سینیٹ انتخاب: ’پیسے کے بل بوتے پر کامیابی کے خواہشمند افراد‘ بلوچستان کا رخ کیوں کرتے ہیں؟


سنہ 2003 میں بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن نے اس وقت سیاسی حلقوں کو حیران کر دیا تھا جب انھوں نے سینیٹ کے انتخاب میں ووٹ کے لیے مبینہ طور پر ملنے والی رقم واپس کر دی تھی۔

پاکستان میں اگلے ماہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ یہ انتخابات ہر حکومتی جماعت کے لیے ہمیشہ اس لیے اہم رہے کیونکہ ایوان بالا میں اکثریت حاصل کرنے سے قانون سازی میں بہت آسانی ہو جاتی ہے۔

سینیٹ کا انتخاب ملک میں کافی عرصے سے مخلتف تنازعات کا باعث رہا ہے اس کی ایک وجہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت پر اپنے امیدواروں کو منتخب کروانے کے لیے پیسے کے ذریعے ووٹ خریدنے کے الزامات ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس سابق رکن اسمبلی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ رقم انھیں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک بزنس مین نے سینیٹ کے انتخاب میں ووٹ دینے کے لیے دی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ اس شخص کو ایک بڑی پارٹی کی جانب سے ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس پارٹی سے ’تعلق کے باعث میرا نام ان اراکین اسمبلی کے پینل میں شامل کیا گیا تھا جنھوں نے اس کاروباری شخص کو ووٹ دینے تھے۔ انھوں نے ووٹ ڈالنے کے لیے رقم کی ادائیگی ایڈوانس میں کی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پارٹی قیادت نے ووٹ ڈالنے سے پہلے ان کا نام کاروباری شخص کو ووٹ ڈالنے والے اراکین کے پینل سے نکال دیا جس کے باعث میں نے ان کو ووٹ نہیں دیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

‘سینیٹ کے حلال اور حرام کے ووٹ’

سینیٹ انتخابات: اوپن بیلٹ کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری

سینیٹ کی اہمیت اور اہم قانون سازی

سنہ 2003 میں وہ شخص بلوچستان سے سینیٹ کے انتخابات میں کامیاب ہو گیا تھا۔

سابق رکن بلوچستان اسمبلی نے بتایا کہ ’ووٹ نہ دینے کے باوجود کامیابی کی خوشی میں وہ شخص شاید مجھ سے پیسوں کی واپسی کا مطالبہ نہ کرتا لیکن چونکہ میں نے ان کو ووٹ نہیں دیا تھا اس لیے میں نے اس ہوٹل میں جہاں وہ مقیم تھا جا کر ان کے پیسے واپس کر دیے۔‘

سینئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات میں پیسوں کے استعمال کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ ’نوے کی دہائی کے بعد سے اب تک پیسے کے بل بوتے پر سینیٹ کا رکن بننے کے لیے کئی لوگ بلوچستان کا رخ کرتے رہے ہیں۔‘

پاکستانی کرنسی

پیسے کے بل بوتے پر کامیابی کے خواہشمند افراد بلوچستان کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد 65 ہے۔ دیگر اسمبلیوں کے مقابلے میں یہ سب سے کم تعداد ہے لیکن چونکہ سینیٹ میں تمام وفاقی اکائیوں کی نمائندگی برابر ہے اس لیے سینیٹ کے انتخاب کے لیے باقی تین اسمبلیوں کے ووٹ بلوچستان اسمبلی کے 65 ووٹوں کے برابر ہوتے ہیں۔

اس صورتحال کے باعث سینیٹ کے نصف اراکین کے انتخاب کی صورت میں ایک جنرل نشست پر کامیابی کے لیے بلوچستان سے آٹھ سے نو ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پنجاب میں ایک ووٹ کے لیے 40 سے زائد ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ’پیسے والے امیدواروں کی جانب سے بلوچستان کی جانب رخ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کم اراکین سے ڈیلنگ کرنا پڑتی ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ماضی میں جہاں باہر سے آنے والے امیدوار پیسہ لگاتے رہے ہیں بلکہ خود بلوچستان کے لوگ بھی پیسے کی بل بوتے پر کامیاب ہوتے رہے ہیں۔‘

کیا اس بار بھی باہر سے تعلق رکھنے والے امیدوار بلوچستان سے میدان میں ہیں؟

بلوچستان سے سینیٹ کے انتخابات کے لیے جو افراد میدان میں ہیں ان میں سے بعض کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق بلوچستان سے نہیں۔

پی ٹی آئی بلوچستان کے بعض رہنماؤں نے پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے ایک کاروباری شخصیت عبد القادر کو ٹکٹ دینے کے اقدام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ عبد القادر کا تعلق نہ صرف بلوچستان سے نہیں بلکہ اس سے قبل ان کا کوئی تعلق تحریک انصاف سے بھی نہیں رہا۔

پی ٹی آئی بلوچستان کے اس احتجاج کی وجہ سے مرکزی قیادت کو عبد القادر سے ٹکٹ واپس لینا پڑا اور اسے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے کارکن ظہور آغا کو دیا گیا ہے۔

تاہم کوئٹہ میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے عبد القادر نے اس دعوے کو مسترد کیا کہ ان کا تعلق بلوچستان سے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف ان کی پیدائش کوئٹہ کی ہے بلکہ انھوں نے تعلیم بھی یہاں سے حاصل کی۔

صوبائی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے ٹکٹ حاصل کرنے والی ستارہ ایاز کا تعلق بھی بلوچستان سے نہیں۔ وہ اس سے قبل سنہ 2015 میں عوامی نیشنل پارٹی کی ٹکٹ پر خیبر پختونخوا سے سینیٹر منتخب ہوئی تھیں تاہم سنہ 2019 میں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے الزام میں انھیں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ جس کے بعد انھوں نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

ثنا اللہ زہری، اسلم رئیسانی

بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما کیپٹن عبدالخالق اچکزئی کا ستارہ ایاز کو ٹکٹ دینے کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہنا ہے کہ پارٹی کو دیگر صوبوں تک وسعت دینے کے لیے یہ ضروری ہے۔

ماضی کے مقابلے میں پیسے والوں کا آزاد حیثیت کی بجائے پارٹیوں سے انتخاب لڑنے کے رحجان میں اضافہ

نوے کی دہائی میں پیسے کے بل بوتے پر سینیٹ کا انتخاب لڑنے والے بلوچستان سے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑتے رہے لیکن انھیں کوئی کامیابی نہیں ملی تاہم سنہ 2000 کے بعد سے ایسے امیدواروں نے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے کی بجائے پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی۔

تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں شمولیت کے باعث ایسے امیدواروں کو کامیابی بھی ملتی رہی۔

مارچ میں سینیٹ کے انتخابات میں باہر سے آنے والے یا پیسے اور دیگر اثر و رسوخ کی بنیاد پر ٹکٹ حاصل کرنے والوں کے لیے سیاسی حلقوں میں ’پیراشوٹرز‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جا رہی ہے۔

حسب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنما مولانا عبد الغفور حیدری کا کہنا ہے کہ ’اس مرتبہ بھی سرمائے کی بنیاد پر کامیابی کے خواہشمند پیراشوٹرز‘ بلوچستان آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے اراکین اسمبلی ’نظریاتی ہیں اس لیے پیراشوٹرز ان پر اثرانداز نہیں ہو سکیں گے‘۔

میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ایک سوال پر بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) کے سربراہ میر اسراراللہ زہری کا جو کہ خود بھی سینیٹ کے انتخاب کے لیے امیدوار ہیں، کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات میں پیسے کا استعمال ہوتا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اب بھی بلوچستان میں سینیٹ کے الیکشن اور بھرتی دونوں ہو رہے ہیں۔’

بلوچستان میں سینیٹ کے انتخاب کے لیے کس پارٹی کے ساتھ کتنے اراکین ہیں؟

بلوچستان اسمبلی میں حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو اکثریت حاصل ہے جس کے اراکین کی تعداد 24 ہے۔ تحریک انصاف 7، عوامی نیشنل پارٹی 4، بلوچستان عوامی پارٹی 3، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 2 اور جمہوری وطن پارٹی 1 رکن کے ساتھ صوبائی حکومت کی اتحادی ہے۔

نواب ثنا اللہ زہری اگرچہ نواز لیگ کی ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے لیکن انھوں نے گزشتہ سال پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

حزب اختلاف میں شامل جماعتوں میں سے جے یو آئی (ف) کے اراکین کی تعداد 11، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے اراکین کی تعداد 10 اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک رکن ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے لیکن وہ حزب اختلاف کے ساتھ ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سعید احمد ہاشمی کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو 42 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مل کر الیکشن لڑنے کی صورت میں مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کو بلوچستان سے سینیٹ کی نشستوں میں سے 80 فیصد ملیں گی۔

اگرچہ بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن سیاسی مبصرین کے مطابق کسی بھی دیگر جماعت کے مقابلے میں سینیٹ کے انتخاب میں اس کی مشکلات سب سے زیادہ ہیں۔

شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ نہ صرف پارٹی سے امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے بلکہ اس نے اتحادی جماعتوں کو بھی خوش رکھنا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی سے جہاں 15 امیدوار میدان میں ہیں بلکہ اس کی اتحادی جماعتیں تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے امیدوار بھی سینیٹ کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے صدر میر اسرار اللہ زہری نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ’ہم بلوچستان عوامی پارٹی کے اتحادی ہیں۔

’ہم چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ بات ہو۔ اگر انھوں نے ہمیں اہمیت نہیں دی تو سیاسی جماعتیں اور بھی ہیں جن کے ساتھ ہم بات کر سکتے ہیں۔‘

جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’ہم نے سینیٹ کے گذشتہ انتخاب میں بلوچستان عوامی پارٹی کو چار ووٹ دیے تھے جس پر پارٹی کے قائدین نے ہمارے ساتھ یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ سینیٹ کے آئندہ انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایک امیدوار کو کامیاب کرائیں گے‘۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے جہاں بلوچستان عوامی پارٹی کو اتحادی جماعتوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا وہاں وہ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے اندرونی اختلافات کا بھی شکار ہے۔

پارٹی رہنما سعید ہاشمی نے کہا کہ پارٹی کے اندر ایسے اختلافات نہیں ہیں کہ جن کو دور نہ کیا جا سکے جبکہ پارٹی کی یہ کوشش ہے کہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر انتخاب لڑے اور زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرے۔

وفاق اور دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی کی پوزیشن مختلف

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ مل کر سینیٹ کا انتخاب لڑیں گی لیکن بلوچستان میں صورتحال کسی حد تک مختلف ہے۔ یہ صورتحال عوامی نیشنل پارٹی کی وجہ سے ہے کیونکہ اے این پی وفاق اور دیگر صوبوں میں اپوزیشن میں ہے جبکہ بلوچستان میں وہ حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔

اس صورتحال کے باعث بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی پی ڈی ایم کے ساتھ نہیں بلکہ حکومتی اتحاد کے ساتھ مل کر انتخاب لڑ رہی ہے۔

پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ مرکز میں اے این پی شروع سے حزب اختلاف میں ہے جبکہ بلوچستان کی مخصوص صورتحال کے باعث یہ حکومت کا حصہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اے این پی صوبائی خود مختاری پر یقین رکھتی ہے ’پارٹی کی مرکزی قیادت نے ہمیں اجازت دی ہے کہ بلوچستان کی مخصوص صورتحال میں ہم جو مناسب سمجھیں اسے اختیار کرنے میں خود مختار ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp