واٹس ایپ پر ایسے پیغامات کیوں فارورڈ نہیں ہوتے؟


کورونا کی عالمی وبا کو اس دنیا میں آئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ پچھلے سال اس وقت ہم سب چین کی طرف نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ ووہان میں ایک قیامت برپا تھی۔ ایک طرف کورونا تھا تو دوسری طرف اس کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ میں اس وقت چین میں ہی مقیم تھی۔ روزانہ کسی نہ کسی کا فون آتا تھا اور وہ مجھ سے چین کے ‘اصل حالات’ پوچھتا تھا۔ چینی حکومت اس وقت کئی محازوں پر بیک وقت کام کر رہی تھی۔ اسے اپنے لوگوں کی زندگیاں بھی بچانی تھیں۔ اس وائرس کے بارے میں معلومات بھی حاصل کرنی تھیں، ان حاصل شدہ معلومات کو اپنے لوگوں تک پہنچانا تھا اور اس دوران سوشل میڈیا پر پھیلنے والی غلط معلومات کو روکنا بھی تھا۔ اس سلسلے میں چین نے اپنے سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اقوامِ متحدہ نے کورونا وائرس کے بارے میں غلط معلومات کے اس پھیلائو کو انفو ڈیمک کا نام دیا تھا۔ ان کے مطابق یہ انفوڈیمک اتنی ہی مہلک تھی جتنا کہ خود کورونا وائرس۔ اس انفوڈیمک کی وجہ وہ پیغامات تھے جو لوگ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر بغیر کسی جانچ پڑتال کے آگے بھیج رہے تھے۔ مجھے خود واٹس ایپ پر ایک ہی آڈیو چار لوگوں سے موصول ہوئی تھی۔ اس آڈیو میں ایک حکیم صاحب لوگوں کو کورونا سے بچنے کے لیے سنا مکی کے استعمال کا مشورہ دے رہے تھے۔ اب وہ حکیم صاحب کون ہیں، ان کا دوا خانہ کہاں ہے، ان کا تجربہ کتنا ہے، یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بہت سے لوگوں نے ان کے کہے پر ایمان لاتے ہوئے حسبِ توفیق سنا مکی کا استعمال بھی کرنا شروع کر دیا تھا۔ کچھ پیغامات ایسے بھی تھے جنہیں پڑھ کر یقین ہو جاتا تھا کہ کورونا ایک سازش ہے۔ ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں چین میں سڑکوں پر چلتے ہوئے لوگ گرتے ہوئے نظر آ رہے تھے جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔

ہم نے پولیو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک کیا تھا۔ پوری دنیا سے پولیو ختم ہو چکا ہے، بس ہمارے ہاں اور ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں رہ گیا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ پولیو یہاں سے جانا چاہتا ہے پر ہم خود آگے بڑھ بڑھ کر اس کا راستہ روک رہے ہیں۔ پولیو کے قطرے پلانے والے جیسے کام پر نہیں جہاد پر نکلتے ہیں۔ وہ لوگوں کے بچوں کو قطرے پلا کر انہیں محفوظ کرنا چاہتے ہیں اور لوگ ان ہی کو اپنے بچوں کا دشمن سمجھ کر مارتے پیٹتے ہیں۔ وجہ وہی جھوٹی معلومات اور افواہیں۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ پولیو کے قطرے ان کے بچوں کو بانجھ بنا دیں گے۔

ان جھوٹے پیغامات اور افواہوں کا واحد حل ان کے مقابلے پر صحیح معلومات پھیلانا ہے۔ حکومت کے علاوہ بہت سے ادارے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان کے بنائے پیغامات واٹس ایپ پر فارورڈ نہیں ہوتے کیونکہ ان میں مصالحہ نہیں ہوتا۔ ہم کیوں چاہیں گے کہ کسی کو صحیح معلومات ملیں اور وہ اپنے اور اپنے بچوں کی زندگی کے لیے بہتر قدم اٹھا سکے۔ ہم ایسا کرنے لگ گئے تو کہیں تہذیب یافتہ ہونے کا لیبل ہی ہم پر نہ لگ جائے۔

اس کے باوجود ایسے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان میں ایک قابلِ ذکر ادارہ گلوبل نیبر ہڈ فار میڈیا انوویشن ہے جس کی بانی معروف صحافی ناجیہ اشعر ہیں۔ اس ادارے کا مقصد پاکستان میں میڈیا کی بہتری کے لیے کام کرنا ہے۔ ناجیہ اور ان کی ٹیم نے کورونا وائرس کے ساتھ آنے والی انفوڈیمک کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دو منٹ اور اس سے کم دورانیے کی بہت سی ایسی ویڈیو پیغامات بنائے ہیں جن میں اپنے اپنے شعبے کے ماہرین لوگوں کو وائرس سے بچائو کے بارے میں آگاہی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس دوران متعدد ٹریننگ سیشنز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جن میں ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو اس انفوڈیمک سے نبٹنے کے طریقے بتائے گئے۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ کورونا وائرس کے بارے میں مستند معلومات کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں اور سوشل میڈیا پر موجود معلومات کی تصدیق کیسے کر سکتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان کی خبروں کے ذریعے مستند معلومات حاصل ہوں۔

گلوبل نیبر ہڈ فار میڈیا انوویشن کی بنائی گئی یہ ویڈیوز ان کے فیس بک پیج پر موجود ہیں، ٹویٹر پر موجود ہیں لیکن واٹس ایپ پر موجود نہیں ہیں۔ شائد دو چار لوگوں نے ان ویڈیوز کو فارورڈ بھی کیا ہو پر یہ وائرل نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان ویڈیوز میں دیکھنے والوں کی دلچسپی کی کوئی بات نہیں تھی بلکہ میرے خیال میں ان میں وہ مصالحہ نہیں تھا جو ہم آگے بھیجنا چاہتے ہیں۔ ہم خود نہیں چاہتے کہ ہم تک صحیح معلومات پہنچیں اور ہم انہیں آگے پہنچائیں۔

ہمیں تو صرف مصالحہ چاہئیے، اب چاہے وہ ہماری صحت کے لیے خطرناک ہی کیوں نہ ہو۔ اگر آپ  کورونا کے بعد کسی اور وبا کا شکار نہیں ہونا چاہتے تو برائے مہربانی سوشل میڈیا پر پیغامات فارورڈ کرنے سے پہلے ان کی جانچ پڑتال ضرور کریں۔ ایسا پیغام جس کے بناناے والے یا بھیجنے والے کی معلومات آپ کو نہ پتا ہوں، انہیں آگے بھیجنے سے گریز کریں۔ صرف مستند ذرائع سے آنے والے پیغامات ہی آگے فارورڈ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments