آدمی کائناتی ابتری کی روح ہے: زاہد ڈارکی یاد میں


زاہد ڈار ( 1936ء۔ 2021ء) نے اپنے پیچھے چند سوگوار احباب کے علاوہ نظموں کے تین مجموعے ( ”درد کا شہر“ ، ”تنہائی“ اور ”محبت اور مایوسی کی نظمیں“ ۔ ”آنکھ میں سمندر“ انتخاب ہے) ادب کے ان تھک قاری کا امیج اور کچھ سوال چھوڑے ہیں۔ یہ سوال ان کی نظموں سے بھی متعلق ہیں اور ان کے طرز حیات سے بھی۔ اکثر ادیب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے لیے ادب طرز حیات ہے۔ یعنی ان کی روزمرہ، سماجی زندگی اور ذہنی و تخیلی زندگی میں ادب کو ”واحد نجات دہندہ“ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

وہ نہ صرف ادب کو باقی سب سرگرمیوں (معاشی و خانگی تک) پر ترجیح دیتے ہیں بلکہ زندگی کے اہم ترین سوالوں کے جواب کے لیے بھی ادب سے رجوع کرتے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ ادب انسانی ہستی کے بعید ترین گوشوں تک رسائی رکھتا ہے اور انبساط و دانش کی یکجائی کا غیر معمولی امکان بھی۔ ان اہم ترین سوالوں میں خود کو اور زمانے کو بدلنے جیسے اہم سوال بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ زاہد ڈار کے لیے ادب طرز حیات تھا مگر اس کے سلسلے میں ان کے یہاں کوئی دعویٰ نہیں تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ انھیں کوئی بھی دعویٰ نہیں تھا۔ لاہور جیسے بڑے مرکز میں ہونے اور پاک ٹی ہاؤس کے عروج کے زمانے میں انتظار حسین، احمد مشتاق، صفدر میر، غالب احمد، جیلانی کامران، شہرت بخاری، ناصر کاظمی، سہیل احمد خاں جیسے ممتاز ادیبوں کے ساتھ مستقل نشست و گفتگو کے باوجود انھیں کوئی دعویٰ نہ تھا۔ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ وہ ادب کے وسیلے سے کچھ بڑے سوالوں کے جواب کی جستجو میں سرگرم تھے، حالاں کہ ا س زمانے میں یہ جواب ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے تلاش کرنے کی کوشش میں تھے۔

وہ جدید، معاصر ادب میں پیرے ہوئے تھے مگر کیا واقعی انھیں اس سوال کا سامنا تھا کہ ادب کے ذریعے خود کو یا دنیا کو کیسے بدلا جا سکتا ہے؟ ان کی نظموں میں کسی حد تک اس سوال کی بازگشت ضرور موجود ہے جو غیر ارادی طور پر آئی ہے، اور وہ اپنے احباب سے بھی ان موضوعات پر یقیناً گفتگو کرتے ہوں گے، تاہم ان کے لیے ادب کا یہ کوئی اہم، پریشان کن مسئلہ نہیں تھا، جس پر وہ باقاعد ہ لکھتے۔ جیسے انتظار حسین، جیلانی کامران، حسن عسکری اور صفدر میر کے لیے مسئلہ تھا اور انھوں نے کھل کر لکھا بھی۔ یہی نہیں، جیلانی کامران نے زاہد ڈار کے پہلے مجموعے ”درد کا شہر“ کے دیباچے میں یہ مسئلہ تلاش کرنے کے لیے بہت کاوش کی ہے۔ یہ الگ بات کہ کوہ کندن کاہ بر آوردن والی بات ہے۔ انتظار حسین انھیں ادب کا فالتو آدمی، ایک حد تک اسی پس منظر میں کہا۔

ہر ادیب کے ذہن میں تخیلی قارئین کا ایک گروہ ضرور موجود رہتا ہے، جن سے وہ مسلسل مخاطب رہتا ہے اور یہ گروہ اسی لمحے وجود میں آ جاتا ہے، جب ایک ادیب پہلی بار کچھ لکھتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ زاہد ڈار کے ذہن میں قارئین کے اس تخیلی گروہ کا اگر وجود تھا تو وہ بھوت نما تھا (البتہ دوستوں کا ایک حلقہ ضرور موجود تھا جن سے وہ باتیں کیا کرتے تھے ) ، جس کا ہونا نہ ہونا مشکوک رہتا ہے۔ وہ اپنے قارئین سے بے نیاز تھے۔ انھوں نے لکھنے کا آغاز ڈائری سے کیا۔

ڈائری یکسر ذاتی چیز ہے اور یہ مخاطب کے تصور کے بغیر لکھی جاتی ہے، اپنی یادداشت کی خاطر یا نفسیاتی معالجاتی نقطۂ نظر سے۔ صفدر میر نے ان کی ڈائری کو نظمیں کہا مگر زاہد ڈار کا اصرار تھا کہ وہ ڈائری ہی ہے۔ دونوں غلط نہیں تھے۔ ادب کے مسلسل مطالعے کا اثر زاہد ڈار کے احساس اورا س کے اظہار پر اس شدت سے ہوا ہو گا کہ ان کا قطعی نجی اظہار یعنی ڈائری، نظموں میں بدل گئی۔ ڈائری لکھی بھی نظم کے پیرائے میں گئی تھی۔

زاہد ڈار کو انھیں ڈائری کہنے پر اس لیے اصرار نہیں تھا کہ اس میں ان کے شب و روز کا واقعاتی احوال ہے بلکہ اس لیے تھا کہ اس میں ان کا احساساتی احوال تھا اور یہ حقیقی تھا۔ وہ جانتے تھے کہ جدید ادب، ذات ہی کا اظہار ہے۔ دوسرے لفظوں میں جدید ادب، ڈائری کے قریب ہے، یعنی تجربے کو شخصی شناخت کے ساتھ مستند بنانے کی کوشش ہے، تاہم اس کے لیے یہ شرط ہے کہ لکھنے والا وسیع تخیل کا حامل ہو اور گہرے، پیچیدہ، متضاد احساسات کو سنبھالنے کی قدرت رکھتا ہو۔ نیز نجی منطقے کو سماجی منطقے میں لے جانے کی جرأت اور فنی قدرت رکھتا ہو۔ خالی جرأت کافی نہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments