منصوبہ بیجنگ کے علاوہ کسی نے اتنے وسیع پیمانے پر استعمال نہیں کیا ہے۔

کلاوڈ سیڈنگ ایسے سلور آئیوڈائڈ مادے پر مشتمل ہوتا ہے جن کو بادلوں پر چھڑکنے سے ان میں رطوبت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ موسم کو اپنی مرضی سے بدلنے کا ایک طریقہ ہے۔

اس پر پہلی مرتبہ تحقیق سنہ 1940 میں امریکہ میں کی گئی لیکن اس طریقہ کار کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔

بیجنگ میں قائم پیکنگ نارمل یونیورسٹی میں نظام کرۂ ارضی کی سائنس اور عالمی تبدیلی کے شعبے کے چیف سائنسدان جان سی مور نے بی بی سی کو بتایا کہ اس طریقہ کے موثر ہونے کے بارے میں بہت کم سائنسی مقالے لکھے گئے ہیں۔

یہ نظام بغیر کسی سائنسی توثیق کے وضع کیا گیا ہے۔ آج بھی اگر چین میں ائیروسولز کے ماہرین جو ہوائی جہازوں کی مدد سے یہ تجربات کرتے ہیں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ یہ ایک عجیب معاملہ ہے کہ بغیر تحقیق کے استعمال کیا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ایشیائی ملکوں میں بادلوں پر چھڑکاؤ کے ذریعے موسم میں رد و بدل ایک کام کے طور پر کیا جاتا ہے اور یہ کسی تحقیق کا حصہ نہیں ہوتا۔ بنیادی طور پر یہ مقامی طور پر قصبوں اور شہروں کی سطح پر کیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ چین میں یہ کام عموماً کسی بڑی قومی تقریب کے موقع پر کیا جاتا ہے جیسا کہ سالانہ پارلیمانی اجلاس یا فیکٹریوں کی تعطیلات کے دوران اور اس سے آلودگی میں کمی ہوتی ہے۔

مور یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ چین میں خاص طور پر پچاس ہزار مونسپل ادارے کلاوڈ سیڈنگ کا طریقہ مستقل طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ ان کے کھیتوں کو نقصان سے بچایا جا سکے۔’بنیادی طور پر یہ ژالہ باری سے فصلوں کو بچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور بادلوں میں خطرے کی حد تک پہنچنے سے پہلے ہی بارش کو کم کر دیا جاتا ہے۔’

چین

چین میں آلودگی کی سطح خطرناک حد تک زیادہ ہے

اس کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ کہ کلاوڈ سیڈنگ کا طریقہ ایک ملک میں سال میں صرف ایک یا دو مرتبہ ہی کار گر ثابت ہوتا ہے۔’

گزشتہ سال دسمبر میں سائنسی جریدے نیو سائنٹسٹ نے ایک نئی تحقیق شائع کی تھی جس سے یہ معلوم ہوا تھا کہ ‘اوروگرافک بادلوں ‘میں سیڈنگ سے رطوبت صرف دس فیصد سے کم پیدا ہوتی ہے۔

بارش کسی کے اختیار میں ہے؟

اس حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات کے باوجود چین نے اس تحقیق پر بھاری سرمایہ سرف کیا اور اس سے ہمسایہ ملکوں میں جن کے چین کے ساتھ تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں ان میں تشویش پیدا ہونے لگی۔

دھناسری جیارام کا کہنا تھا تشویش کی ایک بات یہ ہے چین میں اس کا وسیع پیمانے پر استعمال ہونے سے انڈیا میں موسم گرما کی مون سون پر کیا اثر پڑے گا جو پورے خطے کے لیے بہت اہم ہے لیکن اس بارے میں کچھ نہیں معلوم۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کی کارروائی پر معمول کے حالات میں شاید کوئی دھیان نہیں دیتا لیکن کیونکہ چین اور انڈیا کے درمیان حالات بہت کشیدہ ہیں اور دونوں ملکوں کی فوجیوں دنیا کے بلند ترین علاقوں میں آمنے سامنے ہیں اور اس وجہ سے انڈیا میں چین مخالف جذبات اپنے عروج پر ہیں۔

تائیوان نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

تائیوان کی نیشنل یونیورسٹی میں تحقیق کاروں نے سنہ 2017 میں شائع ہونے والے اپنی ایک رپورٹ میں ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ موسم کو بدلنے کی کارروائیوں میں خطے کے ملکوں کے درمیان عدم تعاون ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف بارش کو چرانے کے الزامات بھی لگائے جا سکتے ہیں۔

مور کا کہنا ہے کہ گو کہ ایشیا میں مون سون کی صورت حال کافی نازک ہے لیکن بہرصورت اس طرح کے الزامات عائد کرنے کی کوئی سائنسی ثبوت یا بنیاد نہیں ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مون سون کی بارشوں کا تعلق سطح مرتفع تبت اور بحیرہ عرب میں درجہ حرارت کے فرق سے ہے اور اگر تبت کا درجہ حرارت اس طرح تبدیل کر دیا جائے جس کی کچھ لوگ منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو اس سے مون سون پر بہت زیادہ اثر پڑے گا۔

چین

مصنوعی بارشیں چین میں فصلوں کے تحفظ کے لیے اکثر کی جاتی ہیں

مور چین میں انجنیئروں کی طرف سے صوبائی سطح پر سطح مرتفع تبت کے طول و ارض میں کلاوسیڈنگ کے کثرت سے استعمال کرنے کے منصوبوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں اس طرح کے منصوبوں کی ملکی سطح پر کوئی پیشگی منظوری نہیں ہے اور نہ ہی کوئی تحقیق کی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ان طالع آزما معماروں کی طرح ہے جو ایلوم مسک کی نقل کرتے ہوئے خلائی جہاز بنا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا جتنے بھی چینی سائنسدانوں کے ساتھ انھوں نے کام کیا ہے وہ اس منصوبہ پر حیران پریشان تھے۔

دھناسری جیارام کا کہنا ہے کلاوڈ سیڈنگ سے زیاد تشویش چین کی طرف سے ایک اور اس سے بھی بڑے جیو انجینئرنگ ٹیکنالوجی منصوبے پر تحقیقاتی کام سے ہے جس میں مثال کے طور پر شمسی تابکاری شعاؤں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں ٹیکنالوجی میں کوئی برائی ہیں۔ یہ سود مند بھی ہو سکتی ہے اور کسی بھی ملک کو اپنی سرحدی حدود کے اندر خود مختاری حاصل ہے لیکن مسئلہ جب پیدا ہوتا ہے جب آپ ایسا کوئی کام یکطرفہ طور پر کرتے ہیں اگر اس طرح کی ٹیکنالوجی سے کوئی بگاڑ پیدا ہو جتا ہے تو پھر اس سے ہونے والے نقصان کون پورا کرے گا۔

دھناسری جیارام کے مطابق فوری طور پر اس بات کی ضرورت ہے کہ عالمی سطی پر کوئی دائر کار متعین کیا جائے جس کے تحت اس طرح کے کاموں کے لیے قواعد وضع کیے جائیں اور ٹکراؤ سے بچا جا سکے۔ اس خیال سے بینجنگ کی نامرل یونیورسٹی کے ماہرین اتفاق کرتے ہیں۔

بہرحال مور جو چین میں جیو انجینئرنگ کے پروگرام کی سربراہی کر رہے ہیں ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘چین اجتماعی بھلائی میں دلچسپی رکھتا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp