بھارت: کسانوں کے احتجاج کی حمایت پر ماحولیاتی کارکن کی گرفتاری، حکومت پر تنقید


دیشا روی (فائل فوٹو)

بھارت میں کسانوں کے احتجاج کی حامی ایک ماحولیاتی کارکن کی گرفتاری پر خاصا شور ہے۔ سیاسی و سماجی کارکن اور دیگر حلقے دیشا روی کی گرفتاری کی سخت الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں۔

بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی سمیت کئی رہنماؤں نے دیشا روی کی گرفتاری پر ٹوئٹ کیے ہیں۔

راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی دونوں نے اپنے ٹوئٹ میں اشعار کے ذریعے دیشا کی حمایت کی۔ راہول گاندھی نے لکھا کہ “بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، بول کہ سچ زندہ ہے اب تک۔”

دوسری جانب پریانکا گاندھی نے لکھا کہ “ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے، پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے۔”

نئی دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی دیشا کی گرفتاری پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دیشا کی گرفتاری جمہوریت پر حملہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ کسانوں کی حمایت کرنا جرم نہیں ہے۔

دیشا روی کی گرفتاری

دہلی پولیس نے 22 سالہ ماحولیاتی کارکن دیشا روی کو بھارت میں کسانوں کے احتجاج کی حمایت میں ایک دستاویز بنانے اور اسے پھیلانے کے الزام میں ہفتے کو گرفتار کیا تھا۔

یہ دستاویز سوشل میڈیا پر ‘ٹول کٹ’ کے نام سے گردش کر رہی ہے اور بھارت میں ان دنوں اس پر بحث بھی ہو رہی ہے۔ کسانوں کے احتجاج کی حمایت کے طریقۂ کار پر مشتمل یہ دستاویز سب سے پہلے معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھن برگ نے ٹوئٹ کی تھی۔

ٹول کٹ میں کیا ہے؟

ٹول کٹ ایک گوگل ڈاکیومنٹ ہے جس کے ابتدائی چند پیراگراف میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں کسان احتجاج کیوں کر رہے ہیں۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھارت کی تاریخ رہی ہے۔ بھارتی کسانوں اور دیگر شہریوں کو عالمی برادری کی توجہ کی ضرورت ہے۔

دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ یہ ڈاکیومنٹ ان افراد کے سمجھنے کے لیے ہے جنہیں بھارت میں کسانوں کے احتجاج کی تفصیلات کا علم نہیں۔ تاکہ وہ پڑھ کر یہ فیصلہ کر سکیں کہ اگر انہیں بھی کسانوں کی حمایت کرنی ہے تو وہ کن طریقوں سے احتجاج کا حصہ بن سکتے ہیں۔

ٹول کٹ میں کچھ ہیش ٹیگز بھی دیے گئے ہیں اور مختلف طریقے بتائے گئے ہیں جن کے ذریعے کوئی بھی شخص سوشل میڈیا پر کسانوں کے احتجاج کی حمایت کر سکتا ہے۔

دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کی رہائش گاہ کے سب سے قریب جو بھارتی سفارت خانہ ہو یا پھر اپنے مقامی میڈیا ہاؤسز کے سامنے یا حکومتی دفاتر کے سامنے مظاہرے کریں۔

ٹول کٹ میں حکومتی عہدے داروں کو کال یا ای میل کر کے ان سے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

پولیس کیا کہتی ہے؟

دہلی پولیس نے دیشا کی گرفتاری سے متعلق ٹوئٹر پر بیان جاری کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر پائی جانے والی ٹول کٹ نامی دستاویز کا نوٹس لیا ہے جو پولیس کے بقول 26 جنوری کو دہلی میں ہونے والے پرتشدد واقعات سے ملتا جلتا منصوبہ ہے۔

پولیس کا الزام ہے کہ ٹول کٹ نامی یہ دستاویز بھارت میں علیحدگی پسند خالصتان تحریک کے حامیوں نے بنائی ہے اور یہ ملک میں انتشار پھیلانے کی سازش ہے۔

دہلی پولیس کے مطابق ٹول کٹ کی تیاری اور اسے پھیلانے میں دیشا روی کا ہاتھ ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دیشا روی ٹول کٹ کی ایڈیٹر اور سازش کا کلیدی کردار ہیں۔

دہلی پولیس نے الزام عائد کیا ہے کہ دیشا روی نے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا اور ٹول کٹ بنانے میں کچھ لوگوں کی معاونت کی۔ پولیس کے مطابق ان افراد نے خالصتانی تحریک کی حامی ایک تنظیم کے ساتھ کام کرتے ہوئے بھارتی ریاست کے خلاف مایوسی پھیلائی۔

دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ دیشا روی نے اس دستاویز کو گریٹا تھن برگ تک پہنچایا اور بعد ازاں گریٹا سے اس دستاویز کو ہٹانے کے لیے بھی کہا۔

واضح رہے کہ گریٹا نے پہلے ایک دستاویز شیئر کرنے کے بعد اس ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا تھا اور پھر ‘اپ ڈیٹڈ ٹول کٹ’ کے نام سے دوبارہ ایک دستاویز ٹوئٹ کی تھی۔

دیشا روی کا مؤقف

دیشا روی نے اتوار کو عدالت میں پیشی پر ان الزامات کی تردید کی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق دیشا نے کہا کہ “میں نے یہ دستاویز نہیں بنائی۔ ہم صرف کسانوں کی حمایت کرنا چاہتے تھے۔ میں نے تین فروری کو اس کی صرف دو سطور ایڈٹ کی تھیں۔”

عدالت نے سماعت کے بعد دیشا روی کو مزید تفتیش کے لیے آئندہ پانچ روز تک پولیس کی تحویل میں دے دیا ہے۔

دیشا روی کون ہیں؟

دیشا روی کا تعلق بھارت کے شہر بنگلور سے ہے اور وہ ایک ماحولیاتی کارکن ہیں۔ وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں دہلی پولیس نے “ٹول کٹ کیس” میں گرفتار کیا ہے۔

دیشا روی کی گرفتاری پر حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاری ایک واضح تنبیہ ہے کہ جو بھی شخص حکومت مخالف احتجاج کی سپورٹ کرے گا، اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments