وزیراعظم صاحب! اب بھی وقت ہے


حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی لڑائی جاری ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف اپنی پروپیگنڈا ٹیم کے ذریعے حملے کیے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم نہیں کر رہے۔

عام طور پر ماضی کی حکومتیں آئین میں ترامیم اور بل پاس کروانے کے لیے اپوزیشن سے مذاکرات کیا کرتیں تھیں۔ موجودہ حکومت اصلاحات اور تبدیلی کے لئے متبادل راستے تلاش کر رہی ہے۔ سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ کے معاملے کو دیکھ لیں، حکومت پہلے ریفرنس دائر کرتی ہے، پھر آئینی ترمیم کے ذریعے اسمبلی میں بل کا شوشہ چھوڑتی ہے، آخر میں صدارتی آرڈیننس۔

بہرحال الیکشن کمیشن یہ کہہ چکا ہے کہ وہ ایک آئینی ادارہ ہے اور آئینی اعتبار سے دو تہائی اکثریت سے قانون ساز اسمبلیوں سے بل پاس کرانا ہو گا۔ اپوزیشن کی جماعت پیپلز پارٹی صدارتی آرڈیننس کو عدلیہ کو بدنام کرنے کی حکومتی کوشش گردان رہی ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ابلاغ اور پروپیگنڈے کی اس جنگ میں بظاہر اپوزیشن بھاری نظر آتی ہے۔ حکومت کے ترجمانوں کی ٹیم اپوزیشن کے بیانیے کو کمزور کرنے میں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے کیونکہ جس مہارت اور تکنیک کی ضرورت ہے وہ دکھائی نہیں دے رہی۔ بہر حال اپوزیشن نے مارچ کے مہینے میں لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ اس سال کے اختتام تک عوام یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ 2023 تک عمران خان وزیراعظم رہیں گے یا پھر کوئی اور۔

لانگ مارچ ہی اصل میں اپوزیشن کا آخری سپیل ہے یعنی اس سال پڑنے والے اس فائنل میچ میں حالات واضح ہو جائیں گے۔ اب تک کی صورت حال حکومت کے حق میں ہے مگر بڑھتی مہنگائی ایسا مسئلہ ہے جس کی بنیاد پر اپوزیشن عوام کو بڑی تعداد میں گھروں سے باہر نکال سکتی ہے۔ موجودہ اپوزیشن کے اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو دیگر جماعتوں کے ساتھ ایک مقصد کے لئے اکٹھا کر دیا ہے، وہ اس کامیابی کے حق دار ضرور ہیں، جس کے لئے انہوں نے بڑی محنت کی ہے۔

پارلیمنٹ میں دونوں جانب سے ایک دوسرے پر ملک دشمنی کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ عوام کو ان کی حب الوطنی پر شک نہیں مگر ایسے الزامات روز جب عام آدمی سنتا ہے تو کچھ اچھا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ حکومت سے عوام کی توقعات ہیں۔ وزیراعظم متعدد بار مہنگائی میں اضافے کا نوٹس لے چکے ہیں مگر اس کا اثر کچھ خاص نہیں۔ گزشتہ 15 ماہ میں حکومت نے ریکارڈ قرض لیا۔ عالمی مالیاتی ادارے قرضوں کے ساتھ سخت شرائط بھی لگا رہے ہیں۔

اب تو حالات پارکوں کو گروی رکھنے تک پہنچ چکے ہیں۔ اڑھائی سال حکومت نے سخت فیصلے بھی کیے مگر عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ حکومت کو اب ہر صورت ڈیلیور کرنا ہے۔ ماضی کی حکومتوں پر ملبہ ڈالنے سے اب کام نہیں چلے گا۔ اپوزیشن سینیٹ میں چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کامیاب نہیں ہو سکی اور پارلیمنٹ میں بھی اس کی کامیابی کے امکانات کم ہے۔ یہ حکومت کی کامیابی ہے مگر ایسی ہی حکمت کا استعمال عوام کے لئے بھی کرنا ہو گا۔

حکمت اور فن سیاست یکجا ہو جائیں تو یہ نفع کا باعث ہے۔ موجودہ صورتحال مین حکومت ان دونوں خوبیوں کا استعمال اپوزیشن کی چالوں کے خلاف تو کر رہی ہے مگر بڑھتی مہنگائی اور منافع خور مافیا کے خلاف اب تک ناکام ہے۔ حکمرانوں کی حکمت یہ ہونی چاہیے کہ عوام کو ریلیف کی شکل میں آسانیاں منتقل کریں۔ عوام یہ بات محسوس کریں کہ حکمران ان کے لیے رحمدل ہیں۔ تب ہی کوئی حکومت عوام کے منظور نظر ہو سکتی ہے۔

سیاست اور حکمرانی کی حکمت یہ بھی ہے کہ وہ اقرباپروری اور کرپشن کا خاتمہ کرے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نامی تنظیم جس کا کام دنیا بھر میں بدعنوانی پر نظر رکھنا ہے، اس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 4 درجے تنزلی کے بعد 180 ممالک کی فہرست میں 124 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت 2018 میں اقتدار پر براجمان ہوئی اور گزشتہ اڑھائی برسوں سے کرپشن کے خاتمے کا عزم دہراتی آئی ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا بیان نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے ناکامی کو تسلیم کیا اور کہا کہ کرپشن میں اضافے کی وجہ قانون سازی میں ناکامی ہے۔

یاد رہے OECD اور سوئٹزرلینڈ سے کیے گئے معاہدوں کے بعد اب سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے لئے اپنی دولت بیرون ملک رکھنا یا منتقل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سب سے زیادہ کرپشن کی نشاندہی سرکاری اداروں میں کی ہے جبکہ سیاسی جماعتیں، عدلیہ اور میڈیا بھی اس کلچر سے مبرا نہیں۔

آج میڈیا عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر سوال اٹھاتا ہے۔ یہ یقیناً ایک بہترین امر ہے کیونکہ صحافی کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ تنقید برائے تنقید کے بجائے تنقید برائے اصلاح کرے۔ پی ٹی آئی جب اپوزیشن میں تھی تب نچلی سطح پر مسائل کے حل کے لئے بلدیاتی نظام میں اصلاحات اور بروقت انتخابات پر زور دیا کرتی تھی جبکہ موجودہ صورتحال اس حوالے سے سابقہ حکومتوں سے مختلف نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے رپورٹ طلب کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ جو بھی انتخابات ہوں گے وہ عدلیہ کے حکم پر مجبوری میں کرائے جائیں گے۔ عمران خان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر ان کے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات وقت پر نہ ہو نے پر زبردست تنقید کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے قوم سے وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ اپنی حکومت میں وقت پر انتخابات بھی کرائیں گے اور اصلاحات کر کے بلدیات سے جڑے اداروں کو با اختیار بھی بنائیں گے۔

حکمرانی اور تخت نشینی طویل عرصہ نہیں رہتیں، لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ یاد وہی رہتے ہیں جو بہترین انصاف کرتے ہیں۔ ارباب اختیار سے کہوں گا کہ اب بھی وقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments