سینیٹ کا نیا چئیرمین: اکبر ایس بابر یا یوسف رضا گیلانی؟


الزامات کے موسم میں اعتبار سب سے پہلا نشانہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی مفاد کے لئے اس تواتر سے جھوٹ بولے گئے ہیں کہ اب سچ اور جھوٹ کا فرق کرنا بجائے خود بے مقصد ہوچکا ہے۔ ایک بے ہنگم شور ہے جس میں جس کے جو منہ میں آتا ہے، وہ کہنے پر مصر ہے۔ حیرت صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ کیا یہ اسی ملک میں ہورہا ہے جسے اپنی زندگی کے سنگین ترین مرحلہ کا سامنا ہے۔

پاکستان کے مصائب کئی جہتوں میں موجود ہیں۔ گو کہ حکومت وقت حالات و معاملات کی خوشگوار تصویر دکھا کر یہ یقین دلانا چاہتی ہے کہ معیشت تیزی سے ترقی کررہی ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے اعتبار کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے ترسیلات زر کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ مسلح افواج دشمن کے دانت کھٹے کرنے کےلئے ہمہ وقت تیار ہے اور ملک کو ایک ایسا وزیر اعظم نصیب ہؤا ہے جو پوری دنیا میں پاکستان ہی نہیں بلکہ اسلام کا جھنڈا بلند کرنے میں یکسو ہے۔ عمران خان نے حال ہی میں تحریک لبیک کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بارےمیں یہی یاددہانی کروائی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس معاہدہ کے تحت فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کا معاملہ قومی اسمبلی میں پیش کریں گے لیکن یہ نہیں بتایا کہ معاملہ کس صورت میں اسمبلی میں لایا جائے گا؟ اور حکومت کا اس پر کیا مؤقف ہوگا۔ البتہ اپنی اسلامی خدمات کی تفصیل ضرور بیان کی ہے۔

کیا حکومت اسمبلی میں کوئی قانونی مسودہ لائے گی جس کے تحت دنیا میں کسی بھی جگہ پر اسلام یا پیغمبر اسلام کے بارے میں نازیبا اور غیر ذمہ دارانہ گفتگو پر پاکستان اس ملک کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے قطع تعلق کرلے گا۔ کیوں کہ فرانس کے معاملہ میں تحریک لبیک کا یہی مؤقف ہے کہ وہاں پر چارلی ہیبڈو نامی جریدے نے چونکہ گستاخانہ خاکوں کو پھر سے شائع کیا اور صدر میکرون نے اس اشاعت کے بعد اصرار کیا کہ وہ اس حق کی حفاظت کریں گے کیوں کہ آزادی اظہار فرانسیسی سیاست و ثقافت کا بنیادی عنصر ہے۔ اب تحریک لبیک اس بے باکانہ بیان پر فرانس کو سخت سزا دینا چاہتی ہے۔ بظاہر حکومت اس سوال پر اس انتہا پسند گروہ کے ساتھ متفق ہے۔ حالانکہ دو سال قبل یہی حکومت اسی گروہ کے کارکنوں اور لیڈروں کی پکڑ دھکڑ میں مصروف تھی۔

وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے وزارت مذہبی امور اور لبیک تحریک کے درمیان ہونے والے معاہدے کی تصدیق کے بعد یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کیا حکومت قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر کوئی قانون سازی کرے گی تاکہ وہ دنیا سے توہین مذہب کے معاملہ پر پاکستان کا مخصوص مؤقف منوانے کے لئے ’بااختیار‘ ہوجائے۔ اس اختیار کے تحت سب سے پہلے تو اسلام آباد سے فرانس کے سفیر کو نکالنا مقصود ہے۔ البتہ یہ بات صاف طور سے کہنے سے گریز کیا جارہا ہے کہ کسی سفیر کو ملک سے نکالنے یا تحریک لبیک کے زعما کے الفاظ میں ’ملک بدر ‘ کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک تو متعلقہ سفیر کی کسی غیر سفارتی یا ناجائز حرکت کی وجہ سے اسے ’ناپسندیدہ شخصیت‘ قرار دے کر ملک چھوڑنے کی درخواست کی جائے۔ عام طور سے دشمن ممالک میں اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ پاکستان اور فرانس کے درمیان بظاہر ’دوستانہ ‘ مراسم قائم ہیں اور پاکستان دنیا کے متعدد فورمز پر فرانس کی سفارتی امداد کا خواہاں بھی رہتا ہے۔ اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی کسی ’غیر سفارتی ‘ حرکت کی کوئی خبر بھی سامنے نہیں آئی۔

کسی ملک کے سفیر کو نکالنے کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلئے جائیں۔ اس طرح دونوں ملکوں کے سفارتی عملہ کو ایک دوسرے کا ملک چھوڑنا پڑتا ہے۔ ایسا فیصلہ کرنے کے لئے حکومت یا عمران خان کو تحریک لبیک سے مہلت لینے اور اس کے ساتھ معاہدے کی ضرورت نہیں تھی۔ عمران خان بطور وزیر اعظم کابینہ کو اعتماد میں لے کر یہ اقدام کرسکتے تھے۔ یہ کام کرنے کےلئے حکومت کو کسی نئی قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں ہے جس کے لئے معاملہ کو قومی اسمبلی میں پیش کرنا پڑے۔ پھر یہ معاہدہ کرنےاور وزیر اعظم کی طرف سے اس کی تصدیق کا کیا جواز ہے؟ اس کا جواب اسی گفتگو میں وزیر اعظم کی اس وضاحت سے ظاہرہوجاتا ہے جس میں وہ اسلام کی سربلندی اور توہین مذہب کی مغربی روایت کے خلاف اپنی گراں مایہ خدمات کا ذکر کرتے ہوئے تحریک لبیک کو بتا رہے ہیں کہ انہیں تسلیم کرنا چاہئے کہ اس سے پہلے کسی پاکستانی تو کیا، مسلمان لیڈر نے بھی گستاخی رسولﷺ یا اسلامو فوبیا کے سوال پر اتنی جرات مندی سے بات نہیں کی جس کا سہرا عمران خان کےسر باندھا جاسکتا ہے۔

لبیک تحریک کےساتھ ہونے والے معاہدہ کے مطابق معاملہ قومی اسمبلی میں لے جانے کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ’کامیابیوں‘ اور مذہب کے لئے خدمات کا حوالہ دینے کا مقصد محض یہی ہوسکتا ہے کہ حکومت سے اس سے زیادہ کی توقع نہ رکھی جائے۔ گویا تحریک لبیک کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانے کی بجائے عمران خان کے ہاتھ مضبوط کریں۔ وہی ان کے ایجنڈے کو پورا کرنے کا ’حوصلہ ‘ رکھتا ہے۔ اس طرح ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک تو ایک انتہا پسند گروہ کو خاموش کروانے کا طریقہ تلاش کیا گیا ہے۔ دوسرے اس کی بالواسطہ حمایت کے ذریعے اپنی دینی گرمجوشی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عمران خان ایسی ہی کوشش علما و مشائخ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھی کرچکے ہیں جب انہوں دینی علما کو دعوت دی تھی کہ تحریک انصاف نے تو مدینہ ریاست بنانے کا کام شروع کردیا۔ اب یہ علما کا فرض ہے کہ وہ عوام کو نظریاتی طور سے چوری، بدعنوانی اور بداخلاقی سے بچنے اور اعلیٰ انسانی اقدار اختیار کرنے کے لئے تیار کریں۔

فرانس کے معاملہ میں شاید حکومت توہین مذہب کا ارتکاب کرنے والے ملکوں کو’سزا‘ دینے کے لئے قانون سازی مناسب نہ سمجھے۔ کیوں کہ ملک کے شیریں بیان وزیر خارجہ دنیا میں پاکستانی سفارت کاری کے جھنڈے گاڑنے کے جیسے بھی دعوے کریں، عمران خان اینڈ کمپنی کو یقیناً تمام تر کم فہمی اور ناتجربہ کاری کے باوجود یہ علم ہوگا کہ پاکستان، امریکہ نہیں ہے کہ اس کی اسمبلی کسی ملک کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے اس پر ’پابندیاں‘ لگانے کا قانون منظور کرلے۔ سیاسی پوائینٹ اسکورنگ اور تحریک لبیک کو نیا جھانسہ دینے کے لئے قومی اسمبلی میں کوئی بالواسطہ قرار داد ضرور پیش کی جاسکتی ہے جس میں فرانسیسی اقدام کی مذمت کی جائے اور حکومت کی اسلام دوستی کا ایک نیا سرٹیفکیٹ خود ہی جاری کرلیا جائے۔ ملک میں عقیدہ و مذہب کی بنیاد پر جو جذباتی کیفیت پیدا کی گئی ہے، اس میں اپوزیشن کی کسی بھی پارٹی کو ایسی کسی قرار داد کی مخالفت کرکے ’غیر ضروری‘ تنازعہ کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یادش بخیر گزشتہ دنوں سینیٹ نے عربی کی لازمی تدریس کے لئے جو قانون منظور کیا تھا، اس کی تجویز مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ہی کی طرف سے سامنے آئی تھی۔

بھیانک اور حقیقی مسائل سے ستائے ہوئے عوام کو مصروف رکھنے کے لئے اس قسم کے نعرے، قرار دادیں یا قانون سازی کوئی نیا ہتھکنڈا نہیں ہے۔ حکومتیں اور سیاست دان جب عوام کو درپیش مشکلات کا حل تلاش کرنے کی منصوبہ بندی نہ کر سکیں تو ایسے ہی طریقوں سے سیاسی قد اونچا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی ہی حکومتوں کے وزیر داخلہ یہ دعویٰ کرنے کا حوصلہ کرتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کے احتجاج پر آنسو گیس پھینکنے کا مقصد احتجاج کرنے والوں کو سزا دینا نہیں تھا بلکہ پولیس کے اسٹور میں پڑے آنسو گیس کے شیلز کی پڑتال تھا۔ ہوسکتا ہے چند ہفتوں یا مہینوں بعد شیخ رشید یہ دعویٰ کرتے ہوئے پائے جائیں کہ سرکاری ملازمین کسی بات پر حکومت سے ناراض نہیں تھے بلکہ انہیں آنسو گیس کے شیلز کی پڑتال کے لئے سڑکوں پر نکلنے کی ’ہدایت‘ کی گئی تھی۔

ملک میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی تیاری ہو رہی ہے اور اپوزیشن اتحاد مختلف طریقوں سے عسکری اسٹبلشمنٹ کو سیاست سے علیحدہ رہنے پر آمادہ کررہا ہے۔ شیخ رشید ان عناصر کی زبانیں گدی سے کھینچ لینا چاہتے ہیں جو فوج کے خلاف دراز ہوں۔ قرون وسطیٰ کی سزا مروج کرنے کا خواہش مند شخص، عمران خان کی جدید مدینہ ریاست کا وزیر داخلہ ہے۔ اس سے ریاست کی شدت پسندی اور غیر انسانی رویہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے یا یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ سیاسی اقتدار کے لئے اس ملک کے سیاست دان خوشامد اور چاپلوسی کی کس کمتر سطح تک اتر سکتے ہیں۔

اس دوران ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخاب کی بدولت بھی ملک میں نئی رونق لگی ہوئی۔ مریم نواز نے آج ایک جلسہ میں ’سیلیکٹرز‘ کو غلطیاں دہرانے سے گریز کا مشور دیا ہے۔ جبکہ لندن سے مشہور زمانہ براڈ شیٹ کے کاوے موسوی نے ایک نئے انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے پاکستانی ریاست سے واجبات کی وصولی کے لئے ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز کے ذریعے وزیر اعظم پاکستان کے مشیر شہزاد اکبر سے ملاقات کی تھی اور اس کام کے لئے انہیں خطیر ’کمیشن‘ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ڈیوڈ روز نے ملاقات کروانے کا اعتراف کیا ہے لیکن کمیشن والی بات کو جھٹلایا ہے۔ یہ وہی ڈیوڈ روز ہیں جنہوں نے شہباز شریف پر بطور وزیر اعلیٰ برطانوی امداد خرد برد کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اب لندن کی ایک عدالت میں ان کا اخبارہتک عزت کے مقدمہ کا سامنا کررہا ہے۔

تاہم سب سے چونکا دینے والا انکشاف عمران خان کے سابق دوست اور تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے ایک دوست ان کے پاس یہ پیغام لے کر آئے تھے کہ اگر وہ فارن فنڈنگ کیس سے علیحدہ ہوجائیں تو انہیں سینیٹ کا چئیرمین بنوایا جاسکتا ہے۔ سوچنا چاہئے کہ ہر معاملہ کی تہ تک پہنچنے کے خواہش مند عمران خان کیا اس بیان پر بھی کوئی تحقیقاتی کمیشن قائم کریں گے؟ وزیر اعظم نے نہ جانے کس مجبوری یا گمان میں یہ پیغام بھیجا ہوگا کیوں کہ پی ڈی ایم تو یوسف رضا گیلانی کو نیا چئیر مین سینیٹ بنوانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔

اسلام آباد سے حفیظ شیخ کے مقابلے میں مخدوم یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کا ٹکٹ دے کر سیاست کی بازی میں عمران خان کو شہ مات دینے کے لئے چال چلی گئی ہے۔ عدالت عظمی کے کورٹ نمبر 1 میں ریفرنس کی سماعت کرنے والے بنچ نے عمران خان کا ہاتھ نہ تھاما تو ’تعلق داری‘ کی بنیاد پر سیاست کرنے والے یوسف رضا گیلانی کو ہرانا آسان نہیں ہوگا۔ اپوزیشن اس جیت کو عمران خان کے خلاف ’عدم اعتماد‘ کہے گی اور ہار کو سازش کا نام دیا جائے گا۔ اور اس ’سازش ‘کے ڈانڈے سپریم کورٹ کی کارروائی تک دیکھے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments