پاکستان، امریکہ تعلقات: بغداد کی وہ بغاوت جس نے پاکستانی فوج کے لیے امریکی امداد کی راہ ہموار کی


پاکستان فوج

42 سالہ میجر جنرل عبدالکریم قاسم سنہ 1958 میں عراق کی آرمی میں آزاد افسران کی خفیہ تنظیم کے سربراہ تھے جو قوم پرستی کا رجحان رکھنے والی خطے کی کمیونسٹ اورسویت حامی جماعتوں پر مشتمل تھی۔

وہ عراقی فوج کے ان دستوں کی قیادت کر رہے تھے جن کا رُخ ہمسایہ ملک اُردن کی طرف تھا۔ ان کی اس فوجی پیش قدمی کا مقصد اُردن کے شاہ حسین کے خلاف ملک میں ہونے والی ممکنہ بغاوت کو کچلنا تھا۔

عراق کے سربراہ مملکت نے اُردن کے شاہ کی مدد کے لیے عراق کی یہ فوج بھجوائی تھی لیکن اُردن جانے کے بجائے اس فوج کا رُخ 14 جولائی 1958 کو بغداد کی طرف ہی مُڑ گیا۔

28 جولائی 1958 کو ٹائم میگزین میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق جنرل قاسم کی افواج پیر کی علی الصبح پانچ بجے بغداد میں وارد ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیے

امریکہ کا پاکستان کو پہلا پیغام!

جمہوری اور فوجی ادوار اور امریکی امداد

یہ امریکی امداد نہیں ’واجب الادا رقم ہے‘: پاکستان

پہلے پاکستانی فوجی صدر کا امریکہ میں فقیدالمثال استقبال کیوں ہوا؟

ٹائم میگزین کے رپورٹر نے اس بغاوت کا آنکھوں دیکھا حال کچھ یوں بیان کیا۔ ’خاموشی سے اور ایک بھی گولی چلائے بغیر فوج نے شہر کے تمام اہم ٹھکانوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ ریلوے سٹیشن، مرکزی چوراہے، ڈاکخانے، ٹیلی گراف کے دفاتر اور ریڈیو سٹیشنز کو ایک ایک کر کے گھیر لیا گیا۔ جب فوجی دستوں نے 23 سالہ شاہ فیصل کے محل کی طرف بڑھنا شروع کیا تو شہریوں کے پرجوش ہجوم (اس تاریخی منظر کو دیکھنے کے لیے) امڈ آئے تھے۔‘

ٹائم میگزین کو دو ہفتوں کا وقت لگا جس میں انھوں نے بغداد میں بغاوت کی رپورٹ مرتب کی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ فوجی بغاوت کے بارے میں فوجی جنتا کے پھیلائے گئے پراپیگنڈے میں شکوک وشبہات اور ابہام پایا جاتا تھا۔

عراق کے شاہی خاندان کے قتل کے نتیجے میں تباہی، افراتفری اور انتشار پھیل چکا تھا۔ شاہی خاندان کے ارکان اور کلیدی اہلکاروں کے ساتھ پیش آنے والے ماجرے کے بارے میں دنیا کو اس وقت معلوم ہوا جب شاہی محل کا عملہ ہمسایہ ممالک پہنچا اور انھوں نے تمام احوال کھول کر بیان کر دیا۔

ٹائم میگزین کے مطابق ’جان بچا کر انقرہ بھاگ آنے والے سابق شاہی باورچی کے مطابق (عراقی وزیراعظم) نوری نے خود کو بچانے کے لیے بہروپ بھرا تھا، اس کے پیراہن کو نوچ لیا گیا، انھیں زندہ نیزے میں پرو دیا گیا اور عوام کے سامنے چلچلاتی دھوپ میں سڑک پر پھینک دیا گیا۔‘

باغی افسران نے عراقی وزیر اعظم نوری السعید کو اس وقت پکڑا اور قتل کر دیا جب وہ اپنے خاندان کی دو نامعلوم خواتین کے ہمراہ ایک خاتون کے بھیس میں فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

شاہی باورچی نے انقرہ میں مغربی سفارت کاروں کو اس دن کے حوالے سے یہ واقعات سنائے تھے۔

نوری السعید

سابق عراقی وزیر اعظم نوری السعید

14 جولائی 1958 کے واقعات بیان کرتے ہوئے ٹائم میگزین نے لکھا کہ ’عراق کے نوجوان شاہ اور اس کے 46 سالہ انکل ولی عہد شہزادہ عبداللہ معاہدہ بغداد کے رکن مسلم ممالک کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کے لیے استنبول روانہ ہونے کی تیاری میں مصروف تھے کہ جمع ہوتی بھیڑ دیکھ کر وہ محل سے باہر نکل آئے۔‘

’باغیوں کے مطابق محل کے محافظ نے ہجوم پر گولی چلائی جس سے 14 لوگ مارے گئے۔ باغی فوجیوں کی جوابی فائرنگ سے شاہ فیصل، ولی عہد شہزاد عبداللہ، ولی عہد کی والدہ، دو خادمائیں اور محل کے دو محافظ قتل ہو گئے۔‘

بغداد میں فوجی بغاوت کی پاکستان میں گونج

14 جولائی 1958 کے بغداد میں ہونے والے ان واقعات کے نتیجے میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔

اس خونی بغاوت کے دن اپنے اتحادی یعنی پاکستان کو ملٹری سیٹلائٹ ریاست کے درجے سے ہٹا دینے پر مُصِر واشنگٹن کو اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی سامنے آنے والی خفیہ دستاویزات کے مطابق امریکی حکام اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ سوویت کمیونزم کے خلاف پاکستان کی دفاعی مورچہ کے طور پر افادیت کے بارے میں بس یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس کا کردار ’مشکوک‘ ہے۔

لیکن 14 جولائی 1958 کے دن بغداد میں ہونے والے ڈرامائی واقعات نے صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ جیسے ہی سوویت حامی فوجی باغی رہنماؤں نے عراق کو خطے میں امریکہ کے حامی اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد ’سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن‘ (سینٹو) سے الگ کیا تو علاقائی دارالحکومتوں میں امریکہ کی حامی حکومتوں میں کھلبلی مچ گئی اور واشنگٹن میں خوف کے بادل منڈلانے لگے کہ پورے خطے میں سوویت اثرورسوخ کہیں مزید پھیل نہ جائے۔

امریکی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور کو قائل کر لیا کہ پاکستان کی کلیدی فوجی اتحادی کی حیثیت ختم نہ کی جائے اور اس کی اسلحہ، تربیت اور وسائل کی ضروریات فوری بنیادوں پر پوری کی جائیں۔

1990 کے وسط میں امریکی محکمہ خارجہ نے عوام اور محققین کی معلومات اور آگاہی کے لیے اپنی خفیہ دستاویزات جاری کیں جس کے بعد امریکی سفارتی تاریخ پر نظر رکھنے والے تاریخ دانوں نے 1950 اور 1960 کی دہائیوں کے ان واقعات کی ورق گردانی اور ان پر تحقیق کا آغاز کیا۔

ان میں سے ایک محقق رابرٹ جے میک موہن نے جو سفارتی تاریخ کے ماہر تصور ہوتے ہیں ’امریکہ، بھارت اور پاکستان: سرد جنگ کے مدار پر‘ کے عنوان سے شہرہ آفاق کتاب بھی تصنیف کی ہے جو سنہ 1994 میں شائع ہوئی۔

میک موہن نے بغداد میں ہونے والے واقعات کو قلم بند کیا ہے جو اس وقت کے پاکستان کے دارالحکومت کراچی سے ہزاروں میل دور تھا جبکہ پاکستانی سکیورٹی و سیاسی اسٹیبلشمنٹس کے اس وقت وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہاں ہونے والے واقعات نے پاکستان کی فوج کی قسمت بدل کر رکھ دی ہے اور بغداد میں ہونے والی بغاوت سے واشنگٹن کے لیے پیدا ہونے والے نئے علاقائی خطرات نے اسے امریکہ کی فوجی اور معاشی فیاضی کا مستحق بنا دیا ہے۔

ایوب خان

پاکستان کے فوجی حکمران ایوب خان کے دور میں امریکہ پاکستان پر خاص طور پر مہربان رہا

میک موہن نے کتاب کے ابتدائیہ میں شکایت درج کی ہے کہ امریکی انٹیلیجنس کے جنوبی ایشیا میں کردار سے متعلق اہم ترین امریکی سفارتی دستاویزات اب بھی اِفشا یا ظاہر نہیں کی گئی ہیں۔

وہ ان الفاظ میں شکایت کرتے ہیں کہ ’پاکستان، امریکہ تعلقات میں انٹیلیجنس آپریشنز کے اہم ترین کردار کے نکتہ نظر سے خاص طور پر یہ ایک افسوسناک خلا ہے۔‘ ورنہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ باقی ماندہ امریکی انتظامیہ نے قریب قریب یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ خطے میں سویت یونین کی توسیع پسندی کے خلاف دفاعی حصار کے طور پر پاکستان کی فوج کی استعداد بڑھانے کے منصوبوں کو ختم کر دیا جائے۔

امریکی قانون کے تقاضوں کے تحت امریکی حکومت کی خفیہ سرکاری دستاویزات 25 سال بعد خود بخود منظر عام پر آ جاتی ہیں۔ امریکی محکمہ انصاف کے بیان کے مطابق ’خفیہ معلومات کی رازداری کے خاتمے کی بنیاد متعین کردہ خاص مدت یا واقعہ کی تکمیل ہے جس کا تعین مجاز حکام کرتے ہیں یا خفیہ دستاویزات کے لیے (25 سال کے) حکم کی زیادہ سے زیادہ حد کی مقررہ مدت کی تکمیل ہے۔‘

یہ وہی قانون ہے جسے میک موہن نے جنوبی ایشیا میں امریکی تعلقات کی سفارتی تاریخ مرتب کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

دو بغاوتوں کی کہانی

14 جولائی کو آرمی افسران کے گروہ نے بغداد کا رُخ کیا اور ہاشمی بادشاہت کا تختہ کر دیا جو سنہ 1921 سے وہاں حکمران تھی۔ عرب سیاست کی سنگینی کے اظہار کا ایک لرزہ خیز واقعہ کچھ یوں ہے کہ شریف مکہ کے پوتے شاہ فیصل، ولی عہد شہزادہ عبداللہ اور وزیراعظم نوری السعید کو قتل کر کے ان کی نعشوں کو گلیوں میں بے رحمی سے گھسیٹا گیا۔

اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی افسران سویت یونین کے حامی اور کمیونسٹ نظریات رکھتے تھے۔ اس واقعے نے واشنگٹن اور خطے میں امریکہ کے حامی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ پاکستان کے سیاسی اور فوجی حکمران خاص طور پر اس بغاوت اور خاص طور پر عراق کے ’سینٹو‘ سے علیحدگی کے فیصلے سے مضطرب ہو گئے تھے۔

یاد رہے کہ ’سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن‘ (سینٹو) مغربی ممالک کی حمایت پر مشتمل سلامتی کا اتحاد تھا۔ ایران، ترکی اور پاکستان اس کے دیگر ارکان میں شامل تھے۔

عراق میں اس بغاوت کی قیادت جنرل عبدالکریم قاسم اور کرنل عبدالسلام عارف کر رہے تھے۔ جنرل قاسم کا بنیادی نظریہ عراقی قوم پرستی پر مبنی تھا جبکہ کرنل عارف عرب نظریے کی طرف غالب میلان رکھتے تھے جو التیار الناصری کے سوشلسٹ عرب قوم پرستی کے سیاسی نظریہ سے ماخوذ تھا۔

یہ نظریہ مصر کے دوسرے صدر جمال عبدالناصر کے خیالات سے کشید کیا گیا تھا۔ دونوں کے اپنے معاشرے اور وسیع عرب دنیا میں موجود سوشلسٹ طبقات سے قریبی رابطے استوار تھے۔ یہی وہ خاص وجہ تھی جس نے واشنگٹن کو فکرمند کیا تھا اور وہ بغداد میں بغاوت کو واضح طور پر سوویت انٹیلیجنس کی سازش یا جوڑ توڑ کے طورپر دیکھ رہے تھے۔

بغداد میں بغاوت پر آئزن ہاور حکومت کو خوف لاحق تھا کہ سوویت اثرات پوری عرب دنیا میں تیزی سے پھیل سکتے ہیں۔ امریکہ نے اس امر کو یقینی بنانے کی کوششیں شروع کردیں کہ باقی ماندہ امریکہ نواز ’سینٹو‘ ارکان بدستور اتحاد برقرار رکھیں۔

یکم اگست 1958 کو واشنگٹن میں منعقدہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں سیکریٹری آف سٹیٹ جان فوسٹر ڈولس نے آگاہ کیا کہ پاکستان، ایران اور ترکی کے وزرائے اعظم ’شدید مایوسی کا شکار ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ تینوں ممالک کو معاشی و فوجی مدد تیز کرنے کی یقین دہانی کروانے کی ضرورت ہے۔

تین ماہ بعد سات اکتوبر 1958 کو پاکستانی صدر اسکندر مرزا نے ایک اعلامیہ جاری کر کے آئین منسوخ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں برطرف، قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل، تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم اور مارشل لا نافذ کر کے جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔

پاکستان میں پارلیمانی و جمہوری نظام ختم کر دیا گیا۔ اس موقع پر امریکہ نے پاکستان میں ہونے والی بغاوت کے اس عمومی تاثر سے اتفاق کیا کہ پاکستان کے روایتی غیرمستحکم نظام کے مقابلے میں یہ اقدام صحیح ہے۔

اسکندر مرزا

اسکندر مرزا اپنی اہلیہ ناہید مرزا کے ساتھ

16 اکتوبر 1958 کو قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ایلن ڈولس نے تصدیق کرتے ہوئے نشاندہی کی تھی کہ اسکندر مرزا کا اقتدار پر قبضہ ’معقول حد تک پُرامن رہا ہے۔‘

پاکستان میں جمہوری حکومت کی موت پر امریکی حکومت نے کسی عدم اطمینان کا اظہار نہیں کیا، اس کے برعکس انھوں نے پاکستانی فوج کو ’ملک میں استحکام کی قوت‘ کے طور پر بیان کیا۔

پاکستان میں بغاوت کرنے والوں نے مغرب کی حمایت میں اپنی خارجہ پالیسی کو جس انداز میں بیان کیا، اس پر واشنگٹن میں حکام نے خاص طور پر اطمینان کا اظہار کیا۔ لیکن پاکستان میں ہونے والی یہ بغاوت وہ اصل وجہ نہیں تھی جس کی بنا پر واشنگٹن کراچی کی طرف کھنچا چلا آیا تھا۔

وہ پہلے ہی پاکستان کو فوجی اور معاشی لحاظ سے طاقتور بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے جس کی وجہ اسی سال جولائی میں بغداد میں ہونے والی بغاوت تھی کیونکہ ان کے نزدیک یہ ہی وہ واحد راستہ تھا جس پر چل کر خطے میں سویت اثر و رسوخ کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکتا تھا۔

امریکی فیصلہ سازوں کے نکتہ نظرکی تبدیلی

دونوں ممالک میں طے پانے والے باہمی دفاعی معاہدے کے موقع پر پاکستان کی فوجی معاونت کی ابتدائی امریکی پیشکش پاکستان کے نکتہ نظر سے حیران کن حد تک کم یا قلیل تھی۔ ابتدائی مایوسیوں کے بعد امریکہ نے آخر کار 45 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد پاکستان کو فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

ابتدائی پروگرام کی تکمیل کے بعد پاکستانی مسلح افواج کی دیکھ بھال کی لاگت بھی اس رقم میں پوری نہیں ہوتی تھی۔ عنان اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی دن بعد جنرل ایوب خان نے دورے پر آئے امریکی وزیر دفاع نیل میکلوری کو نئی ’شاپنگ لسٹ‘ تھما دی۔ یہ اس ساز وسامان کی فہرست تھی جو پاکستانی مسلح افواج کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ضروری سمجھا جا رہا تھا۔

میک موہن کے مطابق اس فہرست میں جدید لڑاکا طیارے بھی شامل تھے جنھیں امریکہ کے فراہم کردہ ایف 86 طیاروں سے تبدیل کیا جانا تھا جبکہ پاکستان کی فضائیہ کے لیے جدید ترین ’سائیڈ وائنڈر‘ میزائل مانگے گئے تھے۔

میک موہن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کی جدید ترین دفاعی ترجیحات کے ذریعے ایوب خان دراصل واشنگٹن کے ردعمل کو جانچنا اور ماپنا چاہتے تھے کہ ان کی مارشل لا حکومت کے لیے امریکی وعدے کتنے پائیدار ہیں۔‘

پاکستان کو امریکی محکمہ خارجہ کا مشورہ

میک موہن نے سنہ 1954 میں اس وقت کے وزیر خزانہ چوہدری محمد علی کا تعارف پاکستان کے قابل اور بااثر ترین بیورکریٹ کے طور پر کرایا ہے۔ چوہدری محمد علی نے اس زمانے میں پاکستان میں تعینات امریکی سفیر سے کہا تھا کہ امریکی فوجی امداد کا پیکج پاکستان کے لیے تذبذب اور معمہ بنا ہوا ہے۔

میک موہن نے اپنی کتاب میں اگست 1954 میں امریکی سفیر کی چوہدری محمد علی سے ہونے والی گفتگو کے واشنگٹن بھجوائے جانے والے تار کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق ’جب تک بھارت اور افغانستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کی فضا قائم ہے، پاکستان اپنی موجودہ فوج کی تعداد میں کمی نہیں کر سکتا۔ پاکستان بڑھتی تنخواہوں، تربیت اور دیکھ بھال کے اخراجات کی وجہ سے شدید مالی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔‘

ایوب خان

ایوب خان نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد امریکہ سے نئے فوجی ساز و سامان کا مطالبہ کیا

’چوہدری محمد علی کے الفاظ میں امریکی امداد جزوی طور پر پاکستان کی مشکل حل کرے گی۔ امریکی امداد کے لیے دی جانے والی گائیڈلائنز کے مطابق یہ امداد فوجی سازوسامان اور تربیت تک ہی محدود ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر چہ سازوسامان اور تربیت کی بلاشبہ ضرورت ہے لیکن فوجی امداد کے واشنگٹن کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں لامحالہ یہ گنجائش پیدا کرنا ہوگی کہ فوج کے وسیع اہداف کے حصول کے لیے پاکستانی حکومت کو ان کی تنخواہوں، دیکھ بھال، ذمہ داریوں اور دیگر اخراجات میں بتدریج اضافہ کرنا ہوگا تاکہ خاصی بڑی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کو چلایا جا سکے۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’اگر فوج کے لیے درکار براہ راست یا بالواسطہ اضافی فنڈز کی ضرورت ہوئی تو بدقسمتی سے انھیں بجٹ سے ہی نچوڑنا ہو گا جو پہلے ہی ضرورت سے زائد ٹیکسوں سے لدا ہوا ہے اور اس کا بوجھ کلیدی ترقیاتی ترجیحات پر پڑے گا۔‘

انھوں نے پاکستان کے ساتھ خصوصی برتاؤ کرنے کا تقاضا کرتے ہوئے ’تاسف سے کہاکہ بصورت دیگر جتنی زیادہ امریکی امداد کی رقم ہوگی اتنی ہی زیادہ پاکستان کی لاگت ہو گی۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے اخذ کردہ نتیجے کے طور پر امریکی سفیر کے ساتھ چوہدری محمد علی نے تین نکات اٹھائے تھے کہ بڑی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چلانے اور سنبھالنے کے اخراجات پاکستان کے لیے مالی اور معاشی طور پر تباہ کن ثابت ہوں گے۔

بغداد میں بغاوت نے واشنگٹن کے اندازے تبدیل کر دیے

جولائی میں بغداد میں ہونے والی بغاوت سے فوری پہلے امریکی سفارت خانے کی طرف سے واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کو بھجوائے جانے والے مراسلوں میں زور دیا جا رہا تھا کہ معاشی لحاظ سے مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کو فوری طور پر اپنے دفاعی بجٹ میں کمی کی ضرورت ہے۔

حتیٰ کہ پھیلی ہوئی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے پاکستان کے لیے منفی معاشی مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ سنہ 1958 کے ابتدا میں امریکی محکمہ خارجہ نے آئزن ہاور کی حکومت کو تجویز دی تھی کہ پاکستان کے لیے فوجی امداد میں کمی کی جائے کیونکہ ’پاکستان آرمی کی قدر و قیمت اور کردار مشکوک ہے۔‘

یہ بات میک موہن نے امریکی محکمہ خارجہ کی منظرعام پر آنے والی خفیہ دستاویزات کے حوالے سے تحریر کی ہے۔ حتیٰ کہ محکمہ دفاع جو پاکستان کو فوجی امداد جاری رکھنے کی حمایت کر رہا تھا نے بھی پاکستان کی فوجی صلاحیت کے بارے میں کچھ زیادہ اچھی رائے نہیں دی۔

’پینٹاگون اور سی آئی اے حکام کے ذہنوں میں امریکی محکمہ خارجہ کے اپنے ہم منصبوں کی طرح برسوں قبل یہ مایوسی راسخ ہو چکی تھی کہ مشرق وسطیٰ کے دفاع کے ضمن میں پاکستان کوئی خاص کارگزاری دکھانے کے قابل نہیں جو اس اتحاد کو قائم کرنے کا بنیادی استدلال یا محرک تھا۔‘

انھوں نے یہ اندازہ لگایا کہ اب پاکستان سے رابطوں کی اہمیت اس کے محض ’الیکٹرانک لسننگ‘ یعنی انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے کی ایک چوکی ہونے تک رہ گئی ہے جسے امریکہ سویت میزائل صلاحیت اور ہوائی اڈوں سے متعلق انٹیلیجینس معلومات جمع کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ معلومات اگر امریکہ کو مل جائیں تو پاکستان کو سوویت علاقوں پر ’یو۔2‘ جاسوس طیاروں کی پروازوں کے اڈے کے طور پر بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔

بغداد میں بغاوت ہونے سے پہلے تک کے معاملات اس نہج پر تھے۔ پھر یکایک چند دنوں میں ہی پاکستان کے لیے واشنگٹن میں منظر تبدیل ہوتا چلا گیا۔

میک موہن کی کتاب کے مطابق ’یکم اگست 1958 میں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں سیکریٹری آف سٹیٹ ڈولس نے رپورٹ کیا کہ پاکستان، ترکی اور ایران کے وزرائے اعظم ’بڑی مایوسی کا شکار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان تینوں کو فوجی اور معاشی امداد میں اضافہ کر کے امریکی حمایت کا یقین دلانے کی ضرورت ہے۔ جوائنٹ چیف آف سٹاف نے اس سے اتفاق کیا۔‘

کتاب میں جوائنٹ چیفس کا یہ بیان درج ہے کہ ’مشرق وسطی میں ہونے والے حالیہ واقعات کی روشنی میں پاکستان کی سٹرٹیجک اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔‘

آئزن ہاور اور بائیڈن کی پاکستان کے متعلق پالیسی یکساں؟

فروری 2008 میں امریکی ارکان سینیٹ کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس وفد میں جان کیری بھی شامل تھے جنھوں نے بعدازاں صدر اوباما کے ساتھ بطور وزیر خارجہ کام کیا اور جو بائیڈن کے شریک کار رہے جو اس وقت امریکہ کے صدر ہیں۔

اس دورے کا مقصد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں کلیدی اتحادی کی فوجی، مالی اور معاشی ضروریات کا اندازہ لگانا تھا۔ ارکان سینیٹ نے ہمسایہ ممالک افغانستان اور انڈیا کے دورے سے قبل اسلام آباد میں کلیدی سیاسی اور عسکری عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔

جس وقت امریکی ارکان سینیٹ کا وفد اسلام آباد کا دورہ کر رہا تھا اُسی ماہ پاکستان میں پارلیمانی انتخابات بھی منعقد ہو رہے تھے۔ ملک نو سال کے فوجی دور کے بعد مکمل پارلیمانی جمہوری نظام میں تبدیل ہونے جا رہا تھا۔ ہر لحاظ سے واشنگٹن کا جنوبی ایشیائی اتحادی انتہائی عدم استحکام کا شکار تھا۔

پاکستان میں دہشت گردی کا دور دورہ تھا کیونکہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز نیم دروں نیم بروں قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی تھیں اور عسکریت پسندوں کے جوابی ردعمل کے نتیجے میں شہری علاقوں پر دہشت گرد حملے ہو رہے تھے۔

دہشت گردی کے حملوں کا مرکزی نشانہ راولپنڈی بنا ہوا تھا جہاں فوجی ہیڈکوارٹر قائم ہے۔ اس چھاؤنی والے شہر میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور پاکستان آرمی کے حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کو دو الگ الگ خودکش حملوں میں قتل کیا گیا تھا۔

آئزن ہاور

امریکی صدر آئزن ہاور کراچی میں صدر ایوب کے ساتھ

عسکریت کی بڑھتی ہوئی خطرناک لہر پر قابو پانے اور اس سے منسلکہ معاشی تباہی کے خطرات سے بچاؤ کے لیے پاکستان کو فوجی اور مالی امداد کی اشد ضرورت تھی۔ اس صورتحال میں امریکی ذرائع ابلاغ اور ماہرین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ جو بائیڈن سمیت امریکی ارکان سینیٹ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’امریکہ کی جانب سے پاکستان کو بڑے پیمانے پر امداد دینے کا اعلان کرنا ہو گا۔‘

امریکی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ امریکی ارکان سینیٹ کا اسلام آباد کا دورہ ’کیری لوگر برمن‘ کے نام سے جانی جانے والی قانون سازی کی وجہ بنا ہے جس میں پاکستان کو امداد کے طورپر سالانہ 1.5 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا۔

امریکی سینیٹ میں پاکستان کے لیے امدادی بل پیش ہونے سے بہت پہلے ہی فروری 2008 کے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی ) پاکستان میں برسراقتدار آ چکی تھی۔ ایک سال کے اندر جو بائیڈن امریکہ کے نائب صدر منتخب ہوگئے اور صدر اوباما کے رفیق کار بن گئے جس کے بعد ’کیری، بائیڈن‘ بل تبدیل ہو کر ’کیری، لوگر‘ بل بن گیا لیکن نائب صدر جو بائیڈن امریکی سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش ہونے کے بعد بھی اس بل کے پس پردہ اصل قوت محرکہ بنے رہے۔

یہ اصل بل سینیٹر کے طور پر صدر بائیڈن کی سوچ کا حاصل تھا جس میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ پاکستان کو امداد دینے سے پہلے امریکی وزیر خارجہ کو پاکستان میں سویلین بالادستی کے بارے میں سرٹیفکیٹ دینا ہو گا۔

اس بل کا بنیادی مقصد واشنگٹن میں بیٹھے فیصلہ سازوں میں بڑھتا ہوا یہ احساس تھا کہ پاکستان کو فوجی معاونت کے بجائے سماجی اور معاشی ترقی کی ضرورت ہے۔ میک موہن کی کتاب بتاتی ہے کہ آئزن ہاور حکومت کی سوچ بھی یہی تھی: جنوبی ایشیا کے اپنے اتحادی سے کہا گیا تھا کہ فوج کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنے معاشرے کی معاشی و سماجی ترقی کو محور بنائے۔

سوال یہ ہے کہ کوئی اور علاقائی پیش رفت کیا بائیڈن حکومت کا ذہن تبدیل کر سکتی ہے؟ یا پھر پاکستان اپنا طرز عمل تبدیل کرتے ہوئے اپنے ماضی کے اتحادی کی فراخ دلانہ مالی مدد کے ساتھ اپنے معاشرے کی سماجی ومعاشی ترقی پر توجہ مرکوز کرے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp