ایچ آئی وی: محبت کی وہ داستان جسے ایڈز جیسا مہلک مرض بھی شکست نہ دے سکا


شادی

’ہم ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ میں ہندو ہوں اور وہ مسلمان ہے۔ ہماری شادی نہیں ہو سکتی تھی، لہذا ہم اپنے گھروں سے بھاگ گئے اور شادی کر لی۔ پھر پولیس نے ہمیں گرفتار کر لیا اور میری اہلیہ کا میڈیکل چیک اپ کروایا گیا۔ چیک اپ کے بعد مجھے پتا چلا کہ وہ ایچ آئی وی یعنی ایڈز سے متاثرہ ہیں۔ لیکن میں اس سے پیار کرتا تھا، اس لیے میں نے شادی کی تھی، میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘

یہ کہنا ہے گجرات میں بناسکانٹھا کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے مانوجی ٹھاکر (فرضی نام) کا۔ انھوں نے اپنی محبت کی خاطر دنیا کی ایک نہیں سُنی اور اپنی ایچ آئی وی سے متاثرہ بیوی کو اپنے ساتھ رکھا۔

مانوجی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ بچپن سے ہی وہ ایک معمار (مستری) کا کام کرتے ہیں اور ان کے پاس زیادہ دولت بھی نہیں ہے۔

محبت کہاں سے شروع ہوئی؟

گاؤں میں مستری کا کام کرنے کے علاوہ مانوجی اپنے بھائیوں کی کھیتی باڑی میں مدد بھی کرتے ہیں۔ گھروں کی تعمیر کے کام کے سلسلے میں انھیں اترپردیش کے ایک مسلمان فیملی کے لیے مکان بنانے کا موقع ملا۔

بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے مانوجی نے بتایا ’گاؤں کا زمیندار ان لوگوں کو اپنے کھیتوں پر مزدور بنا کر رکھے ہوئے تھا اور وہ (زمیندار) اسی مسلمان فیملی کے لیے مکان بنوا رہا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’دونوں لڑکیوں سے محبت کرتا تھا اور کسی کو دھوکہ نہیں دے سکتا تھا‘

’کوئی نہیں جانتا پسند کی شادی کرنے والے پنکی اور راشد کہاں گئے‘

گھسی پٹی محبت: ’ناکام شادی کا مطلب ناکام زندگی نہیں‘

مانوجی نے بتایا کہ ’اس مکان کی تعمیر کے دوران مسلمان فیملی کی 16 سالہ بیٹی رخسانہ (فرضی نام) ہمارے کھانے پینے اور چائے ناشتے کا بندوبست کرتی تھی۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگوں کو ہندی نہیں آتی تھی جبکہ رخسانہ گجراتی نہیں جانتی تھیں۔ میں ہندی جانتا تھا اسی وجہ سے رخسانہ کے خاندان میں گھل مل گیا۔‘

مانوجی کے مطابق ’رخسانہ کے گھر والوں کو بازار سے کچھ بھی خریدنا ہوتا تو وہ رخسانہ کو میرے ساتھ رادھنپور بھیجا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ ہماری شناسائی بڑھتی گئی۔ ہم رادھنپور کے تھیٹر میں فلمیں دیکھنے لگے۔ ہوٹلز میں ناشتے کے لیے بھی جانے لگے۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے اور ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ کب پیار ہو گیا۔‘

مخالفت

دلھن

رخسانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ میں محبت میں گرفتار ہوں۔ عید پر جب میں 17 سال کی ہوئی تو مانوجی میرے لیے نئے کپڑے، چوڑیاں، جوتے اس طرح لائے کہ کسی کو پتہ نہ چلا۔‘

’میں نے کپڑے، چوڑیاں اور جوتے پہن لیے۔ مانوجی نے اپنے موبائل فون سے میری تصاویر لیں۔ ہم بہت خوش تھے۔ اس دن میں نے غلطی سے پرانے کپڑے بیگ میں ڈال لیے اور نئے کپڑے پہن کر گھر آ گئی۔ میرے والد نے بہت سارے سوالات پوچھے اور مجھے بہت مارا پیٹا بھی۔ میں نے بتا دیا تھا کہ مانو جی نے یہ کپڑے دیے ہیں۔ اس دن کے بعد میری زندگی جہنم بن گئی۔‘

رخسانہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد انھیں گھر میں مار پیٹ کا سامنا رہنے لگا۔ اگر مانوجی ساتھ والے کھیت میں بھی دیکھے جاتے تو رخسانہ کو گھر میں مار پڑتی تھی۔

رخسانہ نے بتایا ’ایک رات جب سب گھر میں سو رہے تھے مانوجی مجھ سے ملنے آئے۔ انھوں نے میرے چہرے اور ہاتھوں پر چوٹ کے نشان دیکھے۔ انھیں بہت دکھ پہنچا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟ میں نے ہاں کہہ دیا۔‘

مانوجی نے بتایا ’مجھے لگا کہ میری وجہ سے انھیں اتنی تکلیف اٹھانا پڑی ہے۔ لہذا مجھے اسے بچانا چاہیے۔ میں نے رخسانہ سے شادی کے بارے میں اپنے کنبہ کے افراد سے بات کی۔ وہ سب اس کے خلاف تھے، ان کا کہنا تھا کہ ایک ہندو لڑکے کی ایک مسلمان لڑکی سے شادی کیونکر ہو سکتی ہے؟‘

’تاہم میرے بھائی نے پیسے سے میری مدد کی۔ ہم نے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ایک وکیل سے بات کی۔ جب رخسانہ 18 سال اور ایک ماہ کی ہو گئیں، تو وہ اپنی پیدائش کی سند لے کر میرے پاس آئیں۔ اکتوبر 2019 میں ہم گاؤں سے بھاگے اور عدالت میں جا کر شادی کر لی۔‘

شادی کے بعد مشکلات

لڑکی

مانوجی نے بتایا کہ ’اس کے بعد اصل پریشانی شروع ہو گئی۔ رخسانہ کے والد اور رشتہ داروں نے ہمیں ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ رخسانہ کا کنبہ ہمارے بہن بھائیوں کے ساتھ لڑائی کرتا تھا۔ گاؤں میں ایک بڑا ہنگامہ کھڑا ہو گيا تھا۔ میں نے اپنا فون بند کر لیا۔ ہم مختلف علاقوں میں چھپتے پھرتے تھے۔ ہم نے سوچا تھا کہ جب معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا تو ہم گاؤں جائیں گے، لیکن معاملہ بڑھتا ہی گيا۔ ہم نے اس دوران دیوالی اور عید بھی منائی۔‘

’ایک دن جب میں نے اپنے بھائی کو فون کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ رخسانہ کے والد نے ایک نابالغ لڑکی کا اسقاط حمل کرنے کے الزام میں میرے خلاف مقدمہ درج کروا دیا ہے۔ میرے خلاف پوسکو قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔‘

ان دنوں کی جدوجہد کو یاد کرتے ہوئے مانوجی نے بتایا ’پولیس میرے گھر والوں کو دھمکا رہی تھی کہ مجھے بلایا جائے۔ ہم گھر نہیں جا سکتے تھے اور ہمارے پاس پیسے بھی ختم ہو گئے تھے۔ میں کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ کیونکہ مکان کی تعمیر کا کام دستیاب نہیں تھا۔ کئی دنوں تک تو ہم نے صرف روٹی اور پیاز کھا کر ہی گزارا۔‘

رخسانہ نے بتایا کہ ’بسنت کا میلہ آنے ہی والا تھا۔ مانوجی گھر کی ضروریات کا سامان لانے کے لیے رقم دیتے تھے۔ میں نے اس میں سے کچھ پیسے بچائے تھے۔ میں اس سے پتنگ اور ڈور خریدا لائی۔ ہم نے اس دن جلیبی کھائی۔ بہت دن بعد ہم کچھ خوش تھے۔ ہمارے پیسہ ختم ہو رہے تھے اور گھر والوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔‘

لیکن مانوجی کے لیے ابھی اصل مشکلات کا سامنا کرنا باقی تھا۔

رخسانہ نے کہا کہ ’اس کے بعد لاک ڈاؤن ہو گیا۔ سب کچھ بند ہو گیا۔ ہمارے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ لیکن محبت ہی ہمارے لیے سب کچھ تھی۔ ہم گاؤں گاؤں گھومتے رہے۔ ہم کوئی بھی کام کر کے کچھ پیسہ کما رہے تھے۔ دوسری طرف مانوجی کے اہل خانہ پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔‘

رخسانہ نے بتایا کہ ’مجھ سے مانوجی کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ وہ کورونا کے دوران کام کی تلاش میں جاتے تھے تاکہ ہم دونوں کچھ کھا سکیں۔ آخر کار میں نے پولیس کو رپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ منوجی اس کے حق میں نہیں تھے لیکن میں تھانے گئی۔ میں بالغ تھی۔ لہذا ہماری شادی درست تھی اور مانوجی کا کنبہ مجھے اپنانے کو تیار تھا۔‘

ایچ آئی وی انفیکشن کا پتہ چلا

ٹیسٹ

رخسانہ نے بتایا کہ ’جیسے ہی میں پولیس سٹیشن پہنچی، منوجی نے بھی پولیس سٹیشن میں سرینڈر کر دیا۔ یہاں سے ہی ہمارے لیے پریشانی شروع ہو گئی۔ مجھے خواتین کی پناہ گاہ میں رکھا گیا تھا۔ پولیس نے میرا میڈیکل ٹیسٹ کرایا اور پھر پتا چلا کہ میں ایچ آئی وی سے متاثرہ ہوں۔ میں بُری طرح سے ٹوٹ گئی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں مانوجی بھی ایچ آئی وی سے متاثر تو نہیں ہیں۔ ان کا بھی ٹیسٹ کرایا گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ وہ ایچ آئی وی سے متاثر نہیں ہیں۔ پھر مجھے سکون آيا۔‘

مانوجی نے بتایا کہ ’میں نے پولیس کو بتایا کہ میرے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ میں نے ایک بالغ لڑکی کی رضامندی سے شادی کی ہے لیکن کوئی مجھ پر اعتماد نہیں کر رہا تھا۔ کیس عدالت چلا گیا۔ دو ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد مجھے گجرات ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی۔ لیکن میرا سارا دھیان میڈیکل ٹیسٹ پر تھا۔‘

ایچ آئی وی سے متاثرہ فرد سے شادی پر آمادہ

گجرات ہائی کورٹ میں مانوجی کا مقدمہ لڑنے والے وکیل اپوروا کپاڈیا نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک عجیب و غریب معاملہ تھا۔ مانوجی ایچ آئی وی سے منفی تھے، لیکن طبی افسروں کو خدشہ تھا کہ وہ چھ ماہ کے اندر اس بیماری کی زد میں آ سکتے ہیں۔

اپوروا کپاڈیا نے کہا ’چھ ماہ بعد منوجی کا دوسرا ایچ آئی وی ٹیسٹ احمد آباد سول ہسپتال میں ہوا اور اس کا نتیجہ بھی منفی تھا۔ اس دوران مانوجی کو رخسانہ سے شیلٹر میں ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔ رخسانہ کے والد نے عدالت میں جھوٹے ثبوت دیتے ہوئے اسے نابالغ ثابت کرنے کی کوشش کی۔‘

’عدالت کی جانب سے مانوجی سے بھی پوچھا گیا تھا۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ رخسانہ کو ایچ آئی وی ہے۔ مستقبل میں یہ آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ اپنی شادی کے فیصلے پر کیا غور کرنا چاہیں گے؟ مانوجی نے عدالت کو بتایا کہ وہ شادی برقرار رکھنا چاہیں گے۔‘

ایک ساتھ جینا، ایک ساتھ مرنا

رخسانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب ہماری شادی ہوئی تو میں نہیں جانتی تھی کہ میں ایچ آئی وی سے متاثرہ ہوں۔ لیکن میڈیکل ٹیسٹ کے بعد میں نے مانوجی سے شادی توڑنے کو کہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھیں انفیکشن کا خطرہ تھا لیکن وہ میری بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ وہ مجھ سے ہی شادی قائم رکھیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ شادی کو بھلا دیں۔ میں نے پہلی بار ایسا کہا تو وہ بہت مایوس ہوئے۔ دوسری بار جب وہ ملنے آئے تو دیوداس لگ رہے تھے۔ تیسری بار وہ کافی مایوس نظر آئے۔‘

’مانوجی کو میری وجہ سے بہت ساری مشکلات پیش آئیں۔ کوئی اور ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ وہ میرے مذہب کو اپنانے پر بھی راضی ہو گئے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر وہ مجھ سے شادی قائم نہیں رکھ سکے تو وہ کسی اور کے ساتھ بھی نہیں کریں گے۔ اسی بات نے میرا دل چھو لیا۔ جب میں نے شادی کے لیے ہاں کہا تو ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ میں نے عدالت میں بھی شادی کے لیے ہاں کہا تھا۔ اب میں ہندو مذہب کو اپنا کر منوجی کے ساتھ رہوں گی۔‘

’میں نے عدالت میں یہ بھی کہا تھا کہ ہم بچوں کو جنم نہیں دیں گے اور ضرورت پڑنے پر گود لے لیں گے۔ لیکن ہم ساتھ رہیں گے اور ساتھ ہی مریں گے۔‘

محبت سب سے اوپر ہے

جانچ

مانوجی ٹھاکر نے بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ ’رخسانہ جب 12 سال کی تھیں تو انھیں خون دیا گیا تھا۔ اسی خون کی وجہ سے وہ ایچ آئی وی سے متاثر ہو گئیں۔ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ اگر شادی کے بعد مجھے حادثہ پیش آتا تو میں کیا کرتا؟ اب ہمارا مقدر ایک ہے۔ میں بیماری کی وجہ سے رخسانہ کو کیسے چھوڑ دیتا؟ مجھے جذبات پر قابو پانا نہیں آتا۔ میں آپ کو اس کے بارے میں کیسے بتاؤں، محبت سب سے اہم ہے۔‘

گجرات ہائی کورٹ کی جج سونیا گوکانی نے ان دونوں محبت کرنے والوں کی گفتگو سننے کے بعد انھیں ساتھ رہنے اور شادی شدہ زندگی گزارنے کی اجازت دے دی۔

اس کے علاوہ انھوں نے دونوں کو پولیس پروٹیکشن دیے جانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے رخسانہ کو سرکاری ہسپتال میں ایچ آئی وی کا علاج کروانے کا حکم بھی دیا ہے۔

عدالت نے غلط سرٹیفکیٹ پیش کرنے پر رخسانہ کے والد کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔

رخسانہ کو عدالت سے باہر لاتے ہوئے مانوجی نے بی بی سی گجراتی کو بتایا ’میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں لیکن میں نے کہیں پڑھا ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں ہوتا ہے۔ جب میں جیل میں تھا تو رخسانہ کا نام ہر روز ہاتھ پر لکھا کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ مجھے وہ مل گئی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32484 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp