مردوں میں برتھ کنٹرول


کچھ عرصہ پہلے اینڈوکرنالوجی ڈپارٹمنٹ (Endocrinology department) میں ایک پاکستانی ڈاکٹر نے روٹیشن (Rotation) کی۔ اس نے مجھے مردوں میں برتھ کنٹرول کے بارے میں ایک بہت مزاحیہ واقعہ بتایا۔ ایک دن وہ کراچی میں ایک کلینک میں کام کر رہی تھی جہاں ایک مریض نے شکایت کی کہ ڈاکٹر صاحبہ میں کانڈوم (Condom) استعمال کر رہا ہوں لیکن ہمارے بچے ہونا بند نہیں ہو رہے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ آپ کانڈوم کس طرح استعمال کر رہے ہیں؟

اس کے جواب میں اس مریض نے کہا کہ میں اس کو جنسی تعلق سے پہلے پورے پندرہ منٹ چباتا ہوں۔ یہ سن کر اس نے کہا کہ اچھا مجھے دو منٹ دیں۔ پھر وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور وہاں جا کر خوب ہنسی۔ اسی کے بارے میں ایک افریقہ کا قصہ بھی مشہور ہے جس میں کیتھولک مشنری ہسپتال کے ڈاکٹروں نے گاؤں میں افراد کو کانڈوم کا استعمال سکھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے لکڑی پر کانڈوم چڑھا کر ان کے سامنے مظاہرہ کیا۔ لیکن کچھ برسوں میں بچے پیدا ہونے کی تعداد میں کچھ کمی پیدا نہیں ہوئی جبکہ ان افراد نے قسمیں کھائیں کہ وہ ہدایات پر پورا عمل کر رہے ہیں۔ جب یہ ڈاکٹر گاؤں میں واپس گئے تو انہوں نے یہ دیکھا کہ ان افراد نے اپنے صحن میں لکڑیوں پر کانڈوم چڑھائے ہوئے ہیں۔

ایک صاحب نے ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے مردوں میں برتھ کنٹرول کے مضمون پر تبصرہ لکھتے ہوئے کہا کہ ”ڈاکٹر صاحبہ، مجھے افسوس ہے کہ ایک خالص میڈیکل پرابلم اور انسانی جبلت کے تقاضوں پر بات کرتے ہوئے اپ اپنے مقصد اور اپنے فرض کو بھول کر کسی عام عورت کی طرح فیمنسٹ ہو جاتی ہیں اور مرد کے خلاف جارحانہ جذباتی بیانیہ میں ڈاکٹر سے زیادہ افسانہ نگار بن جاتی ہیں“ ۔

ڈاکٹر طاہرہ مردوں میں برتھ کنٹرول کے طریقوں پر کسی میڈیکل جرنل کے لیے رویو آرٹیکل (Review article) نہیں لکھ رہی تھیں۔ انہوں نے عام افراد سے اس عام زبان میں بات کی جس کو وہ سمجھتے ہیں۔ ہم سب عام انسان ہی ہیں۔ میری نانی جو بریسٹ کینسر (Breast cancer) سے بغیر علاج کے مر گئی تھیں اور میری امی جو اپنی زندگی میں گیارہ مرتبہ حاملہ ہوئیں اور ہمیں پیدا کرتے ہوئے مرنے کے قریب پہنچ گئیں، وہ بھی عام عورتیں ہی تھیں۔

عورتوں کی اپنی زبان پہلے سے ہی نہیں ہے۔ دنیا کا ننانوے اعشاریہ ننانوے لٹریچر مردوں کا لکھا ہوا ہے۔ پرانے زمانے کی خواتین جو کچھ عقل مند الفاظ کہہ گئیں وہ بھی آدمیوں نے اپنے ناموں سے آگے بڑھائے۔ جو بچے وہ نو مہینے پیٹ میں رکھ کر تکلیف سے پیدا کرتی ہیں ان کو بھی آدمی اپنا نام دے دیتے ہیں۔ جو بھی مرد لکھاری لکھ رہے ہیں، ان کی مائیں، بہنیں، بیویاں ان کے لیے کھانا پکاتی ہیں اور ان کے کپڑے استری کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے پاس لکھنے کے لیے فارغ وقت نکلتا ہے۔ یہ تمام حقائق ہیں۔ کون کہہ رہی ہیں؟ کیسے کہہ رہی ہیں؟ ان سوالات اور اعتراضات سے کچھ فاصلہ رکھ کر اگر ان کے پیغام پر توجہ دی جائے تو بہتر ہے۔

معترض صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ”آپ نے فرض نہیں یقین کر لیا ہے کہ دنیا کے سو فی صد مرد جنسی عمل کے وقت جبر اور زبردستی سے کام لیتے ہیں۔ ممکن ہے آپ کا ذاتی تجربہ ایسا ہی ناخوشگوار ہو اور آپ بیتی کو جگ بیتی کے طور پر پیش کرتے ہوئے آپ کو لاشعوری طور پر انتقامی جذبات کی تسکین ملتی ہو لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔“ آپ بیتی بھی ہو اور عملی بھی نہ ہو، یہ دونوں متضاد باتیں ہیں۔ ڈاکٹر طاہرہ نے اپنے مشاہدات کے مطابق پدرانہ سماج پر تنقید کی ہے۔

جن افراد نے بھی ابراہیمی مذاہب کا مطالعہ کیا ہے، وہ جانتے ہوں گے کہ یہودیت میں اگر کسی مرد کے علم مین آئے کہ اس کی بیوی شادی کی رات کنواری نہیں تھی تو اس کو اس کے باپ کے گھر کے سامنے سنگسار کر سکتا ہے۔ ایک اور مذہبی روایت کے مطابق اگر ایک عورت اپنے شوہر کو جنسی تعلق سے انکار کرے تو فرشتے اس پر رات بھر لعنت بھیجتے ہیں۔ زبردستی صرف جسمانی نہیں ہوتی۔ پدرسری نظام ایک ایسا جبری نظام ہے جس میں صرف جسم ہی نہیں بلکہ ذہن بھی جکڑے ہوئے ہیں۔

اس نظام کے اندر کوئی بھی صاحب ایک خاتون لکھاری کو خواتین کے مسائل کے بارے لکھنے پر ان کو ٹوکنا اور درست کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بہت سی خواتین ایسی ہیں جن کو یہ تک معلوم نہیں کہ وہ ’نہ‘ بھی کر سکتی ہیں یا ان کی زندگی کا مقصد کسی اور کے لیے جینا نہیں بلکہ اپنے لیے جینا ہے۔ جن افراد کو کسی نظام کے اندر پہلے سے ایک اونچا مقام حاصل ہو اور ان کے حقوق کی پامالی نہ ہوتی ہو بلکہ وہ نظام ان کی ضروریات اور خواہشات کے گرد کھڑا کیا گیا ہو تو وہ اس میں موجود خامیوں سے یا اس کے نتیجے میں ہونے والی نا انصافیوں سے نابینا ہوتے ہیں۔

یہ بات مجھے خود بہت برسوں کے بعد سمجھ میں آئی کہ میری تمام زندگی کی تعلیم اور تربیت کا زیادہ تر حصہ ایک سفید فام آدمی کی صحت بہتر بنانے کے مقصد کے گرد گھومتا ہے۔ یہ ایک نہایت طویل اور پیچیدہ موضوع ہے جس پر الگ سے مضمون لکھنے کی ضرورت ہو گی۔ اسی لیے صحت اور تعلیم اور دیگر تمام شعبوں میں خواتین کی نمائندگی کی اہمیت ہے۔ ہم ایک گھوڑے کو پانی تک لا سکتے ہیں لیکن اس کو یہ پانی پینے پر مجبور نہیں کر سکتے ہیں۔ میں یہی سمجھتی ہوں کہ اپنی طرف سے لوگوں کو تعلیم یافتہ کرنے کی کوشش کرنے کے بعد ہمیں ان کو پیچھے چھوڑ کر گزر جانا ہو گا۔ وقت سب کو سب کچھ سکھا دیتا ہے۔

معترض صاحب لکھتے ہیں : ”میں تناسب کیا بتاؤں لیکن مرد عورت دو جانور نہیں ہوتے۔ وہ ازدواجی زندگی میں کتنی بھی سختی حالات کا سامنا کریں اور دن کیسی بھی ذہنی یا جسمانی پریشانی میں گزاریں، رات کو خلوت میں جسمانی اور جنسی قربت ان کے لیے سب سے موثر ٹرینکلازر ہوتی ہے جو ان کی ذہنی اور جسمانی تھکن کا درماں بن جاتی ہے اور ایک دوسرے کے وجود سے اتصال میں وہ لطف کے ساتھ جو پرسکون نیند کشید کرتے ہیں، وہ زندگی کی توانائی دیتی ہے۔ ممکن ہے کبھی مرد نے عورت کی مرضی یا خواہش کو بلڈوز بھی کیا ہو لیکن یہ روٹین نہیں ہو سکتا۔“

آج 14 فروری کا دن ہے، تمام دنیا محبت کا دن منا رہی ہے۔ محبت دنیا کا سب سے عظیم جذبہ ہے اور اگر کسی کی ازدواجی زندگی کی بنیاد برابری کے ساتھ محبت کے عظیم جذبے پر کھڑی ہو تو وہ ایک خوش نصیب جوڑا ہے۔ اور میری یہی خواہش ہے کہ دنیا میں تمام طرح کے جوڑے ایسے ہی خوش نصیب ہوں۔ بدقسمتی سے دنیا بھر میں عزت کے نام پر قتل ہونے والی ہر پانچویں خاتون پاکستان میں ہے۔ آج بھی زیادہ تر شادیاں خاندان طے کرتے ہیں جن میں فریقین، خاص طور پر لڑکیوں کی مرضی شامل نہیں ہوتی۔

شادی کے اندر جبری جنسی تعلق (Marital rape) کو آج بھی کئی ممالک میں جرم نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ان صاحب کے خیالات ہمارے معاشرے کی تعلیم یافتہ اوپری مڈل کلاس کے اوسط آدمی کی طرح کے ہیں۔ یہ لوگ پڑھ لکھ گئے، اچھی نوکریوں پر لگ گئے، اپنی بیویوں کا ہر طرح خیال رکھا اور لڑکے لڑکیوں سب کو تعلیم دلوائی۔ اب یہ بڑھاپے میں نیم ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں۔ مشاعروں میں جانا، دوستوں کے ساتھ بیٹھک لگا کر اسلام اور سیاست پر بحث کرنا اور اپنی بیگمات کے ہاتھ سے بنی بریانی کھانا اور ان کا مذاق اڑانا ان کی مصروفیات میں شامل ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments