آؤ کیفے میں چلیں


مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں تنخواہوں کا ایم پی سکیل لاگو ہوا جس کا بظاہر مقصد مارکیٹ سے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا تھا مگر یہ دوستوں کو نوازنے کا بھی ذریعہ بن گیا. اس سکیل کے تحت ”ماہرین“ کی تنخواہیں 10، 20 اور 50 لاکھ ماہانہ تک دی گئیں۔ سرکاری کارپوریشنوں میں بھی تنخواہیں بہت زیادہ ہیں۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ جس کو چاہتے ایم پی سکیل دے دیتے۔ منہ سے نکلی بات قانون بن جاتی۔

واپڈا کی نجکاری کے لیے اسے کمپنیوں میں تقسیم کر دیا گیا جس کے سی ای اوز، ڈی جی، ڈپٹی ڈی جی، بورڈ آف گورنرز اور نہ جانے کتنے آفیسرز ہیں جن کی تنخواہوں پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ نجکاری بھی نہ ہو سکی اور اربوں روپے کا بوجھ بھی پڑ گیا۔ عوام ان اداروں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔

ایک خبر کے مطابق 2020ء کے دوران بجلی صارفین سے 65 فیصد ٹیکس وصول کیا گیا۔ اخبار نے نیپرا دستاویزات کے حوالے سے بتایا کہ اس دوران صارفین سے 366 ارب روپے ٹیکس لیا گیا۔ اس دوران 119 ارب 72 کروڑ یونٹ بجلی پیدا کی گئی جس پر 561 ارب روپے لاگت آئی جبکہ لاگت ٹیکس اور سرچارجز کی مد میں عوام سے 927 ارب روپے ہتھیائے گئے۔ سرچارج میں پی ٹی وی فیس 9 ارب 80 کروڑ روپے وصول کی گئی۔

عوام کو کس کس طریقے سے لوٹا جا رہا ہے۔ میپکو میں بجلی کے میٹر کی ریڈنگ کے لئے ماہانہ 22، 21 تاریخ مقرر ہے مگر سادہ لوح عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ بل میں ریڈنگ کی تاریخ وہی درج کی جاتی ہے جو مقرر ہے لیکن عملاً اس کے کئی روز بعد اگلے مہینے کی 3 یا 4 تاریخ کو ریڈنگ لی جاتی ہے۔ کیمرہ سے لی گئی میٹر کی تصویر میں وہ تاریخ بالکل واضح ہوتی ہے۔ جس تاریخ کو درحقیقت ریڈنگ لی گئی ہو۔ اس میں واردات یہ کی جاتی ہے کہ 22 یا 23 تاریخ کے بعد اس میں گیارہ روز کی ریڈنگ مزید جمع کرنے سے بل میں صرف شدہ یونٹ بڑھ جاتے ہیں اور زیادہ ٹیرف کی حد آ جاتی ہے۔ یعنی جن یونٹوں نے اگلے ماہ کے رعائتی سلیب کا حصہ بننا تھا ، وہ موجودہ مہینے کے یونٹس میں اضافہ کر کے بل کو پندرہ سو، دو ہزار بڑھا دیتے ہیں۔

زیادہ تنخواہ لینے والوں میں عدلیہ بھی شامل ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کے ججز کو اوسطاً 13 لاکھ روپے ماہوار تنخواہ ملتی ہے جو روزانہ 45 ہزار روپے بنتی ہے۔ الاؤنسز اور سہولیات اس کے علاوہ ہیں۔ مگر گلگت بلتستان کی عدلیہ زیادہ خوش قسمت ہے۔ معروف تجزیہ نگار انصار عباسی نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک آئینی درخواست دائر کی گئی ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ گلگت بلتستان کے چیف جسٹس اور دو ججز کو تین سال کے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا جس کی تکمیل سے وہ کروڑ پتی بن گئے۔ یعنی 6 کروڑ روپے ادا کیے گئے جو 16 لاکھ ماہانہ بنتی ہیں اور 8 لاکھ ماہانہ پنشن بھی دی گئی۔ حالانکہ یہ صرف تین سال کی کنٹریکٹ ملازمت تھی جس میں پنشن نہیں دی جاتی۔ ایک وکیل بھی سپریم کورٹ کا چیف جج بن سکتا ہے۔ ججز کو ریٹائرمنٹ پر 2700 سی سی کار اور عملہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔

ایک طرف یہ شاہ خرچیاں اور دوسری طرف عوام کے لئے بجلی، پٹرول اور دیگر اشیائے ضرورت کی کمر توڑ قیمتیں ہیں۔ چکی کا اچھا آٹا کئی برس سے 35 روپے کلو چل رہا تھا ، یہ ”بابرکت“ حکومت آئی تو آٹے کی قیمتوں کو پر لگ گئے۔ آج کل 75، 80 روپے میں ناقص آٹا ملتا ہے۔ بجلی اور پٹرول کی قیمت بڑھنے سے ہر چیز کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔

اپوزیشن اور حکومت میں بیان بازی کا مقابلہ لگا ہوا ہے۔ قیمتی وقت ٹیلی ویژن مباحثوں کے سننے میں برباد ہو رہا ہے۔ لوگ ان کو سن سن کر ذہنی مریض بن رہے ہیں۔ ہر شخص رو رہا ہے سوائے ان کے جو ”مال“ بنا رہے ہیں۔

بھارت مقبوضہ کشمیر کو ضم کر کے اب آزادکشمیر پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے۔ وزیراعظم نے نہ جانے کس ترنگ میں مسئلے کے حل کے لئے تیسرے آپشن کی نوید سنا دی ہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی دگرگوں ہے۔ وکلاء آئے روز عدالتوں پر حملے کر رہے ہیں۔ مختلف شعبوں کے لوگ جگہ جگہ دھرنے دے رہے ہیں اور اپنے جائز ناجائز مطالبات منوا لیتے ہیں۔ قرضوں کے لئے پاکستان کے ایئرپورٹس، موٹرویز، پبلک پارکس گروی رکھ دیے گئے ہیں۔ ہر طرف انارکی کا سماں ہے۔ عام آدمی کیا کرے کدھر جائے۔

غم غلط کرنے کو آئیے کچھ دیر کے لئے خوشحال طبقے کا ”قومی ترانہ“ پڑھتے ہیں جو دراصل فرخ درانی (مرحوم) نے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد سال نو پر نوحہ لکھا تھا۔

بنگلہ دیش، بہاری، ریڈیو خبریں۔ یہ سب
اخبار کی سرخی ہے ، اسے آنکھ کی سرخی نہ بناؤ بانو
سال نو کی یہ حسیں رات یوں غارت نہ کرو
ہو گا کوئی مگر آج کی شام بڑی دلکش ہے
کیوں کسی کے غم میں بیکار جلیں ، آؤ کیفے میں چلیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments