یوٹیوب پر پذیرائی اچھا کام کرنے والوں کو ہی ملتی ہے، تیمور صلاح الدین مورو


پاکستان میں یو ٹیوبرز کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستان کے کئی فن کار اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ‘یوٹیوب’ پر اپنی شیئر کردہ ویڈیوز سے شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ جن میں معروف ٰیوٹیوبر اور گلوکار تیمور صلاح الدین بھی شامل ہیں۔

تیمور صلاح الدین ‘مورو’ کے نام سے جانے جاتے ہیں اور ان کا شمار ان اولین پاکستانیوں میں ہوتا ہے جو یوٹیوب پر اپنی ویڈیوز سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔

تاہم یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا۔ اس راہ میں کئی چیلنجز اور مشکلات کا صبر اور حوصلے سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وائس آف امریکہ نے تیمور صلاح الدین سے ان کے فن، حالات زندگی، یوٹیوب کے اپنے تجربے اور مسائل و مشکلات پر بات کی۔

تیمور سے ‘مورو’ کیسے بنے؟

تیمور کا کہنا تھا کہ ان کی بہن جب چھوٹی تھی تو انہیں تیمور کے بجائے مورو کہہ کر پکارتی تھی اور ان کے بقول بس پھر جیسے چھوٹے بچوں کی غلطیوں کو بھی سب دہرا کر خوش ہوتے ہیں تو ان کا نام بھی مورو پڑ گیا۔

ان کے مطابق پیار سے سب مورو کہتے تھے لیکن جب کوئی غلطی ہو جاتی تو کہتے تیمور، بیٹا کیا غلطی کی۔ اسی لیے بس میں چاہتا تھا کہ سب مورو ہی کہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پڑھائی کے بعد انہوں نے کمرشل فلم میکنگ شروع کی تو انہیں محسوس ہوا کہ اس میں ان کے پاس آرٹسٹک کنٹرول نہیں تھا۔ اسی لیے انہوں نے یوٹیوب کے لیے ویڈیوز بنانی شروع کر دیں۔

اپنے فنی سفر کے بارے میں بتاتے ہوئے مورو نے کہا کہ میں گانا سیکھنا چاہتا تھا لیکن والدین اس کے خلاف تھے، تو انہوں نے فلم میکنگ پڑھنی شروع کر دی اور اپنا بیچلر فلم میکنگ میں کیا۔

ان کے بقول وہ اپنے آپ کو موسیقار کے ساتھ ساتھ لکھاری سمجھتے ہیں۔

کیا یوٹیوب چینلز روایتی میڈیا کی جگہ لے رہے ہیں؟

انہوں نے امید ظاہر کی کہ جس شرح سے پاکستان میں انٹرنیٹ تک رسائی دور دراز علاقوں تک پھیل رہی ہے اور جیسے دنیا بھر میں اس سے متعلق ٹرینڈ نظر آ رہے ہیں تو جلد یا بدیر ایسا ہو جائے گا۔

تیمور کے بقول اس وقت تک زید علی اور شام ادریس جیسے لوگوں نے بھی کام شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے انہیں دیکھا تو محسوس کیا کہ وہ بھی یہ کر سکتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ کام چل پڑا۔

تیمور نے کہا کہ یوٹیوب کا ماڈل فرد کو طاقت فراہم کرتا ہے، یہ یوٹیوب ہے، کمپنی ٹیوب نہیں اور جیسے سب اپنے چینل بنا رہے ہیں، تو جو لوگ اچھا کام کر رہے ہیں، انہیں پذیرائی ضرور ملتی ہے۔

تیمور کا مزید کہنا تھا کہ بڑے نیوز چینلز کا ڈھانچہ وقت کے ساتھ تبدیل ہو گا اور کچھ اور بن جائے گا۔

پاکستان میں یوٹیوبرز کی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یوٹیوب پر آزادی اظہار ہے لیکن اس کے لیے ذمہ داری بھی اٹھانی پڑتی ہے اور یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آپ کی رائے کا سماج پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا کام کبھی بہت میچور ہوتا ہے۔ یوٹیوب کا یہ بھی فائدہ ہے کہ آپ ایسا مواد بنا سکتے ہیں جس کے لیے عمر کی قید لگائی جا سکتی ہے۔ ٹی وی پورے خاندان کے لیے ہوتا ہے لیکن موبائل پر آپ اکیلے میں بھی اپنے آپ کو محظوظ کر سکتے ہیں۔ تو ان کے بقول انہیں لگتا ہے کہ انٹرنیٹ پر بہت آزادی ہے۔

‘انٹرنیٹ ایک ہجوم کی طرح ہوتا ہے’

آزادی اظہار سے متعلق انہوں نے کہا کہ جس ملک میں ہم رہ رہے ہوتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ہمارے کام پر اس ملک کے لوگ کیسا ردعمل ظاہر کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ رائے کے اظہار پر لوگ تشدد کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ تو وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ انہیں غلط سمجھا جائے اس لیے لوگوں کے ردعمل کے بارے میں حساس رہتا ہوں۔

انٹرنیٹ پر ٹرولنگ کلچر پر انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ پر ٹرولز جیسے نفرت کا اظہار کرتے ہیں، ویسے اصل زندگی میں ان کے ساتھ کسی نے ویسا رویہ نہیں اپنایا۔

ان کے بقول انٹرنیٹ پر بے نام بن کر لوگ جو کہتے ہیں، انہیں پتا ہوتا ہے کہ اس کے نتائج انہیں بھگتنے نہیں پڑتے اور یہ ایک ہجوم کی طرح ہوتا ہے، جس میں لوگوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کیا لکھ رہے ہیں۔

‘آپ اگر فنکار ہیں تو اور بھی نئے کھلاڑی آ رہے ہیں’

ان کے بقول انٹرنیٹ شدید جذبات کے اظہار کی جگہ بن گیا ہے اور یہ آپ کو شدید جذبات کی طرف دھکیلتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج آپ انٹرنیٹ پر یہ لکھیں کہ مجھے جاگنگ کرنی چاہیے تو آپ کو وہ بتائے گا کہ آپ کو میراتھن کرنی چاہیے۔

تیمور کے بقول اصل زندگی میں ایسے نہیں ہوتا۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک طرح سے اچھی بات ہے کہ جو شدید جذبات بھی لوگوں کے دلوں میں ہوتے ہیں وہ نکل آتے ہیں۔ وہ تو اسے ایک سروے کی طرح دیکھتا ہیں۔ وہ اس سے اپنے آپ کو ذاتی طور پر متاثر نہیں ہونے دیتے۔

انہوں نے نئے آنے والوں یوٹیوبرز کو کہا کہ یوٹیوب روزگار کا ذریعہ بن سکتا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہے کہ جیسے جیسے مارکیٹ میں نیا کام آ رہا ہے، ویسے ہی مسابقت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ تو ایسے میں اس شور میں اپنے آپ کو نمایاں کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ اس میں بہت محنت ہے۔ ان کے بقول آپ اگر فنکار ہیں تو اور بھی نئے کھلاڑی آ رہے ہیں۔

اپنے نئے پراجیکٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کل او ٹی ٹی کا بہت رجحان ہے۔ اسٹریمنگ پلیٹ فارم ‘زی فائیو’ پر چڑیل دیکھ کر کہانی کاری سے بہت متاثر ہوا تو آج کل ایک فیچر فلم لکھ رہا ہوں۔ ساتھ ساتھ کمرشل کام بھی دوبارہ شروع کر رہا ہوں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments