زاہد محمود: ڈیبیو پر ہی تین وکٹیں حاصل کرنے والے لیگ سپنر کون ہیں اور ان کا قومی ٹیم کی نمائندگی کا سفر کیسا رہا؟


سندھ کے شہر دادو کے محلے مزدور آباد کے ایک گھر کے سامنے ڈھول بج رہے ہیں اور خوشی سے سرشار لوگ ٹولیوں کی شکل میں وہاں پہنچ کر اس گھر کے مکینوں کو مبارکباد دے رہے ہیں اور انھیں مٹھائیاں کھلا رہے ہیں۔

پہلی بار یہی خیال ذہن میں آئے گا کہ یہ ڈھول باجے شاید کسی شادی بیاہ کی وجہ سے ہوں یا کسی بچے کی ولادت کا موقع ہو لیکن پتا چلا کہ اس گھر کے ایک فرد کو جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے پاکستان کے 20 رکنی اسکواڈ میں شامل کر لیا گیا ہے اور اسی لیے خوشی کا سماں ہے۔

ایسے مناظر اس وقت بہت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں جب ملک کے کسی دور افتادہ علاقے چھوٹے شہر یا گاؤں گوٹھ سے تعلق رکھنے والے کسی کرکٹر کو کھیلنے کا بڑا پلیٹ فارم میسر آ جائے۔ ایسے میں وہ کرکٹر ہی نہیں اس علاقے کے لوگ بھی خود کو خوش قسمت تصور کرتے ہیں۔

دائیں ہاتھ سے لیگ اسپن گوگلی کرنے والے زاہد محمود کی 20 رکنی اسکواڈ میں شمولیت پر ان کے شہر والے اتنے زیادہ خوش تھے اب تو یہ خوشی اس لیے دوہری ہو گئی ہو گی کہ زاہد محمود جنوبی افریقہ کے خلاف تیسرا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلنے والی حتمی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے

پریٹوریئس کی پانچ وکٹیں، جنوبی افریقہ نے پاکستان کو چھ وکٹوں سے شکست دے دی

رضوان کی اننگز نہ ہوتی تو پھر کیسی سنسنی؟

نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے ڈیبیو پر ہی تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے پاکستان کو ایک بہترین پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔

زاہد محمود کون ہیں؟

زاہد محمود بیس مارچ 1988ء کو دادو میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق دادو کے قریب واقع ککڑ گاؤں سے ہے۔ ان کی فیملی ساٹھ کی دہائی میں گاؤں سے شہر منتقل ہوگئی تھی۔

ان کے والد نادرا میں سولہ گریڈ کے افسر کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلائی کیونکہ وہ نجی اسکولوں کی فیس کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔

ہمیشہ بڑی کرکٹ کا خواب دیکھا

زاہد محمود نے جب کرکٹ سے اپنا ناتہ جوڑا تو انہوں نے کبھی بھی یہ بات نہیں سوچی تھی کہ ان کی کرکٹ دادو سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجائے گی بلکہ ان کے ارادے اتنے پکے تھے کہ انہوں نے ہمیشہ انٹرنیشنل کرکٹ کے بارے میں ہی سوچا۔

زاہد محمود نے اپنی تعلیم محلے کے سکولوں سے حاصل کی۔ اس کے بعد استاد بخاری ڈگری کالج سے انٹر کیا اور سندھ یونیورسٹی سے فزیکل ایجوکیشن میں بیچلر کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔

وہ جب نویں جماعت کے طالب علم تھے تب پہلی بار کرکٹ شروع کی۔یہ شوق انہیں اپنے بڑے بھائی خالدمحمود کو کھیلتا دیکھ کر ہوا اور انہی کے بیٹ اور کٹ بیگ بھی استعمال کرنے شروع کردیے۔

ان کے بڑے بھائی درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔انہوں نے بہت کوشش کی کہ زاہد محمود ان سے انگریزی زبان کی کلاسز لیں تاکہ اس زبان میں بھی وہ عبور حاصل کرسکیں لیکن زاہد محمود کا دھیان ہر وقت کرکٹ پر ہی رہا۔

بڑے بھائی نے دیکھا کہ زاہد کرکٹ میں بہت زیادہ شوق رکھتے ہیں تو ایک دن انہیں اپنے پاس بٹھاکر کہا ʹ اگر آپ نے کرکٹر بننا ہے تو پھر فل ٹائم کرکٹ ہی کھیلنی ہے اور میں آپ کو اب کسی دوسری جگہ پر نہ دیکھوں۔ آپ کو میں روزانہ کرکٹ گراؤنڈ میں ہی دیکھوں ʹ ۔

ایک بار وہ زاہد محمود پر بہت خفا ہوئے کہ وہ گراؤنڈ میں کیوں نظر نہیں آئے۔ اس موقع پر والدین نے مداخلت کی اور انہیں یقین دلایا کہ کل سے زاہد محمود باقاعدگی سےگراؤنڈ جایا کرے گا۔

زاہد محمود نے کلب کرکٹ کی ابتدا رائل کرکٹ کلب کی طرف سے کی۔ اس کلب کے سربراہ پیر مظہر الحق کے چھوٹے بھائی پیر معظم ہیں۔ اس کے بعد زاہد محمود نے برادرز کرکٹ کلب کی نمائندگی کی جس کے سربراہ پرویز چانڈیو ہیں جو ایم پی اے کلثوم چانڈیو کے بھائی ہیں اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ کی کلب کرکٹ میں سیاسی شخصیات کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔

زاہد محمود کے لیگ اسپنر بننے کا پس منظر یہ ہے کہ انہوں نے تیز بولر کی حیثیت سے کرکٹ شروع کی تھی تو اسوقت ایک اور اسپنر شاہد سولنگی موجود تھے انہوں نے ہی زاہد کو اسپن بولنگ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

2009 میں انٹر ڈسٹرکٹ سینئر ٹورنامنٹ کے ایک میچ میں زاہد محمود نے9 وکٹیں حاصل کیں ۔پانچ میچوں میں پچاس سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کی وجہ سے انہیں قائداعظم ٹرافی میں حیدرآباد کی طرف سے کھیلنے کا موقع ملا۔

زاہد محمود نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں حیدرآباد، پشاور، پی ٹی وی اور اسٹیٹ بینک کی ٹیموں کی نمائندگی کی ہے۔ وہ پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرف سے ایک میچ بھی کھیل چکے ہیں۔

کامیاب فرسٹ کلاس سیزن

زاہد محمود کو منظرعام پر لانے اور قومی دھارے میں شامل کرنے کا کریڈٹ سابق وکٹ کیپر راشد لطیف کو جاتا ہے کیونکہ دو سال قبل جب فرسٹ کلاس کرکٹ کے نئے ڈھانچے کے تحت ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں تو کئی باصلاحیت کرکٹرز ان میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے۔

یہ نام جب راشد لطیف، ندیم خان اور مصباح الحق پر مشتمل کمیٹی کے سامنے آئے تو راشد لطیف نے زاہد محمود کے نام کی نشاندہی کی۔ وہ انہیں اسٹیٹ بینک اور دیگر ٹیموں کے میچوں میں عمدہ کارکردگی دکھاتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔

زاہد محمود گزشتہ سیزن میں سدرن پنجاب کی ٹیم میں شامل کیے گئے تھے۔ یہ ایک بہترین سال تھا جس میں انہوں نے صرف 10 فرسٹ کلاس میچوں میں52 وکٹیں حاصل کیں۔ جن میں ناردن کے خلاف میچ کی پہلی اننگز میں 41 رنز دے کر چار اور دوسری اننگز میں 57 رنز کے عوض چھ وکٹوں کی شاندار کارکردگی بھی شامل تھی۔

زاہد محمود کا ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں بھی ریکارڈ متاثر کن ہے۔ 31 ون ڈے میں ان کی 45 وکٹیں ہیں جبکہ چونتیس ٹی ٹوئنٹی میچوں میں وہ اڑتالیس وکٹیں حاصل کرچکے ہیں جن میں سولہ رنز کے عوض پانچ وکٹوں کی کارکردگی قابل ذکرہے۔

گزشتہ سال قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں انہوں نے بارہ وکٹیں حاصل کی تھیں جبکہ عثمان قادر نے دس کھلاڑیوں کوآؤٹ کیا تھا۔

اس سے قبل 2019کے ٹی ٹوئنٹی کپ میں بھی زاہد محمود نے عمدہ بولنگ کرتے ہوئے 9 وکٹیں حاصل کی تھیں۔اس ٹورنامنٹ میں عثمان قادر کی وکٹوں کی تعداد پانچ تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp