اپنے ہم جماعت پروفیسر ظفر علی چوہدری کی یاد میں


مارچ 1999 ء کی بات ہے، پاکستانی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے والوں کا خاصا رش تھا۔ بڑی مشکل سے ایک میز پر جگہ ملی۔ اس میز پر میرے سامنے ایک دیہاتی وضع قطع کے صاحب بھی آ بیٹھے۔ انہوں نے سر پر سفید کپڑا، پنجاب کے دیہاتیوں کی طرح، صافے کی طرح لپیٹ رکھا تھا۔ چہرے پر پچھلے دو تین ہفتوں سے شیو نہ کرنے کی وجہ سے داڑھی کی فصل اگ آئی تھی۔ چہرے پر گرد و غبار، تھکاوٹ اور اضمحلال کے اثرات نمایاں تھے۔ لگتا تھا کہ ابھی ابھی کھیتوں میں ہل چلانے کی مشقت سے فارغ ہو کر بیلوں کی جوڑی کو کسی درخت کی چھاؤں میں چھوڑ کر کھانا کھانے آ بیٹھے ہیں۔

یہ صاحب میری ہی عمر کے تھے، یعنی وقت کی سوئی پچاس کے ہندسے کے قرب و جوار میں منڈلا رہی تھی۔ ان کی اہلیہ ان کے بائیں جانب بیٹھی تھیں۔ میری اہلیہ بھی میرے ساتھ تھیں۔ ہم حج کے مناسک ادا کر چکے تھے، ادھر ظہر کی نماز بیت الحرم میں ادا کرنے کے بعد باب الفہد سے نکل کر بائیں جانب زم زم بلڈنگ ( ٹاور) سے ذرا آگے ایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے آئے تھے۔ چوں کہ ہم بہت دیر کسی میز کے خالی ہونے کے انتظار میں کھڑے رہے تھے اور جسم پہلے ہی تھکن سے چور تھے اس لئے بیٹھتے ہی علیک سلیک اور تعارف کے بغیر ہی ہم بے ہنگم ہجوم کے باعث شدت انتظار پر نوحہ کناں اور گفتگو میں رواں ہو گئے۔
اچانک میری نظر ان کی بیگم کے سامنے پڑے تھرمس پر پڑی۔ اس پر لکھا تھا ’ڈاکٹر شمشاد رسول‘۔ ایک جھپاکا سا ہوا اور میں وقت کی غار میں لڑھکتا ہوا، اٹھائیس سال پیچھے قاسم ہال (ہاسٹل) میں جا پہنچا۔ شمشاد رسول نشتر میڈیکل کالج ملتان میں ہم سے ایک سال آگے اور قاسم ہال کا باسی تھا۔ میری اس کے ساتھ خاصی موافقت تھی۔ میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا، وقت کی دھول کی جھاڑ پونچھ کی تو قاسم حال کے شمشاد رسول کے خد و خال واضح ہو گئے۔
میں نے کہا شمشاد! میں نے تمہیں پہچان لیا ہے کہ تم قاسم ہال والے شمشاد رسول ہو۔ میں بھی وہیں ہوتا تھا۔ اب مجھے پہچانو، میں کون ہوں؟ میرے چہرے پر ماہ و سال کی کھدی ہوئی گہری دراڑیں تھیں، جنہیں چھپانے کا میں نے شرعی انتظام، داڑھی کی صورت میں کر رکھا تھا۔ شمشاد مجھے پہچان نہ پایا۔ اپنا نام بتانے پر بھی اس کا چہرہ سپاٹ ہی رہا۔ لگتا تھا کہ وہ کسی نئی دنیا میں جا بسا ہے، اور پرانی یادداشتیں قرص الذاکرہ (پردہ یادداشت) سے محو ہو چکی ہیں۔ ایک دو واقعات کا ذکر کرنے پر اس کی یادداشت میں ارتعاش سا پیدا ہوا اور ہم پرانی یادوں کی پٹاریاں کھول کر نشتر کے سبزہ زار میں جا بیٹھے۔ اس نے بتایا کہ وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ماہر امراض سینہ ہے یعنی پروفیسر ہے۔ میں نے کہا کہ میں برطانیہ میں جا بسا ہوں، لیکن ہر سال پاکستان جاتا ہوں۔ اگلی بار آیا تو تمہیں ضرور ملوں گا۔
چھے سات ماہ بعد پاکستان جانے کا اتفاق ہوا۔ میں شمشاد رسول سے ملنے اس کے ڈیپارٹمنٹ میں چلا گیا۔ وارڈ بوائے سے پوچھا تو اس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا پروفیسر صاحب اس وقت وارڈ راؤنڈ کر رہے ہیں۔ میں نے ادھر دیکھا تو وہاں دہقانی شکل و صورت کا کوئی شخص نظر نہ آیا۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک شہری بابو طلبا کے جھرمٹ میں اندر سبھا رچائے بیٹھے تھے۔ جز وقتی داڑھی ہی چہرے سے غائب نہیں تھی، سر کے بال اور مونچھیں تک سیاہ ہو چکیں تھیں۔ گویا شیر اپنی کچھار میں واپس پہنچ چکا تھا۔
شمشاد کے ساتھ تھوڑی دیر رسمی سی بیٹھک رہی۔ میں نے اٹھتے ہوئے پوچھا، کیا یہاں کوئی اور بھی نشتر کا پرانا باسی ہے؟ کہنے لگے، کیوں نہیں، یہ سامنے فزیالوجی ڈیپارٹمنٹ ہے۔ اس میں آپ کے ہی کلاس فیلو ظفر چوہدری ہوتے ہیں۔ میں وہاں گیا تو ایک ادھیڑ عمر دربان مجھے ظفر کے آفس میں لے گیا۔ نظریہ ارتقا کے مطابق، میری تبدل ہیئت کے باوجود اس نے مجھے فوراً پہچان لیا اور بغل گیر ہو گیا۔
چوبیس سال، اس کی شکل و شباہت پر اثر انداز نہیں ہوئے تھے، البتہ اس کے رکھ رکھاؤ میں واضح تبدیلی آ چکی تھی۔ باتوں کے ڈھیر لگتے چلے گئے۔ پتہ نہیں اس کے لہجے میں یہ شائستگی کہاں سے در آئی تھی۔ اتنے میں وہی دربان چائے لے کر آ گیا۔ اس نے چائے بناتے ہوئے پوچھا چینی کتنی صاحب؟ ظفر نے کہا: اوئے تمہیں پتہ نہیں میں کتنی چینی لیتا ہوں۔ اس نے کہا، سر میں آپ سے نہیں پوچھ رہا۔ اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، میں تو بابا جی سے پوچھ رہا ہوں۔ ظفر اچانک طیش میں آ گیا۔ دربان کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا: اوئے بابا جی کے بچے، یہ میرے کلاس فیلو ہیں اور برطانیہ میں سرجن ہوتے ہیں۔ میری طرح یہ بھی تم سے تین چار سال ہی بڑے ہوں گے، تمہارے بابا کیسے ہو گئے؟ دربان جھینپ سا گیا اور کپ میں دو چمچ چینی ڈال کے باہر چلا گیا۔
جب سے میں نے داڑھی بڑھائی تھی۔ اس طرح کے ناگہانی واقعات پیش آنے لگے تھے۔ جب بھی کوئی شخص مجھے عالی مرتبت سمجھتے ہوئے بابا جی کہتا میں دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا، پرشکن جبیں پر خندہ پیشانی کا اشتہار چسپاں کرتا اور خود کو عمر رسیدگی کی سند عطا کرنے والے کو درازی عمر کی دعا دیتا۔ برطانیہ میں ایسے نہیں ہوتا۔ یہاں پچاس سال کی عمر تک مرد ’بوائے‘ (Boy) کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہتا ہے، اس کے بعد، عہد پیری میں بھی وہ تھوڑے سے تنزل کے بعد، ’ینگ مین‘ (Young man) کے عہدہ رذیلہ پر ہی قائم و دائم رہتا ہے۔ البتہ عورتیں یہاں عمر کی دست برد سے آزاد، ساری عمر، ’گڈ گرل‘ (Good Girl) ہی رہتی اور کہلاتی ہیں۔
ابھی متذکرہ حج کی ہی بات ہے، میں مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران لانڈری میں اپنا احرام دھلوانے گیا۔ دکان کے مالک، جو پاکستانی تھے اور عمر کے نصف النہار پر تھے، کو احرام کی چادریں دیں تو پیشگی اجرت لے کر کہنے لگے : ’بابا! دو دن بعد، فلاں تاریخ کو، آ کر اپنا احرام لے جائیے گا‘ ۔ حج کے دوران مسافرت، مسلسل چلنے کی مشقت، تھکاوٹ، بے آرامی اور کم خوابی کی وجہ سے ہر شخص نڈھال ہوتا ہے اور وہ اپنی اصلی عمر سے کہیں زیادہ کا دکھائی پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ کچھ اور عناصر بھی چشم زدن میں آپ کی عمر میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ وہ جو ساری عمر کی تگ و تاز کے بعد آپ جس عالی مرتبت نشست پر براجمان ہوتے ہیں، حرم کی حدود میں داخل ہوتے ہی وہ نشست یک لخت آپ کے نیچے سے ہٹا لی جاتی ہے۔ ابھی آپ اس جھٹکے سے سنبھلے نہیں ہوتے کہ ایک اور مقام تحیر آپ کا منتظر ہوتا ہے۔ بیت الحرم کے محیط پر پاؤں پڑتے ہی اس مقام کے رعب، دبدبے اور جلال سے ناگہاں آپ پر ایسی سراسیمگی طاری ہوتی ہے کہ قرآن میں اللہ کے فرمان کے عین مطابق، و تقشعر جلودھم الخ (اور ان کی جلد میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے)۔ پورے جسم میں ایک برقی رو سی کوندتی ہے، کپکپی طاری ہوتی ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آپ کا اپنا رعب داب، خبط عظمت یا احساس بزرگی یا برتری کہیں دب دبا جاتا ہے۔ یہاں بہت سوں کا غرور و تکبر، اگرچہ جز وقتی ہی سہی، عجز و انکسار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اندر جا کر جب خانہ کعبہ پر نگاہ پڑتی ہے تو وہیں ٹھہر جاتی ہے۔ پورا جسم تو ریت کی ڈھیری بن کر ساکت و جامد ہو جاتا ہے۔ آپ کی ذات، کلی طور پر معدوم ہو جاتی ہے۔ صرف آنکھوں میں دیکھنے کی صلاحیت (غالباً پیا ملن کی آس میں) برقرار رہتی ہے۔ نگاہیں پیا کے گھر پر ایسی جم جاتیں ہیں کہ وہاں سے ہٹنے کا نام نہیں لیتیں، ہٹانے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ یہ پہلی نگاہ پر مر مٹنے (Love at first sight) کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ جی تو یہی چاہتا ہے کہ اب دنیا کے سب جھنجھٹ چھوڑ کے یہیں کے ہو رہو۔ بس اللہ کے گھر کو تکے جاؤ۔ دل میں خیال آتا ہے، اے اللہ! اگر تیرے گھر کو دیکھ کر نگاہیں سیر نہیں ہوتیں تو تیرا اپنا دیدار و نظارہ کیسا ہو گا؟
وہاں سب کچھ ہی تو بھول جاتا ہے۔ اب کیسا طواف اور کیسی دعائیں؟ لیکن پھر بھی رسم عبادت نبھانے کو لوگوں کے ہجوم میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ اللہ کے گھر کے چکر لگاتے ہوئے اگر آپ کا ہاتھ کعبہ کی دیوار سے مس ہو جائے تو گیارہ ہزار وولٹ کا ایسا جھٹکا پڑتا ہے کہ ڈھیر کر کے رکھ دیتا ہے۔ ایسے میں جب کوئی شخص اپنی نیم جاں لاش کو اپنے ہی کندھوں پر اٹھائے، پاؤں گھسیٹتے ہوئے باہر آ جائے تو اس پیر فرتوت کو دیکھ کر کوئی بابا نہ کہے اور کیا کہے؟
مقررہ دن، جب میں اسی دکان پر اپنا احرام لینے گیا تو قطار میں مجھ سے آگے ایک خان صاحب تھے۔ جب وہ کاؤنٹر پر پہنچے تو دکان دار نے کہا : آپ کے کپڑے تیار نہیں، آپ کل آ کر لے جائیں۔ خان صاحب پھٹ پڑے۔ کہنے لگے کل بھی تم نے یہی کہا تھا۔ اب میں تیسری مرتبہ تمہاری دکان پر آیا ہوں۔ تم لوگ ہمارے ساتھ کیا کرتا ہے؟ ایک بات پر کیوں نہیں ٹھہرتا؟ دکان دار نے کچھ وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی لیکن خان صاحب کا پارہ چڑھتا چلا گیا۔
خان صاحب نے اور بھی بہت کچھ کہا۔ معاملہ بحث و تکرار یعنی حج کے لغوی معنی ’بحث مباحثہ، لڑائی جھگڑے‘ کی عملی تصویر بنتا جا رہا تھا۔ پھر شاید خان صاحب کو حج یا حرم کا خیال آ گیا اور یہ کہتے ہوئے چلے گئے : ’میں کل آؤں گا لیکن میرے کپڑے ہر صورت تیار ہونے چاہئیں‘ ۔ میں آگے بڑھا تو ان صاحب نے کہا: دیکھا چاچا، کیسے کیسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ میں نے کہا، ہاں کبھی کبھی ایسے ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی شکراً و جزاک اللہ خیراً کے الفاظ بھی بول دیے۔ وہ بات کرتے ہوئے جب بھی مجھے چاچا کہتا، میں کورنش بجا لاتا اور کہتا شکراً۔ ایک دو مرتبہ میرے منہ سے ’تھینک یو‘ بھی نکل گیا۔ اسے سمجھ نہیں آئی کہ ابھی اس کے کپڑے تو میں نے دیے نہیں، پھر یہ کس بات پر بار بار شکریہ ادا کر رہا ہے۔ اسے بالکل علم نہیں تھا کہ میری ’بابا‘ سے ’چاچا‘ کے درجے پر ترقی، میرے لئے وجہ انبساط و افتخار ہی نہیں وجہ اظہار تشکر بھی تھی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ میرا حرام دھل کر تیار مجھے مل گیا ورنہ پتہ نہیں میرے کلمات شکراً و جزاک اللہ خیراً سے تبدیل ہو کر کیا ہو جاتے۔
اب میں ظفر چوہدری کے دفتر میں بیٹھا تھا اور ہمارے سامنے نشتر میں گزرا ہوا زمانہ ایک بڑے سے کینوس پر اپنے نقش و نگار کے ساتھ پھیلتا چلا جا رہا تھا۔ ظفر کہنے لگا: دیکھو جمیل! وقت بھی انسان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ کالج کے دنوں میں مجھے فزیالوجی سے چڑ تھی، میں کہا کرتا تھا بھلا فزیالوجی بھی کوئی پڑھنے کی چیز ہے؟ پروفیسر گلزار (جو ہمارے فزیالوجی کے پروفیسر تھے ) جنہیں ہم بابا گلزار کہا کرتے تھے، میرے پسندیدہ استاد نہیں تھے۔ اب دیکھو جس مضمون سے مجھے کراہت تھی، قدرت نے مجھے وہی مضمون پڑھانے پر مامور کر دیا ہے۔ اب تو فزیالوجی ہی میرا سب کچھ ہے۔ اس کام میں اب میرا دل لگ گیا ہے۔ ظفر نے عہدہ جاتی ترقی میں کچھ مشکلات کا ذکر بھی کیا۔
ظفر سے کالج کے ایام میں میری کوئی زیادہ علیک سلیک نہیں تھی۔ ظفر نکلتے قد کا صحت مند اور خوش رو شخص تھا۔ شروع شروع میں اسے دیکھا تو وہ چلبلی طبیعت کا ہنس مکھ نوجوان لگا۔ شرارت اور ہنسی مذاق تو اس کی سرشت میں تھے ہی وہ ٹھٹھا ٹھٹھول کے شغل سے بھی دل بہلانے کے مواقع پیدا کر لیا کرتا تھا۔ کالج کے ابتدائی دنوں میں وہ صلاح الدین (ڈرماٹالوجسٹ۔ واہ کینٹ) کے ساتھ نظر آتا تھا۔ دونوں غالباً سینا ہال میں رہتے تھے۔ صلاح الدین ایک سنجیدہ، متین، نہایت ہی شائستہ مزاج اور کم گو نوجوان تھا۔ اس سے میری کچھ راہ و رسم تھی۔ ظفر کی ہمہ وقت متحرک شخصیت اور زندہ دلی کی وجہ سے اس کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ پروفیسر عبدالقادر ملک (پریونٹو میڈیسن کے پروفیسر) کے لیکچر میں سازندوں کا طائفہ جو اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تھا، ظفر اس کا اہم رکن تھا۔ بلکہ کیسی کیسی، آج کی عالی مرتبت اور بزرگ شخصیات، اس آرکسٹرا کا حصہ تھیں۔ ظفر کی آواز، شادی کے بینڈ میں شہنائی جیسی تھی۔
سردیوں کا موسم تھا۔ ہم تیسرے سال میں تھے، پیتھالوجی کا لیکچر تھا۔ ہم سبھی پیتھالوجی کے چھوٹے لیکچر تھیئٹر، جو پیتھالوجی ڈیپارٹمنٹ سے آتے ہوئے میوزیم کے بعد آتا تھا، میں آئے بیٹھے تھے۔ اتفاق سے آج میں خلاف معمول، کہیں پیچھے ظفر کے ساتھ ایک نشست چھوڑ کر بیٹھا تھا۔ ایک گھر گھرہستن سی خاتون (نام یاد نہیں) ، جو ڈیپارٹمنٹ میں ڈیمانسٹریٹر تھیں، لیکچر لیا کرتی تھیں۔ ان کی آمد آمد تھی، اس لئے سبھی خاموش تھے۔ ریاض سلطانہ، جو مشرقی پاکستان کے بچھڑنے پر ہمارے ساتھ دوسرے سال میں آ ملی تھیں، اندر آئیں۔ وہ خوب صورت نقش و نگار کی بھولی بھالی سی خاتون تھیں۔ آج انہوں نے نیلے رنگ کا فراک کوٹ پہن رکھا تھا جو بہت بھلا لگتا تھا۔ اس مکمل خاموشی میں ظفر کی آواز گونجی:
نیلی چڑیا پنجرے میں بند کر لی میں نے ایک لڑکی
ظفر کی آواز اتنی بلند تھی کہ ریاض بوکھلا کر بد حواسی میں پاس کے بنچ پر ڈھیر ہو گئی، حالاں کہ وہاں بیٹھنے کو جگہ نہیں تھی۔ دوسری لڑکیوں نے سمٹ سمٹا کر اس کے لئے جگہ بنا لی۔ شور شرابے میں مبہم انداز میں اس طرح کا آوازہ شاید اتنی بوکھلاہٹ کا سبب نہ بنتا لیکن عالم سکوت میں جھیل میں پھینکا جانے والا پتھر پانی میں ارتعاش ہی پیدا نہیں کرتا، اس سے اٹھنے والی لہریں بھی دیر تک قائم رہتی ہیں۔ ظفر تو ابھی تک یہ راگ الاپے چلا جا رہا تھا۔ مجھے یہ اچھا نہ لگا۔ میں نے کہا ظفر! کچھ خیال کرو، یہ کیا کر رہے ہو؟ تم نے تو اسے نیم جاں کر کے رکھ دیا ہے۔ کہنے لگا کچھ نہیں ہوتا، بس شغل میلہ ہے۔
تھوڑی ہی دیر بعد وہ خاتون نہیں، جن کا انتظار تھا، ایک نرم و نازک بلکہ لطیف و لاغر سے جسم اور نرم و ملائم یعنی مخلوط خد و خال کے مالک ڈیمانسٹریٹر تشریف لائے۔ مونچھوں کا سرے سے ہی صفایا کر کے لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کا بندوبست انہوں نے خود ہی کر رکھا تھا۔ ان کی آواز کا بھاری پن ہی ان کے مردانہ پن کی واحد ظاہری نشانی تھا۔ یہ صاحب پہلے بھی ایک دو مرتبہ تشریف لائے تھے۔ انہوں نے رول کال لینی شروع کر دی۔
ناصر امان، ہمارا کشمیری بھائی جس کا تعلق ہنزہ، نگر سے تھا، آج کلاس میں نہیں تھا۔ میں نے بلا سوچے سمجھے، اس کے رول نمبر جو 96 تھا، پر جلدی سے ’یس میڈم‘ کہ دیا۔ یہ غلط فہمی، بھلکڑ پن، بوکھلاہٹ، شرارت اور حماقت کا امتزاج تھا۔ وہ صاحب آگ بگولا ہو گئے۔ لگتا تھا کہ آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ وہ بار بار اس آواز کے تعاقب میں ہماری طرف دیکھتے اور کھڑا ہونے کو کہتے۔ ناصر امان تو وہاں تھا ہی نہیں، کھڑا کون ہوتا۔ ظفر نے مجھے کہا اب کھڑے ہو جاؤ، تم مجھے روکتے تھے نا۔
بڑی رد و کد کے بعد ان صاحب نے رول کال دوبارہ شروع کی۔ افتخار حمید مظہر مرحوم غالباً اپنی کتاب دیکھ رہا تھا۔ جب اس کا رول نمبر ( 127 ) پکارا گیا تو اس نے بے دھیانی میں ہڑ بڑا کر پہلے ’یس میڈم‘ کہا اور پھر تصحیحاً ’یس سر‘ ۔ اب ان صاحب کا چہرہ دیکھنے کے لائق تھا وہ غیظ و غضب سے لال بھبھوکا ہو گئے۔ افتخار ان کے سامنے، قریب ہی بیٹھا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے، افتخار نے اپنی کتابیں اٹھائیں اور کلاس روم سے باہر چلا گیا۔ انہوں نے اسے روکا نہیں۔ (افتخار اوائل جوانی میں ہی ہمیں داغ مفارقت دے گیا۔ اللہ اس کی مغفرت فرمائے اور اس کے درجات کو بلند کرے )
جنرل اسلم (ہمارے کلاس فیلو، فزیالوجی کے پروفیسر اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر) میرے ہر سال پاکستان آنے پر لاہور میں ہم جماعت دوستوں کی محفل کا بندوبست کرتے تھے۔ ظفر سے لاہور میں انہی محفلوں میں دو مرتبہ ملاقات ہوئی۔ اب اس میں شوخی اور شرارت نے سنجیدگی اور متانت کا روپ دھار لیا تھا۔ وہ شوخیاں وہ شرارتیں، وہ زندگی کی حرارتیں جانے کہاں کھو گئیں تھیں۔ وقت بھی انسان کی کیسی تراش خراش کرتا ہے۔ وہ نوک دار کونے جو دوسروں کے لئے کبھی کبھی باعث آزار بن جایا کرتے ہیں، وقت کے ریگ مال سے رگڑ رگڑا کر پہلے کند ہوتے ہیں اور پھر گول ہو کر ملائم ہو جاتے ہیں۔ عمارت کی خوب صورتی کا جوبن اور نکھار تو اس کے مکمل ہونے پر ہی ظاہر ہوتا ہے۔
میں چونکہ اعلیٰ تعلیم و تربیت مکمل کرنے کے بعد برطانیہ میں ہی پڑ رہا تھا اور سرجن ہونے کے ناتے بنیادی طبی سائنسز سے تعلق نہیں رہا تھا، اس لئے اس شعبے کے بارے میں کسی کی قابلیت یا مہارت پر کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ البتہ جنرل اسلم، جن کا شعبہ ہی یہی ہے کے مطابق، پروفیسر ظفر علی چوہدری بہترین منتظم اور استاد تھے۔ بطور ممتحن، امتحانوں میں ان کا رویہ، نہایت ہی مدلل اور منطقی ہوتا تھا۔ انہوں نے متعدد ورک شاپس، سیمینار، تربیتی کورسز اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ تعلیم سے متعلقہ ہم نصابی بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی طلبا کی رہنمائی کی۔ الغرض انہوں نے طب کے شعبہ میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
ظفر کو دسمبر 2020 ء میں میو ہسپتال سے متعلقہ البرٹ وکٹرہسپتال میں ’کورونا‘ کی وجہ سے داخل کیا گیا۔ کورونا سے تو وہ صحت یاب ہو گئے البتہ جریان خون کی وجہ سے وہ 17 دسمبر 2020 ء کو وہ زندگی کی بازی ہار گئے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالی انہیں غریق رحمت کرے اور اس کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

(اپنے ہم جماعت، پروفیسر ظفر علی چوہدری کی وفات لکھی گئی تحریر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments