بابا گرو نانک کی کہانی


دنیا محبت کا گھر ہے ، اس لئے انسانوں کو یہاں محبت سے رہنا چاہیے۔ دنیا میں نفرت کرنے کے لئے کوئی ایک وجہ بھی نہیں ہے۔ اس مادی دنیا میں جو نفرت کرتے ہیں اور نفرت پھیلاتے ہیں ، ان کے لئے دکھ غم اور تکلیف کے علاوہ کچھ نہیں۔ دنیا میں تمام انسانوں کو خدا، اللہ یا بھگوان یا گاڈ سے ایک ہو جانا چاہیے کیونکہ دنیا کے ذرے ذرے میں بس وہی ہے۔ یہ پیغام تھا سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی کا اور ساری زندگی انہوں نے یہی پیغام دنیا تک پہنچایا۔

سکھوں کے پہلے گرو اور سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی اس دلکش کائنات کا خوبصورت اور حسین پھول تھے۔ آج کی تحریر بابا گرو نانک کی زندگی اور ان کے نظریات کے بارے میں ہے۔

سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک ہیں اور سکھ ازم میں کل دس گرو ہیں جن کی وجہ سے اس دنیا میں کروڑوں سکھ نظر آرہے ہیں۔ بابا گرونانک نے سکھ ازم کی بنیاد رکھی۔ سکھ ازم کے دس گرو یہ ہیں۔ گرو نانک دیو جی، گرو انگڈ، گرو امر داس، گرو رام داس، گرو ارجن دیو، گرو ہر گوبند، گرو ہری رائے، گرو ہر کشن، گرو تیغ بہادر اور گرو گوبند سنگھ۔

گرو نانک دیو جی کا جنم  29 دسمبر 1469 کو تالونڈی میں ہوا تھا۔ تالونڈی کو اب ننکانہ صاحب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی والدہ کا نام تھا ماتا تڑپتا اور والد کا نام تھا مہتا کالو کھتری۔ گرو نانک جی کے والد پٹواری اور مرچنٹ تھے اور ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ ان کا بیٹا بہت بڑا سرکاری افسر بن جائے۔ بابا گرو نانک کے ماں باپ دونوں ہندو تھے۔ جب بابا جی پیدا ہوئے تو کہا گیا کہ اس بچے کے تو عادات و اطوار ہٹ کر ہیں۔اس لئے والدین نے ہمیشہ بابا گرو نانک سے محبت کی اور خاص خیال رکھا۔

بابا گرو نانک جی بھجن کمپوز کرتے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ کائنات کے تمام انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑا جا سکے کیونکہ تمام انسان برابر ہیں اور ان کو خدا نے ایک جیسا پیدا کیا ہے۔ ان انسانوں کو ایک دوسرے سے نفرت، تعصب کی بجائے محبت کرنی چاہیے۔ کہا جاتا کہ ان کی آواز اس قدر دلکش اور سریلی تھی کہ جو بھی ان کے نغمے سنتا تھا ، مدہوش ہو جاتا تھا اور ان کا عاشق ہو جاتا تھا۔

بابا گرو نانک کے مطابق موسیقی یا سنگیت انسان کو براہ راست خدا سے ملا دیتا ہے۔ بابا گرونانک دیو جی بچپن سے اپنی بہن بے بے نانکی سے بہت محبت کرتے تھے۔ بابا جی نے اپنی بہن سے ہمیشہ محبت کی اور ان کا خیال رکھا۔ بابا گرو نانک کی جب سولہ سال کی عمر میں شادی ہوئی تو بابا جی اپنی بیوی کے ساتھ اپنی بہن کے پاس رہنے چلے گئے تھے۔ ایسی تھی بابا جی کی بہن سے محبت۔ ستائیس سال کی عمر میں بابا جی مکمل طور پر درویش اور صوفی ہو گئے تھے۔

ایک قصہ یہ سنایا جاتا ہے کہ جب بابا جی کی عمر صرف پانچ سال تھی تو انہیں ایک اسکول میں داخل کرایا گیا۔ اسکول کے پہلے ہی دن صرف پانچ سال کی عمر میں بابا جی نے استاد کے سامنے کہا علم یا نالج کچھ نہیں۔ کائنات کے اتحاد کا نام خدا ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ خدا ہے۔ یہ کائنات الگ نہیں تقسیم نہیں بلکہ اس کا ذرہ ذرہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ اس لئے انسانوں کو ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے۔ استاد نے جب یہ سنا تو کہا اس بچے کو دنیاوی علم کی ضرورت ہی نہیں ، یہ تو پوری کائنات کے حقیقی سچ سے واقف ہے اور کائنات کے حقیقی سچ کا گرو ہے۔

ایک کہانی بابا جی کے بارے میں یہ بھی سنائی جاتی ہے کہ بابا جی جب 12 سال کے تھے تو ان کے والد نے اس زمانے میں انہیں اچھی خاصی رقم دی اور کہا بیٹا جاؤ کوئی کاروبار کرو، بابا جی گرو نانک دیو نے ساری رقم کا کھانا تیار کیا اور اس زمانے میں ہزاروں غریب انسانوں کو ایک جگہ پر بٹھا کر کھلا دیا اور بہت خوش ہوئے۔ بابا گرو نانک جی کے والد نے پوچھا کہ بیٹا وہ رقم کاروبار کے لئے تھی تو بابا جی نے کہا بابا جان میں نے سودا  ہی تو کیا ہے اور وہ بھی سچا سودا۔

بابا جی کے اس عمل کے بعد اسی زمانے میں لوگوں نے مل کر پہلے گردوارے کی بنیاد رکھی تھی۔ بابا گرو نانک بچپن ہی سے خدا کو سمجھنے کی سعی میں لگ گئے تھے اور تمام انسانوں کی بھلائی کا سوچتے رہتے تھے۔

جب بابا جی سولہ سال کے تھے تو ان کی بہن بے بے نانکی کی شادی کر دی جاتی ہے۔ اس کے بعد بابا جی کی بھی شادی ہو جاتی ہے اور بابا جی بہن کے پاس سلطان پور رہنے چلے جاتے ہیں۔ سلطان پور میں لوگوں کی مدد کرنا، انسانیت کا پرچار کرنا اور خدا کا پیغام دنیا تک پہنچانا بابا گرو نانک دیو جی کا کام تھا۔

ہر روز سلطان پور میں میڈیٹیشن کرتے اور ندی کے کنارے بیٹھ کر کائنات کی سچائی میں بدمست ہو جاتے۔ سلطان پور میں ہزاروں انسان بابا جی کے کرشمات دیکھ کر حیران رہ گئے اور ان کے بھگت بن گئے۔ اس زمانے میں بابا جی سے جو بھی ملتا ، ان سے پیار کرتے اور کہا کرتے تھے کہ کوئی مسلمان یا ہندو نہیں، سب انسان ہیں اور انسانیت ہی سچا نظریہ ہے اور یہی نظریہ خدا کا نظریہ ہے۔ بابا جی ذات پات اور رنگ و نسل کے خلاف تھے۔

بابا گرو نانک نے اپنا پیغام دنیا تک پہچانے کے لئے پیدل سفر شروع کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں انہوں نے 28 ہزار کلومیٹر پیدل سفر کیا اور ہر انسان کو انسانیت اور محبت سے بھرا پیغام پہنچایا۔ بابا جی کو عربی، فارسی کے علاوہ درجنوں مقامی زبانیں آتی تھیں۔ اس لئے ہر انسان ان سے جڑتا چلا گیا اور اسی زمانے میں بابا جی نے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھ دی ، اس نئے مذہب کو سکھ ازم کہا گیا اور بابا جی کو اس مذہب کا بانی کہا گیا۔ بابا جی ایک نئی کائناتی سوچ کو لے کر چل رہے تھے، اس لئے انہوں نے بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کیا۔

مشکلات کا سامنا کرتے ہنستے مسکراتے بابا جی آگے بڑھتے رہے۔ اب ان کا پیغام ہندوستان سے نکل کر دنیا بھر تک پہنچ رہا تھا۔ ان کی زندگی کا پہلا سفر 1500 سے 1507 تک کا تھا اور اس عرصے میں انہوں نے پورے ہندوستان کا سفر کیا۔ ہندوستان سے نیپال اور سری لنکا تک بابا جی نے پیدل سفر کیا اور اپنی تعلیمات دنیا بھر تک پہنچائی۔ بابا جی ہندوستان کے علاوہ مکہ ، مدینہ اور عراق کا سفر کیا۔ اپنی زندگی کے آخری حصے میں وہ پنجاب کرتار پور آ گئے۔

بابا جی کا سب سے پہلا پیغام یہ تھا کہ جتنا ہو سکے انسان کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ مال و دولت زیادہ ہے یا کم، سب ایک دوسرے سے شیئر کرنا چاہیے اور اسی کا نام انسانیت اور محبت ہے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ جو بھی کام کیا جائے، ایمانداری سے کیا جائے ، کسی قسم کا دھوکہ یا فراڈ اس میں نہیں ہونا چاہیے، ایسا کرنے سے انسان پاک صاف اور آزاد رہتا ہے اور خدا یا کائنات اس سے محبت کرتی ہے اور ہمیشہ ایسا انسان خوش رہتا ہے۔

بابا جی ہمیشہ کہتے تھے کہ انسان کو ہر وقت خدا کے ساتھ ہونا چاہیے، ہمیشہ اس کا نام لیتے رہنا چاہیے۔ بابا جی کہتے تھے کہ جو انسان اپنی پانچ کمزوریوں پر قابو پا لیتا ہے پھر وہ کائنات اور محبت بن جاتا ہے۔ پہلا ہے جنسی ہوس پر قابو رکھا جائے۔ دوسرا کوئی بھی مشکل ہو امن و شانت رہو اور اپنے اندر غصے کو نہ پالو۔ تیسرا لالچ ہمیشہ لالچ سے بچو۔ چوتھا یہ کہ انسان کو کسی قسم کی توقعات نہیں رکھنی چاہئیں کیونکہ جو انسان توقعات میں پھنسا رہتا ہے وہ ہمیشہ دکھی اور غم زدہ رہتا ہے۔

بابا جی ہمیشہ فرماتے تھے کہ انسان کو غرور تکبر یا انا جچتی ہی نہیں۔ جو انسان متکبر بن جاتا ہے وہ انسان نہیں رہتا۔ بابا جی کہا کرتے تھے تمام کائناتوں کا ایک ہی رب ہے جو ہمیشہ تھا ہمیشہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ بابا جی کہتے تھے جو رب تک پہنچنا چاہتا ہے، وہ خود کو جان لے کیونکہ ہر انسان میں رب بستا ہے۔

بابا گرو نانک ستر سال کی عمر میں 22 ستمبر 1539 کو کرتارپور سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کسی جہاں چلے گئے۔ بابا گرو نانک کے بعد ان کے جانشین بابا انگت ہوئے جن کو بھائی لہنا بھی کہا جاتا ہے۔ بابا گرو نانک کے دو بیٹے تھے لیکن آپ نے اپنے کسی بچے کو جانشین نہیں بنایا بلکہ انہیں اپنا جانشین بنایا جو ان کے پیروکار تھے اور ایک گرو تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments