چراغ طور اور ملاوٹ ملا تیل


لاہور کے آشفتہ مزاج شاعر ساغر صدیقی نے رواں دواں بحر میں ایک غزل کہی، ’چراغ طور جلاﺅ، بڑا اندھیرا ہے‘۔ اور پھر کہا، ’وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں / انہیں کہیں سے بلاﺅ، بڑا اندھیرا ہے‘۔ اندھیرا تو واقعی گہرا ہے اور تیرگی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ چراغ طور میں رکھا تیل ملاوٹ ملا ہے۔ مختصر وقفوں سے لو اٹھتی ہے اور پھر سازش، جرم اور حادثے کے دھوئیں میں اوجھل ہو جاتی ہے۔ اور وہ جو ’آستینوں میں خورشید‘ والا قبیلہ تھا، ادھر کی کیفیت برادر معظم شعیب بن عزیز نے دستاویز کر دی ہے۔ جس کو سب دیکھتے ہیں وحشت سے / یہ مری آستیں سے نکلا ہے۔ ہم نے اس زمیں پر بہت سے امتحان دیکھے، جبر کے طویل وقفے فردا کی امید پر کاٹ دیے۔ مگر اب کے جو بجوگ پڑا ہے، یہ روزن در کی شکستگی نہیں، یہ تو شہر پناہ کا انہدام ہے۔ جنوبی افریقہ کے شاعر Benjamin Moloise نے 18 اکتوبر 1985 کی رات اپنی پھانسی سے کچھ پہلے ایک نظم لکھی تھی۔ آخری سطر تھی: I am proud to give my life, my one solitary life.
بیسویں صدی بھگت سنگھ، مقبول بٹ، بنجمن مولائس، لورکا، چے گویرا اور نذیر عباسی جیسے جوانوں کے سلگتے جذبوں کی بدولت خوابوں کی صدی تھی، موجودہ صدی تعبیر کی بے سروسامانی لے کر نمودار ہوئی ہے، ایک ایک کر کے آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے خواب جھوٹے پڑ گئے ہیں۔ ذہن انسانی میں تعصب، جہالت اور استحصال کے تاریک غار بدستور منہ کھولے ہیں۔ سرمائے کی منڈی میں غلاموں کے سوداگر نچنت ہیں اور راستہ دکھانے والے ستارے گہری دھند میں ہیں۔ امریکی صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی جمہوریت ابھی کمزور ہے۔ درست کہا کیونکہ بائیڈن کے آٹھ کروڑ کے مقابلے میں ٹرمپ کو ساڑھے سات کروڑ ووٹ ملے ہیں۔ اگر 99 فیصد خواندگی اور 62868 ڈالر فی کس آمدنی والے امریکہ میں شہریوں کی اتنی بڑی تعداد کو بے بنیاد نعروں، سازشی افواہوں اور تعصب کے بل پر گمراہ کیا جا سکتا ہے تو 59 فیصد خواندگی اور 1186 ڈالر فی کس آمدنی والے ملک پاکستان میں کیا نہیں ہو سکتا؟ دوسری طرف میانمار میں جنرل من آنگ ہلینگ نے خستہ حال جمہوریت کی کٹیا پر آمریت کے ٹینک چڑھا دیے ہیں۔ آنگ سان سوچی کو حراست کی تنہائی میں سوچنا چاہیے کہ روہنگیا مسلمانوں پر فوج کے ظلم کی عذر خواہی سے کیا حاصل ہوا؟ میانمار کے لوگ مشتعل ہیں لیکن حتمی فیصلہ تو انہیں کرنا ہے جنہیں تجارتی راستوں، دفاعی اڈوں اور علاقائی رسوخ کے مہرے چلنا ہیں۔

بھارت میں مودی حکومت نے یک طرفہ اقدام سے کشمیر کی دستوری حیثیت بدل ڈالی، کوئی بولا؟ فلسطین کے عرب شاہی بجروں کے عرشے سے بحیرہ عرب میں غرق کر دیے گئے۔ سنکیانگ کی اڑھائی کروڑ مسلم اکثریتی آبادی میں مبینہ طور پر دس لاکھ قید میں ہیں اور باقی بے دست پا۔ سعودی صحافی کے بہیمانہ قتل پر واویلا کرنے والی ریاست کے عقوبت خانوں میں موجود سیاسی مخالفین کی تعداد کوئی نہیں جانتا۔ شمالی کوریا سے ہاتھ ملانے والے اب ایران کی دل آسائی کے لئے بے چین ہیں۔ پچھلی صدی کی سب سے بڑی کامیابی نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ تھی۔ اس صدی کی خبر یہ ہے کہ بیرونی غلامی سے آزادی پانے والے قومی خود مختاری کے نام پر ہر جگہ داخلی استعمار کے چنگل میں ہیں اور یہ لڑائی کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ جمہوریت خفیہ رائے شماری یا شو آف ہینڈ کا نام نہیں، انسانی مساوات، حقوق، آزادی، شخصی احترام اور تحفظ کے اصولوں سے عبارت ہے۔ عملیت پسندی کے نام پر دھوکہ دہی سے جمہوریت نہیں، استبداد کا عفریت جنم لیتا ہے۔ اب اپنے وطن کی خبر لیں۔

قسم ہے پیدا کرنے والے کی، ہم خفیہ وڈیو کے ظلم میں زندہ ہیں۔ مارچ 2018ء کے لین دین کا افشا تو ذہنی نظر بندی ہے، دراصل مارچ 2021ء کے کھیل کا جواز پیدا کیا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی کے رکن فیصل واوڈا کو سینیٹ کا امیدوار اس لئے بنایا گیا ہے کہ دوہری شہریت کے چار برس سے معلق مقدمے پر خاک ڈالی جا سکے۔ اسلام آباد کی عدالت عالیہ پر حملہ ہوا ہے۔ ایک معزز جج نے فیصلہ دینے کے مرحلے پر مزید سماعت سے معذرت کی ہے۔ ایک برادر جج کی غیرجانبداری پر انگلی اٹھائی گئی ہے۔ فارن فنڈنگ کیس چاہ نخشب کا چاند بن گیا ہے۔ احتساب بیورو ہسپانیہ کے کلیسائی احتساب میں بدل چکا۔ ایک بڑے مالی اسکینڈل کی زد میں آنے والی بین الاقوامی کمپنی نے لاہور کی مال روڈ پر کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے نام پر عوامی آگہی کے پیغامات لٹکائے ہیں۔ ارے بھائی، ہمارا بنیادی مسئلہ منشیات نہیں، ریاست اور شہری کے مفاد کا تضاد ہے۔ وہی ریاست جہاں شہریوں کی جان و مال کا محافظ پرامن احتجاج کرنے والوں پر آنسو گیس کی آزمائش کا شرمناک اعلان کرتا ہے۔

ریاست اور حکومت میں گٹھ جوڑ ہو جائے تو نہتے شہریوں کے لئے عدالت آخری امید ہوتی ہے۔ عدالت کا اعتبار اٹھ جائے تو ریاست کی بنیاد میں تزلزل آ جاتا ہے۔ ایسے مرحلے پر آنکھ سیاسی کارکن، ادیب اور صحافی کی طرف اٹھتی ہے۔ ہمارا ادیب کسی کانفرنس میں ادب کی نوآبادیاتی تفسیر بیان کرنے گیا ہے۔ لمحہ موجود کے نوآبادیاتی سوال سے اسے غرض نہیں۔ صحافت پر ایسا پیغمبری وقت آیا ہے کہ صحافی کو اپنی ہی خبر کے سچ جھوٹ سے غرض نہیں رہی۔ اور سیاست دان؟ محترم آصف علی زرداری پی ڈی ایم سے تحریک عدم اعتماد کے لئے جوڑ توڑ اور گٹھ جوڑ کا مینڈیٹ مانگتے ہیں۔ اگست 2008ء کے تجربے کی سند دکھاتے ہیں۔ مارچ 2018ء اور اگست 2019ء کی ناکامیاں نہیں بتاتے۔ 20 ستمبر کی اے پی سی کے اعلامیے کی روشنائی ابھی خشک نہیں ہوئی۔ اگر چارٹر آف ڈیموکریسی کے اصول سے فریب ہی کرنا تھا تو ایک اور نسل کو مایوسی کیوں بخشی؟ زرداری صاحب پارینہ سیاست کے کہنہ مشق کھلاڑی ہیں، سیاسی کارکن نہیں ہیں۔ سیاسی کارکن ایک نصب العین کے ساتھ جیتا ہے، رہنماﺅں کی کہہ مکرنیوں کے تابع نہیں ہوتا۔
ہو خجالت نہ کسی کو سر ویرانہ طور
آگ اپنی بھی لئے جاتے ہیں سامان کے بیچ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments