جموں، گلگت، لداخ اور کشمیر: (ڈاکٹر جمیل احمد میر کے جواب میں)



آج ”ہم سب“ پر محترم ڈاکٹر جمیل احمد میر کا تحریر کردہ مضمون ”ایک کشمیری کا خواب اور قصہ چند ملاقاتوں کا“ پڑھنے کا موقع ملا، ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ ”کیسی کیسی چنگاری ہمارے خاکستر میں ہے“ انداز تحریر سے کسی پارینہ شخصیت کے انداز تحریر سے مماثلت کا شائبہ ہوا۔

ڈاکٹر صاحب نے دوستوں اور مہربانوں کے ہاتھوں اپنی ”شہادت عظمیٰ“ کا ذکر فرما کر قارئین کی سوچ کو مہمیز دی ہے، کہ وہ کون سا ایسا جرم یا گناہ ہے، جس نے محترمی کو اس خدشے میں مبتلا کر دیا ہے۔

ایک میڈیکل ڈاکٹر جو بقول خود ان کے ”ان معاملات“ میں بے اثر اور معصوم بھی ہو، اس کو کس سے کس پاداش میں ہلاک کر دیے جانے کا خدشہ ہو سکتا ہے، جب ڈاکٹر صاحب خود اپنی مروجہ سیاست اور حرکیات میں نااہلی اور ناواقفیت کا اظہار فرما رہے ہیں تو سمجھ نہیں آتا کہ وہ کون سی ایسی پوشیدہ ”خصوصیت“ ہے جس کی وجہ سے انہیں بقول ان کے وزارت عظمیٰ کی آفر تک کی گئی، جس کو بوجوہ نہ تسلیم کرنے کے ساتھ وہ کون سا ایسا شعبہ ہے جس سے محترم کشمیر کو آزاد کروانے کی دنیا سے ”پوشیدہ“ قسم کی جدوجہد فرما رہے ہیں۔

محترم اچھے باخبر اور تعلیم یافتہ بلکہ تربیت یافتہ بھی محسوس ہو رہے ہیں، ان کی تیز نگاہوں سے لداخ، اور تبت خورد یعنی گلگت بلتستان کو ”کشمیر“ میں شامل کیے جانے کی خون آشام داستان نہ گزری ہو، اس کا امکان نہیں۔ مشہور سکالر اور ڈوگرہ مہاراجہ کی طرف سے اس وقت کی ریاست کے مختلف انتظامی حصوں کے گورنر رہ چکے ”تاریخ جموں“ جیسی تاریخی دستاویز کے مصنف، مولانا حشمت اللہ خان کا یہ قول کہ ”یہ جو کشمیر آپ کو نظر آ رہا ہے، یہ پہلے مغلوں ، پھر سکھوں اور پھر ڈوگروں کی تلوار کا زور تھا، جو جہاں تک پہنچا ان علاقوں کو“کشمیر” بنا دیا۔

ان بیرونی قابضین کے درمیانی وقفوں میں ان علاقوں کے قدیم مقامی حاکم خاندان، پھر سے اپنی اپنی ریاستوں کا انتظام سنبھال لیتے اور اگلا آنے والا قابض ان پر حملہ کر کے انتہائی ظلم و ستم روا رکھ کر دوبارہ ان کو محکوم بنا لیتا اور ان کے علاقوں کو اپنے زیر قبضہ علاقوں میں شامل کرتا۔ لداخ کی فوج کے بدھ سپہ سالار“ پنکھاپا ”کو جب ڈوگرہ جرنیل زور آور سنگھ کے حملے کی اطلاع ملی تو اس نے بندھے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر فرار ہونے کی کوشش کی ، اس پر لداخی زبان میں“ پنکھاپا کا گھوڑا ”ایک محاورہ بن گیا جو وہاں آج تک بولا جاتا ہے، تو ڈاکٹر صاحب نے بھی اس تحریر کے ذریعے“ پنکھاپا کے گھوڑے ”کا ہی کردار ادا کیا ہے، کیونکہ محترمی کا زیادہ ارتکاز کشمیر آزاد کروانے سے زیادہ گلگت بلتستان کی آزادی پر مرکوز محسوس ہوتا ہے۔

اور بقول ان کے، صاحب کے ساتھ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے متعلق گفتگو میں زیادہ بلکہ تمام استفسار پاکستان پر عائد شرائط تک محدود رہا اور غلطی سے بھی بھارت کی طرف سے کسی وعدہ خلافی اور جارحیت کا کوئی ذکر نہیں آیا۔

کشمیر بنیادی طور پر ایک ایسی لسانی و ثقافتی اکائی ہے، جس کی تخصیص پچھلے پانچ ہزار سال کی تحریر شدہ تواریخ سے لے کر آج تک بدستور اپنی اصل شکل میں برقرار ہے، اس وقت بھی تھی جب جموں ایک غیر آباد تالاب ہوا کرتا تھا، جہاں جنگلی جانور پانی پینے آیا کرتے تھے، یعنی جموں کا وجود ہی نہیں تھا۔

کشمیر تب بھی اور آج بھی وہی اپنا مخصوص لسانی اور ثقافتی تشخص رکھنے والا ایسا علاقہ تھا اور ہے، جس کو ملحقہ علاقوں سے آج بھی واضح طور پر الگ دیکھا اور پہچانا جا سکتا ہے۔ کشمیر کی پانچ ہزار سال کی تاریخ پر مبنی پنڈت کلہن کی مشہور تصنیف ’’راج ترنگنی“ پر تحقیق کرنے والے عالمی پائے کے تاریخ دان اور ماہر آثار قدیمہ سر سٹائن 1892 میں کشمیر آئے اور راج ترنگنی میں بیان کردہ مقامات اور واقعات کی صداقت پر تحقیق کی، پروفیسر سٹائن بھی کشمیر اسی آج کی لسانی اور ثقافتی اکائی، جہاں آج بھی کشمیری زبان اور مخصوص اور منفرد کلچر موجود ہے کو ہی کشمیر قرار دیتے ہیں۔

اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ اسی لسانی و ثقافتی وحدت، یعنی قدیم کمراز اور مراز پر مبنی وادی کشمیر میں تحریک آزادی، غاصبوں اور قابضوں کے مسلسل ظلم و ستم اور سازشوں، کے باوجود مسلسل جاری ہے جبکہ جموں، لداخ اور گلگت بلتستان میں ایسی کوئی تحریک نہیں ہے، بلکہ ڈوگرے جن کی زبان اور ثقافت چنبہ، پٹھانکوٹ اور بھارتی طرف کی ہمالیہ کی ترائی کے علاقوں پر مشتمل ہے، خود کو بزعم خود نسلی افتخار کی وجہ سے بھارت کا بازوئے شمشیر زن اور سر کا تاج سمجھتے ہیں، وہ معاشی فوائد کی وجہ سے یا معاشی استحصال کے ڈر سے، اپنا تشخص قائم رکھنا چاہتے ہیں لیکن بھارت میں رہ کر۔

اسی طرح لداخ کی بدھ اکثریت ساٹھ سال سے باقاعدہ مرکز یعنی بھارت کے ساتھ مکمل انتظامی طور پر ادغام اور ریاست جموں کشمیر سے علیحدہ کیے جانے کے مطالبے پر باقاعدہ تحریک چلاتی رہی ہے، اسی طرح گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت پاکستان کے ساتھ ادغام کی حامی ہے۔

ان متذکرہ بالا علاقوں میں کوئی اکثریتی تحریک آزادی نہیں ہے، یہ قابضین کے طاقت کے بل پر فتح اور کشمیر کے ساتھ شامل کیے گئے علاقے تھے۔ آج ان قدیم قابضین و فاتحین کا کوئی وارث بننا چاہتا ہے تو اس کا واحد طریقہ وہی ہے، جس طرح پہلے یہ علاقے فتح اور ادغام کیے جاتے رہے یعنی ظلم و ستم اور طاقت کے بل پر۔ آج جس کے پاس ان علاقوں کو اسی طرح وہاں کے عوام کی خواہشات کے برعکس فتح کرنے کی طاقت ہو، تو وہی یہ دعویٰ کر سکتا ہے ورنہ خواہشات پر قابضین کی وراثت نہیں ملا کرتی۔

بلکہ یہ موقف اصل مسئلہ کشمیر کی تحلیل کے مترادف ہے جو کبھی پایۂ تکمیل پر پہنچنا ممکن نہیں۔ دراصل یہی مسئلہ کشمیر پر جاری جمود کی اصل وجہ بھی ہے۔ پچاس کی دہائی میں اقوام متحدہ کے مقرر کردہ نمائندے، سر اون ڈکسن نے بھی ریاست کا دورہ کر کے یہ حقیقت بھانپ لی تھی، اسی حقیقت کے پیش نظر ہی اس نے ریاست کے مختلف حصوں میں الگ الگ رائے شماری کی تجویز پیش کی تھی تاکہ ان علاقوں کے عوام کی اصل خواہشات کی درست ترجمانی ہو سکے۔ اور آج کے حالات میں مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کا یہ واحد ممکن طریقہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments