کشمیر: مستقبل،خواہشات اور ممکنہ حل


مجھے بعض مخلص دوستوں کے کشمیر کے بارے میں جذبات کی شدت اور اپنے موقف سے وابستگی کا پورا احترام ہے لیکن ایک معصوم بچہ جب چاند کی فرمائش کرتا ہے تو اس کی معصومیت اور خواہش کی سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن خواہش کی اس سچائی اور شدت کے باوجود اسے چاند لا کر دے دینا ممکن نہیں ہوتا۔

ان حضرات کا موقف بھی بالکل اسی طرح ہے، یہ حضرات مہاراجہ کی تعریف میں حقائق اور شواہد سے کچھ آگے نکل جاتے ہیں، فاصلہ چاہے زمینی ہو یا وقت کی صورت میں، مناظر کو خوبصورت بنا دیتا ہے، اور فاصلے سے دیکھنے کی وجہ سے وہاں موجود بد صورتیاں اور خطرات ہماری نظروں سے پوشیدہ ہو جاتے ہیں۔

مہاراجہ کی کابینہ یعنی وزارتی عہدہ داروں کی ٹیم میں شامل ریاست کی آبادی کی اکثریت یعنی کسی ایک مسلمان کا نام شامل نہ تھا۔ جو اصلاحات ان خوش فہم حضرات کو متأثر کرتی ہیں، اگر بغور مطالعہ فرمائیں، تو ان اصلاحات کی بنیادی وجہ قریب میں انگریزوں کی موجودگی تھی۔ ورنہ اپنی مسلمان رعایا کے ساتھ مہاراجہ کی دلی محبت کا ثبوت کرنل حسن خان تحریر فرما گئے ہیں کہ جب انھیں ڈوگرہ فوج میں کمیشن ملا، تو مہاراجہ نے ان سے ملاقات میں حقارت آمیز اور متنفر رویہ دکھایا، جبکہ ان کے ساتھ ہی کے ہندو کمیشنڈ آفیسرز کو ملتے وقت اس کا چہرہ کھل اٹھتا تھا۔

ایسی ہی بات قدرت اللہ شہاب نے بھی تحریر کی ہے۔ اب موضوع کی طرف آتے ہیں تاریخ جموں میں لکھا ہے کہ گلاب سنگھ نے سکھوں کا سپہ سالار ہوتے ہوئے بھی انگریزوں کے ساتھ غدارانہ ساز باز کی، اور ان سے طے کر لیا کہ جنگ میں غداری کے عوض ”فتح“ پنجاب کے بعد اسے اس کی اولاد کے گزارے کے لیے ”صرف جموں“ دے دیا جائے۔ اب آگے موہن لال کی کتاب ”تاریخ پنجاب“ کا حوالہ موجود ہے کہ پنجاب فتح کرنے کے بعد انگریزوں نے پانچ کروڑ تاوان جنگ مقرر کیا ، یہ تاوان بھی اس گلاب سنگھ ڈوگرہ نے رنجیت سنگھ کی بیوہ رانی جندراں کی طرف سے مذاکر ات کرتے ہوئے طے کیا کیونکہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کی انگریزوں کے ساتھ پہلے سے ہی ساز باز تھی، اب رانی جندراں کو شک ہوا اور اس نے اپنے بھائی لال سنگھ کو دوبارہ انگریزوں سے مذاکرات کے لیے بھیجا، جس نے تاوان دو کروڑ اور جموں کشمیر ساتھ میں دینے کی حامی بھر لی۔

اب گلاب سنگھ کا سارا منصوبہ تلپٹ ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تو انگریزوں کو کیونکہ اس وقت پیسے کی ضرورت تھی تو انہوں نے گلاب سنگھ سے کہا کہ پہلے ہم نے تم کو تمہاری خدمات کے عوض جموں دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اب سارا کشمیر دریائے سندھ کے مشرقی کنارے تک دیں گے ، تم کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی، تب بیع نامہ امرتسر طے پایا اور کشمیر کی سر زمین کو انسانوں سمیت پچھتر لاکھ نانک شاہی سکہ کے عوض گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کر دیا گیا، اس کے بعد اس نے وادی کا قبضہ سکھوں کے وہاں تعینات گورنر شیخ امام دین سے کس طرح حاصل کیا یہ قصہ بھی قابل مطالعہ ہے، ایک بار شکست کھانے اور وادی کا قبضہ لینے میں ناکامی کے بعد گلاب سنگھ نے انگریزوں سے مدد مانگی اور لارڈ گف بارہ ہزار انگریزی فوج اور بھاری توپ خانے کے ہمراہ پشاور سے کشمیر گلاب سنگھ کو وادی کا قبضہ دلوانے پہنچا۔

اسی طرح لداخ جہاں کے قدیمی بدھ راجہ نے دوبارہ قبضہ کر لیا تھا، کو گلاب سنگھ نے اپنا جرنیل زور آور سنگھ اور بھاری فوج بھیج کر دوبارہ فتح کیا، یہی صورتحال گلگت اور بلتستان میں پیش آئی جہاں انتہائی ظلم و ستم سے ان علاقوں کو بھی ان کے قدیمی حکمرانوں سے بزور چھین لیا گیا۔ انگریز کیونکہ روس اور ہند کے درمیان بفر سٹیٹ چاہتے تھے تو ان کی رضامندی ان علاقوں پر ڈوگرہ قبضے میں شامل رہی۔ یہاں مکمل تاریخ بیان کرنا ممکن نہیں آپ موہن لال کی تاریخ پنجاب کا مطالعہ ضرور فرمائیں تو کشمیر کی جدید ریاست کی تشکیل کے حیران کر دینے والے حقائق سامنے آئیں گے۔

آج اسی وجہ سے ان علاقوں یعنی لداخ اور گلگت بلتستان میں ادغام کے خلاف کوئی قابل ذکر مزاحمت نہیں نظر آتی، بلکہ ان علاقوں کے عوام ادغام میں سست روی کے شاکی ہیں۔ ایک بابا جان کو وہاں کی آبادی کی اکثریت کی خواہشات پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ اگر آپ کوہستان نمک کے پہاڑی سلسلے کا دورہ فرمائیں تو وہاں ہزاروں سال قدیم عمارات اور مندر نظر آئیں گے جن کا طرز تعمیر کشمیری ہے۔ وادی کشمیر کی آبادی کی اکثریت بھی وادی سندھ یعنی انڈس سویلائزیشن سے آرینز کے قبضے کے بعد ہجرت کر کے کشمیر میں جا بسنے والوں پر مشتمل ہے۔

سندھ اور تھر میں آج تک وانڑیں یعنی وانی پائے جاتے ہیں ، اس موضوع پر میں نے ایک تحقیقی مضمون بھی لکھا تھا، تو آپ انڈس سویلائزیشن سے اس دیرینہ رشتے کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ سر اولف کیرو کی مشہور زمانہ تصنیف ”دی پٹھان“ بھی کشمیر اور انڈس ویلی کے رشتے پر بہت مدلل تفصیل پیش کرتی ہے۔ اب رہی انگریزوں کے اصطبل پر مامور اور مراعات یافتہ افراد کی بات تو ان کا سرخیل تو گلاب سنگھ ڈوگرہ ٹھہرا۔ ویسے وسیع تناظر میں یہ بات موضوع سے غیر متعلق ہے۔

برصغیر میں کس علاقے یا ملک میں مثالی نظام قائم ہے، جو ہم خواہشات کے فرضی محل تعمیر کر کے ان میں رہنا شروع کر دیں۔ میری ذاتی نظر میں ان علاقوں پر حاکمیت لے کر دینے کی خواہش یعنی دوسرے الفاظ میں ریاست کی وحدت کی خواہش نے ہی کشمیریوں کو اپنی آزادی کی منزل سے دور رکھا ہوا ہے۔ جن علاقوں میں کوئی تحریک آزادی نہیں اور ان علاقوں سے فریقین کے بھاری بیرونی مفادات وابستہ ہیں ، ان کی خواہش کرنا چاند کی خواہش کرنے جیسی بات ہے، کیا کبھی پاکستان چین سے اپنا زمینی رابطہ توڑنے پر راضی ہو جائے گا، اسی طرح کیا بھارت لداخ میں موجود مفادات سے دست بردار ہو جائے گا؟

وہ ڈوگرہ جو آج بھی خود کو کشمیریوں کا خرید کنندہ سمجھتا ہے اور اسی ذہنی کیفیت میں پایا جاتا ہے، جس کے گواہ وادی کشمیر سے کسی کام سے جموں جانے والے کشمیری ہیں۔ کیا اس ذہنی کیفیت کا حامل ڈوگرہ ہندو اسی اکثریت کے ساتھ ایک اقلیت کے طور پر رہنا قبول کر لے گا جسے وہ آج بھی ذہنی طور پر اپنا محکوم سمجھتا ہے، اور ان کا رویہ اس بات کا گواہ ہے کبھی ایسا موقع آنے کا امکان ہوا تو ”غیور“ ڈوگرہ کشمیری اکثریت کے ساتھ اقلیت کی حیثیت میں رہنے پر خود کشی کو ترجیح دے گا۔

ولبھ بھائی پٹیل اور مہاراجہ ہری سنگھ

کشمیر کی ریاست کے لیے سب سے عملی اور قابل عمل تجویز سر اون ڈکسن کی ہی ہے کہ علاقائی وحدتوں کی بنیاد پر رائے شماری، تاکہ ہر علاقے کے عوام کی اکثریت کی خواہشات کی درست عکاسی ہو سکے۔ کشمیر کا واحد حل جو آج ہو، ایک سو سال بعد ہو، یا ہزار سال کے بعد ، یہ ہے کہ قدیم لسانی اور ثقافتی اکائی وادی کشمیر جس کی حدود دریاے چندر بھاگا یعنی چناب سے لے کر کشن گنگا یعنی نیلم تک ہیں اور تھیں، کو ایک آزاد اور خود مختار ملک بنا دیا جائے، جہاں آمد و رفت انڈیا اور پاکستان کے لیے ویزا فری ہو اور اسی طرح کشمیری دونوں ممالک میں بغیر ویزے کے آ جا سکیں۔

کشمیر کے امن و امان کے لیے اپنی مقامی پولیس ہو۔ کشمیر کی ریاست کو فوج رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اس کی سالمیت کی ضمانت اس سے ملحق ممالک دیں گے، کیونکہ کشمیر ہی ان کے درمیان امن کی چابی کی حیثیت رکھتا ہے، ریاست کشمیر اپنے ہائیڈرل اور برقی ضرورت سے زیادہ وسائل کو ہمسایہ ملحقہ ممالک کو ”ارزاں“ نرخ پر برآمد کرے گی، اور اس طرح کشمیر کی ریاست سوئٹزرلینڈ کی طرح خوشحال اور پرامن ریاست بن جائے گی اور منسلکہ ممالک کے لیے بھی امن اور دوستی کے پل کا کردار ادا کر کے برصغیر کے اربوں محروم اور نادار افراد کے لیے ایک خوشحالی کے سویرے کی نوید ثابت ہو گی، مہجور نے شاید اسی وقت کے بارے میں کہا تھا کہ ”ایک وقت آئے گا کہ کشمیر ایشیا کو بیدار کرے گا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments