مولانا لدھیانوی، جھنگ اور وصی بابا


\"salmanسلمان پیرزادہ

معروف ہے کہ وصی بابا ایک باخبر کالم نگار ہیں مگر ’ہم سب ‘ پر ’جنگ اور جھنگ میں سب جائز ہے‘ پڑھ کراندازا ہوا کہ وہ انتہائی بے خبرے کالم نگار ہیں۔ مولانا لدھیانوی ، ان کی جماعت، جھنگ کی سیاست اور دیگر حوالوں سے وصی بابا نے جو کچھ لکھا قریب قریب وہ سب جھوٹ کا پلندا ہے۔ میں وصی بابا کو تو جھوٹا نہیں کہتا البتہ اس کالم نے یہ ضرور بتا دیا ہے کہ وہ بے خبرے ضرور ہیں اور بلاتحقیق باتیں لکھنے کے عادی ہیں۔ اکتوبر 2003ء میں مولانا محمد اعظم طارق کے قتل کے بعد مولانا محمد احمد لدھیانوی کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ بنے تھے۔ اس سے پہلے وہ پنجاب کے صدر اور پھر ملت اسلامیہ پاکستان کے مرکزی معاون کنونیئر بھی رہ چکے تھے۔ زمانہ طالبعلمی میں انہیں جمعیت طلبہ اسلام میں بھی بھرپور سیاسی جدوجہد کرنے کا موقع مل چکا تھا۔ وہ مفتی محمود کے شاگرد ہونے کی وجہ سے تحریک نظام مصطفی اور قومی اتحاد میں بھی پیش پیش رہے۔ 1990ءمیں کالعدم سپاہ صحابہ میں شامل تو ہوئے مگر ان کی پہچان ہمیشہ ایک معتدل اور صلح جو رہنما کے طور پر ہوتی رہی یہی وجہ ہے کہ وہ بہت کم گرفتار ہوئے اور جب بھی ہوئے ریاست کی کسی مجبوری کے تحت ہوئے۔ کبھی شرانگیزی ، نفرت پھیلانے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ جس ’ گروہ‘ کے وہ سربراہ بنے ہیں اسے ہمیشہ ’دہشت گرد گروہ‘کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ نہیں ہے۔ یہ بات مگر درست ہے کہ اس تنظیم کی قیادت اور کارکنان میں شدت پسندی پائی جاتی تھی مگر اس شدت پسندی کو ختم کرنے اور شدت پسند کارکنوں کو معتدل بنا کر جمہوری راستے پر ڈالنے میں سب سے بڑا کردار مولانا لدھیانوی کا ہے ۔ پاکستان میں فرقہ واریت کے خاتمہ اور اسلام کی مقدس ترین شخصیات کی توہین وتکفیر کو روکنے کے لیے مولانا لدھیانوی نے ہمیشہ آئینی وقانونی جدوجہد کی ہے۔ ملی یکجہتی کونسل سے لیکر متحدہ علماء بورڈ پنجاب تک وہ ہمیشہ فرقہ واریت کے خاتمہ کے لیے بننے والی حکومتی وغیر حکومتی کمیٹیوں کے فعال ممبر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے تنظیمی کارکنان کے ذہنوں میں رچی بسی فرقہ واریت اور شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں جس کی پاداش میں انہیں اپنی تنظیم کے بعض حلقوں میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ لشکر جھنگوی کے ساتھ مولانا لدھیانوی اور ان کی جماعت کا یہی اختلاف تھا جو بالآخر قتل و غارت گری پر منتج ہوا ۔ مولانا لدھیانوی کے بہت قریبی ساتھی مولانا شمس الرحمن اس اختلاف کے نتیجہ میں قتل ہوئے جبکہ خود مولانا لدھیانوی اور ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں پر متعدد قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔ لشکر جھنگوی کے لیے جماعتی فنڈز کی کوئی حیثیت نہیں تھی کیونکہ وہ یہ سب تو ایک بینک لوٹ کر بھی کما سکتے تھے، اصل بات مگر یہ تھی کہ مولانا لدھیانوی کی کوششوں سے جماعت کا مکمل سٹرکچر تبدیل ہوتا جارہا تھا اور شدت پسندی بالکل مٹتی چلی جارہی تھی۔ لشکر جھنگوی کو جماعت کے بعض لوگوں کی طرف سے جو شیلٹر ملتا تھا اور جماعت کے ہی بعض جذباتی کارکنان کی وجہ سے جو تحفظ اور سہولیات ملتی تھی، مولانا لدھیانوی کی کوششوں سے وہ ختم ہوتی جارہی تھیں کیونکہ مولانا لدھیانوی قتل وغارت کے سخت خلاف اور شدت پسندی سے شدید نفرت کرتے تھے۔ لشکر جھنگوی کے ملک اسحق کی سپریم کورٹ سے رہائی کے وقت مولانا لدھیانوی ملک اسحق کے والد اورریاستی اداروں کے اصرار پر درمیان میں آئے تھے کیونکہ ریاستی ادارے ملک اسحق کومولانا لدھیانوی کی ضمانت کے بغیر رہاکرنے پر آمادہ نہ تھے۔ مولانا لدھیانوی نے ملک اسحاق کے والد کے ہمراہ لاہور جیل میں ملک اسحق سے ملاقات کرکے آئندہ دہشت گردی میں ملوث نہ ہونے کا وعدہ لیاتھا جس کی ضمانت ملک اسحق کے والدنے دی تب مولانا لدھیانوی نے ریاستی اداروں کو یقین دہانی کروائی جس کے نتیجہ میں ملک اسحاق رہا ہوئے ۔ یہ اس ڈیل کی حقیقت ہے جسے وصی بابا لشکر اور پنجاب حکومت کے مابین ڈیل قرار دیتے ہیں۔ تاہم بعد ازاں ملک اسحاق نے اس وعدے کی کتنی پاسداری کی اور کیا کیا گل کھلائے وہ شاید اب کسی سے مخفی نہیں۔ لشکر جھنگوی اور ٹی ٹی پی کے لوگوں نے جی ایچ کیو پر حملہ کیا تو مولانا لدھیانوی نے اس حملہ کو ناکام بنانے اور پاک افواج کو تحفظ فراہم کرنے میں کیا کردار ادا کیا وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ۔

جھنگ جہاں 1970ءکے انتخابات میں فرقہ واریت کا بیج بویا گیاجس کے ذمہ دار سابق وفاقی وزیرتعلیم اور جعلی ڈگری ہولڈر شیخ وقاص اکرم کے والد شیخ محمد اکرم اور شیخ محمد اقبال تھے، یہ پہلا الیکشن تھا جو جھنگ میں شیعہ و سنی کی بنیاد پر لڑا گیا اوراس فرقہ وارانہ انتخاب کے نتائج تین دہائیوں تک اہل جھنگ کو بھگتنا پڑے ہیں، اس نفرت کو ختم کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنے میں جو کردار مولانا لدھیانوی نے ادا کیا ہے وہ بھی ایک مثالی اور تاریخی کردار ہے۔ یہ اس کردار کا ہی نتیجہ ہے کہ جھنگ کے شیعہ بھی آج اپنے شیعہ ودیگر جاگیرداروں کی بجائے مولانا لدھیانوی پر اعتماد کرتے ہیں اور انہیں اپنا محافظ قرار دیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں جھنگ کے ضلعی انتخاب کے لیے مخدوم فیصل صالح حیات کے بھائی مخدوم اسد حیات کے ہمراہ جس اتحاد اور مشترکہ سیاسی گٹھ جوڑ کی کوششیں سامنے آئی ہیں وہ سب مولانا لدھیانوی کی انسان دوستی اور منافرت کے خاتمہ کے واضح ثبوت ہیں۔

 2013کے الیکشن میں مولانا لدھیانوی نے شیخ محمد اکرم کے مقابل الیکشن لڑا، نتیجہ ان کے خلاف آیا، جھنگ کی سینکڑوں خواتین اور ہزاروں لوگوں کے احتجاج نے انہیں انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا مگر انہوں نے قانونی راستہ اختیار کیا جسے وصی بابا پچھلے دروازے سے اسمبلی میں بھیجنے کا حکومتی طریقہ قرار دیتے ہیں۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ شیخ محمد اکرم نے اپنے کاغذات نامزدگی میں بعض حقائق چھپائے اور بعض غلط درج کیے تھے اور الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ اسی بنیاد پر آیاتھا مگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس بنیاد پر نااہلی کو تسلیم کرنے سے ان کار کر دیا۔ مولانا لدھیانوی کی سیاسی ضرورت ہے یا نہیں، تاہم وہ جھنگ کی ایک سیاسی شخصیت ضرور ہیں اور پاکستان کے ہر حلقے میں پانچ سے آٹھ ہزارکا ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں جو کسی کو بھی ہرانے یا جتانے میں کام آسکتا ہے۔

وصی بابا نے ملاعمر کی طرف سے آنے والے کسی خط کا بھی ذکر کیا تاہم مولانا لدھیانوی اس سے مکمل طورپر لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھر کبھی کسی طالبان کمانڈر سے ملے ہیں نہ کوئی خط و کتابت کی ہے۔ وہ اس وقت بھی طالبان سے دور رہے جب پاکستانی علماء بھاگ بھاگ کر ’جہاد ‘میں شریک ہونے کے لیے افغانستان جاتے تھے۔ مولانا لدھیانوی ان چند ایک علما میں میں سے ہیں جو کشمیر جہاد پر بھی تحفظات رکھتے ہیں اور پاک بھارت تعلقات کو خواہ مخواہ خراب رکھنے کا اسے ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مولانا لدھیانوی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے خواہاں ہیں کیونکہ ہمیشہ کی دشمنی پر یقین نہیں رکھتے اور دونوں ممالک کا اندرونی تحفظ بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
14 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments