ہمارا تصورِ ذات کیسے بنتا ہے(قسط اول)۔


اپنی ذات کو جاننے اور پہچاننے کی روایت تو قدیم یونان سے چلی آ رہی ہے تاہم اس دور میں ”انسانی ذات“ کیا ہے؟ کے سوال نے زیادہ شدت اختیار کر لی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق گوگل پر ایک سال میں ایک بلین کے قریب لوگ لفظ ”ذات“ کو سرچ کرتے ہیں۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا شاعر حضرات بھی اپنی شاعری میں اپنی ذات کو جاننے کے حوالے سے کافی کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ معروف شاعر انجم سلیمی کا شعر ہے:

انجم سفر کٹھن سہی تسخیر ذات کا
لیکن مجھے خوشی ہے مرا ہم سفر ’میں‘ ہوں

اب سوال یہ ہے کہ انسانی ذات ہے کیا؟ اس سال کا جواب مذ ہب کی رو ح سے مختلف ہو گا، فلسفہ کچھ اور جواب دے گا جبکہ شاعر کا تخیل اسے کسی اور وادی میں لے جائے گا۔ ہم اس سوال کا جواب ”نفسیات“ کی مدد سے دیں گے لیکن اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمیں ضرورت ہی کیا ہے اپنی ذات کو جاننے کی؟

اس دنیا میں اپنی روزمرہ کی زندگی میں مختلف کام سرانجا م دینے کے لیے ہمیں اپنی ذات کے متعلق علم ہونا بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر یہ ضروری ہے کہ آپ کو علم ہو کہ آپ ریاضی کا مضمون زیادہ پسند کرتے ہیں یا بیالوجی کا تاکہ آپ تعلیمی میدان اپنی سمت کا تعین کر سکیں۔ اس طرح اگر آپ کو علم ہو کہ آپ کس کھیل میں زیادہ اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں تو یہ معلومات آپ کے لیے بہت فائدہ مند ہوں گی، آپ اسی کھیل میں جائیں گے جس میں آپ اچھے ہیں۔

نفسیات میں ہم ”ذات“ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلے حصے کو ہم ”self concept“ کہتے ہیں جبکہ دوسرے حصے کو ”self Esteem“ کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاحا ت صرف ذات کے تصور کو سمجھنے کے لیے بنائی گئی ہیں، ان کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہماری ذات تقسیم شدہ ہے۔ ”self concept“ ہماری ذاتی قابلیتوں اور صلاحیتوں کو جاننے کا نام ہے۔ یہاں اس امر کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو ان کی اپنی ذات ہے بھلا ان کو اپنے متعلق جاننے کی کیا ضرورت ہے؟

وہ اپنے متعلق سب جانتے ہیں یا یہ کہ یہ سارا عمل خود بخود وقوع پذیر ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ عرض ہے کہ اگر معاملہ اتنا ہی سادہ اور خودکار ہوتا تو فلاسفہ نے ذات کو پہچاننے پر یہ اتنا زور نہ دیا ہوتا، ماہرین نفسیات نے اس مضمون پر اتنی تحقیق نہ کی ہوتی اور عوام کی کثیر تعداد سیلف ہیلپ کے متعلق کتابوں کے نشے میں دھت نہ ہوتی۔

 self concept مرحلہ در مرحلہ پروان چڑھتا ہے۔ جس طرح ہم دوسرے لوگوں کے متعلق رائے رکھتے ہیں اور اس رائے کے بننے میں کافی عوامل سرگرم ہوتے ہیں بالکل اسی طرح self concept کے بننے میں بھی کافی عوامل شامل ہوتے ہیں۔ ہم یہاں ان عوام کا مختصر سا تعارف پیش کریں گے۔

سب سے پہلے تو یہ کہ ہم اپنے روزمرہ کے رویوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسے اپنی ذات کے تصور کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ ہر تقریب میں عین وقت پر پہنچ جاتے ہیں تو آپ اس تصور کے حامل ہوں گے کہ آپ وقت کے پابند ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کو ذرا ذرا سی بات پر غصہ آنے لگتا ہے تو آپ کا اپنی ذات کے متعلق یہ تصور قائم ہو جائے گا کہ آپ بہت غصے والے ہیں۔ ہم اس تھیوری کو self perception theory کہتے ہیں۔ یہاں یہ بات بالکل بھی حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے وہ رویے یا عوامل جو کسی خارجی صلے یا سزا کے خوف کے بغیر سرانجام دیے جاتے ہیں ،وہ ذات کے تصور میں زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ اگر کوئی کام آپ سے زبردستی کروایا جا رہا ہو تو اس کا محرک اندرونی نہیں ہوتا، یعنی ذات سے منسلک نہیں ہوتا۔ یہاں یہ بات مزے کی ہے کہ اگر آپ صرف سوچ بھی لیں کہ آپ فلاں فلاں کام سر انجام دے رہے ہیں یا دے سکتے ہیں تو یہ بھی ذات کے تصور کا حصہ بن جاتا ہے۔

تصور ذات کا دوسرا ذریعہ ہماری سوچ اور محسوسات ہیں۔ آپ نے اکثر یہ تجربہ کیا ہو گا کہ آپ کرنا کچھ چاہ رہے ہیں لیکن کر کچھ اور رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آپ کی ذات تو آپ کو کسی ایک سمت کی طرف راغب کرتی ہے لیکن آپ بیرونی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں لہٰذا آپ اپنی ذات کے پیغام کو پس پشت ڈال کر بیرونی دباؤ کے تحت کام سر انجام دینے لگتے ہیں۔ اسی لیے خاص طور پہ تصور ذات کے متعلق کہا جاتا ہے ”میں وہ نہیں ہوں جو میں کرتا ہوں (کیونکہ میں بیرونی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہوں) بلکہ میں وہ ہوں جو میں سوچتا ہوں“

اپنی ذات کو جاننے کا تیسرا ذریعہ دوسرے لو گوں کا ہمارے ساتھ رویہ ہے۔ مثال کے طور پر یہ آپ کو کیسے معلوم ہوتا ہے کہ آپ آج بہت ہینڈ سم لگ رہے ہو؟ یقیناً آپ کو آپ کا کوئی نہ کوئی جاننے والا بتاتا ہے کہ واہ بھئی! آج تو کمال ہو گیا۔ اسی طرح ہمیں اپنی دفتری کارکردگی کا پتا بھی اپنے باس کے رویے سے چلتا ہے۔ اگر وہ اخلاق سے پیش آ رہا ہے تو مطلب آپ ٹھیک جا رہے ہیں لیکن وہاں اس کا رویہ بدلتا ہے اور یہاں آپ کو نوکری کے لالے پڑ جاتے ہیں۔

اور ہاں یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کو دوسرے لوگ یہ بتائیں کہ آپ ذہین ہو یا کہ آپ کا اخلاق اچھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آپ ان کے برتاؤ سے جان لیتے ہیں کہ وہ آپ کے متعلق کیا تصور رکھتے ہیں۔ اور پھر آپ کا بھی اپنی ذات کے متعلق وہی تصور بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر دفتر کے تمام لوگ اپنی ذاتی زندگی کے معاملات آپ سے شیئر کرتے ہیں اور آپ کی رائے چاہتے ہیں تو آپ خود کو سیانا بندہ سمجھنے لگتے ہیں اور یوں یہ آپ کے تصور ذات کا حصہ بن جائے گا۔

آخری مگر سب سے اہم ذریعہ دوسرے کے ساتھ تقابل کرنا ہے اگر آپ سے کوئی کہے کہ آپ ٹیبل ٹینس کے بہترین کھلاڑی ہیں تو کیا آپ اس کی بات پہ یوں ہی یقین کر لیں گے؟ بالکل بھی نہیں۔ آپ ٹیبل ٹینس کھیلیں گے، جب کئی کھیل جیت جائیں گے تب آپ کا یہ تصور بنے گا کہ آپ اس کھیل کے ایک اچھے کھلاڑی ہیں۔

ہم نفسیات میں اس تھیوری کو Social Comparison Theory کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں کا اندازہ تب ہی لگا سکتے ہیں جب آپ کسی سے مقابلہ کریں۔ یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ مقابلہ اس سے کیا جائے جو کہ آپ جتنی ہی صلاحیت کا مالک ہو۔ مثال کے طور پر اگر آپ اپنی تعلیمی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنا تقابل اپنے ہی ادارے یا پھر اپنے علاقے کے طلبا سے کرنا چاہیے نہ کہ آپ اپنا تقابل دنیا میں کسی اور علاقے کے طلبا سے شروع کر دیں۔

یہ تھا ان عوامل اور ذرائع کا ذکر جو ہمارا Self Concept بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں اب ذات کا دوسرا حصہ Self Esteem کیا ہے؟ اس کا ہماری ”ذات اور نفسیات“ یہ اثر کیا ہوتا ہے؟ اور یہ پروان کیسے چڑھتا ہے؟ اس سب کا ذکر ہم اگلی قسط میں کریں گے۔

(جا ری ہے۔۔۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments