کورونا وائرس: پاکستان میں ڈاکٹرز اور طبی عملہ کووڈ 19 کی ویکسین لگوانے میں تذبذب کا شکار کیوں ہیں؟


ویکسین

پاکستان میں ویکسین لگوانے کے اہل ترین افراد میں شامل ہونے پر ایک 27 سالہ ڈاکٹر کو اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرنا چاہیے تھا کیونکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ملک میں مہلک کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 12 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

ہلاک ہونے والوں میں 134 افراد طبی عملے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن یہ 27 سالہ نوجوان ڈاکٹر ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

’میرا ارادہ یہی ہے کہ میں ویکسین لگوانے والوں کی فہرست میں اپنے نام کا اندراج نہ کرواؤں۔‘ اس نوجوان ڈاکٹر نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی استدعا کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ‘ویکسین لگوانے سے ہچکچاہٹ کی وجہ یہ ہے کہ کہیں حکومت ہمیں ’گنی پِگ‘ بنا کر تجربہ نہ کر رہی ہو۔‘

فرنٹ لائن طبی عملے کو پاکستان میں کورونا وائرس کی ویکسین لگانے کی ملک گیر مہم کا آغاز دو فروری سے اس وقت کیا گیا جب چین کی مقامی طور پر تیار کردہ ویکسین کی پانچ لاکھ خوراکیں پاکستان کو عطیہ کی گئیں تھیں۔

چین کی جانب سے عطیہ کی جانے والی ویکسین سرکاری دوا ساز کمپنی سائنوفارم نے تیار کی ہے جس کا صدر دفتر بیجنگ میں واقع ہے۔ اگرچہ سائنوفارم کی ویکسین کے استعمال کی ہنگامی منظوری متحدہ عرب امارات، بحرین اور ہنگری سمیت متعدد ممالک میں دی جا چکی ہے لیکن 27 سالہ ڈاکٹر چاہتے ہیں کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے انھیں اس ویکسین کے متعلق مزید معلومات حاصل ہو جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

ویکسینیشن: سات غلط فہمیاں جنھیں دور کرنا ضروری ہے

کورونا وائرس کی ویکسین کے خلاف بے بنیاد دعوؤں کی حقیقت

چین میں سرکاری اہلکاروں پر کورونا ویکسین کے ’خفیہ تجربے‘

پاکستان میں ویکسین کی آزمائش: ویکسین کون سی ہے اور آزمائش کا طریقہ کار کیا ہے

’چونکہ سائنوفارم کی تیار کردہ ویکسین کی ابھی تک عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے منظوری نہیں دی ہے تو میں اس ویکسین سے متعلق مزید اعداد وشمار دیکھنا چاہوں گا مثلاً اس ویکسین کو کتنے لوگوں پر آزمایا گیا؟ کس عمر کے لوگوں کا بڑا حصہ اس آزمائش میں شامل تھا؟ کیا آزمائش کا حصہ بننے والے کسی اور مرض کا بھی شکار تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔‘

ویکسین

فرنٹ لائن طبی عملے کو ویکسین لگانے کی مہم کا آغاز دو فروری سے اس وقت کیا گیا جب چین کی مقامی طور پر تیار کردہ ویکسین کی پانچ لاکھ خوراکیں پاکستان کو عطیہ کی گئیں تھیں

گذشتہ برس سائنوفارم کے تیار کنندگان نے اعلان کیا تھا کہ ان کی تیار کردہ ویکسین کے فیز تین کے نتائج کے مطابق ان کی ویکسین کورونا وائرس کے خلاف 79 فیصد مؤثر ثابت ہوئی ہے جو کہ امریکی کمپنیوں فائزر اور موڈرنا کی 95 فیصد اثرانگیزی سے مقابلہ میں کم ہے۔

اس رپورٹ کے لیے رابطہ کرنے پر جن ڈاکٹروں سے رابطہ کیا ان میں سے اکثر اسی بنا پر تذبذب کا شکار ہیں، اگرچہ وہ اس حوالے سے بات کرنے پر راضی نہیں تھے۔ اس کشمکش کے سبب پاکستان میں ویکسین لگانے کا پہلا مرحلہ سست روی کا شکار ہے۔

کورونا ویکسین لگوانے کی مہم میں طبی ماہرین کو اپنے نام کا اندراج کروانے میں مدد کرنے والے کووڈ 19 کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر محمد ارسلان انور کا کہنا ہے کہ وہ سرکاری میو ہسپتال کے دس ہزار طبی عملے میں سے محض 5900 نام ہی درج کروا سکے ہیں۔

ڈاکٹر محمد ارسلان نے بتایا کہ ’بعض افراد تو اس ویکسین کے بالکل حق میں نہیں ہیں۔۔۔ لوگ اس بارے میں بہت سے سوال کرتے ہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ ایک بالکل نئی چیز ہے۔‘

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا بھی ماننا ہے کہ فرنٹ لائن طبی عملے کی کورونا ویکسین مہم توقع کے برعکس سست روی کا شکار ہے۔

ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں طبی عملے کی مجموعی تعداد دس لاکھ ہے جس میں ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف شامل ہے، ان دس لاکھ میں سے چار لاکھ فرنٹ لائن ورکرز ہیں جنھیں مہم کے پہلے مرحلے میں ویکسین لگائی جانی ہے۔

ویکسین

’ہمارا ارادہ ہے کہ ہم فرنٹ لائن ورکرز کی ویکسینیشن اگلے دو سے تین ہفتے میں مکمل کر لیں اگرچہ اس سلسلے میں پیش قدمی تو ہو رہی ہے لیکن ہاں ہمیں ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ ہر کوئی ویکسین لگوانے پر آمادہ نہیں ہے۔‘

اس وبا میں پاکستان کے مرکزی فیصلہ ساز ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق ویکسین لگانے کی مہم کے دو فروری سے آغاز سے لے کر اب تک ملک بھر کے 27 ہزار طبی عملے کے اراکین کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔

10 فروری کو ایک ٹویٹ کے ذریعے وفاقی وزیر اسد عمر نے اعلان کیا کہ مارچ میں شروع ہونے والے دوسرے مرحلے میں باقی بچ جانے والے طبی عملے اور 65 سال سے زائد عمر کے افراد کی ویکسینیشن کی جائے گی۔

اگرچہ پاکستان ابھی تک محض چینی ساختہ ویکسین ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے لیکن امید کی جا رہی ہے کہ فروری کے اختتام تک پاکستان کوویکس نامی عالمی پروگرام کے تحت ایک کروڑ 71 لاکھ سے زائد ویکسین کی خوراکیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

کوویکس کے تحت ملنے والی ویکسین کی بڑی تعداد برطانوی ساختہ ’آسٹرازنیکا/ آکسفورڈ‘ پر مشتمل ہو گی جبکہ ایک قلیل تعداد میں فائزر کی ویکسین بھی شامل ہو گی۔

معاون خصوصی برائے صحت کے مطابق اس کھیپ کے بعد طبی عملے کے پاس انتخاب کرنے کے مواقع دستیاب ہوں گے، اس خیال سے قطع نظر وہ پھر بھی سائنوفارم ویکسین کے حوالے سے مطمئن ہیں کہ یہ طبی عملے کے لیے ایک ‘معقول اور دستیابی’ کی بنا پر صیح ویکسین ہے۔

ڈاکٹر فیصل کہتے ہیں کہ ’دل کی بات کہوں تو میں یہ (سائنو فارم) ویکسین آج ہی لگوا لوں۔ میں 58 سال کا ہوں اور ویکسین لگوانے کا اہل بھی ہوں لیکن صرف اس بنا پر کیونکہ آج کل میں ایک فرنٹ لائن ہیلتھ ورکر نہیں ہو میں نے یہ ویکسین نہیں لگوائی ہے۔‘

ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ طبی عملے کو یہ ویکسین لگوانے پر قائل کرنے کے لیے حکومت متنوع قسم کی عوامی آگاہی مہم شروع کر رہی ہے جس میں سائنوفارم ویکسین لگوانے والے بااثر ڈاکٹر حضرات اس ویکسین کی سند دیں گے۔ اس کے علاوہ فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر ڈاکٹر فیصل سلطان اس چینی ساختہ ویکسین کی بابت پوچھے جانے والے عام سوالوں کے جواب بذات خود دیں گے۔

ڈاکٹر فیصل کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگوں کو اعدادوشمار دکھانے ہوں گے، ہمیں اس اعتماد سازی کے لیے سند دینی ہو گی، ہمیں اس ضمن میں ہونے والے تبادلہ خیال کو شفاف اور کھلا رکھنا ہو گا۔‘

دوسری طرف پنجاب کے ایک کورونا وارڈ میں حاضر ڈیوٹی ڈاکٹر ثنا رفیق کو کسی کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں پڑی اور چھ فروری کو انھوں نے سائنوفارم ویکسین لگوا لی۔

اگرچہ ڈاکٹر ثنا نے تسلیم کیا کہ پہلے وہ اس ویکسین کے موثر ہونے کے حوالے سے تحفظات رکھتی تھیں لیکن پھر ان کی اس حوالے سے سینیئر ڈاکٹرز سے بات ہوئی۔

ڈاکٹر ثنا کے مطابق ’انھوں نے مجھے سمجھایا کہ ہم جو فرنٹ لائن پر اس مہلک وائرس سے لڑ رہے ہیں ہمیں ایک انتہائی خاص موقع ملا ہے اور ہمیں اس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’الحمدللہ ویکسین لگوانے کے بعد سے میں محفوظ اور تندرست ہوں، اس ضمن میں میرے تمام خدشات جائز نہیں تھے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp