میٹ ریمیک: گھر کے گیراج سے کام شروع کرنے والے الیکٹرک ہائپر کار کے موجد جنھیں کہا گیا ’خواب دیکھا چھوڑ دو‘


میٹ ریمیک

میٹ ریمیک ایک الیکٹرک کار کمپنی کے مالک ہیں۔ وہ دنیا میں گاڑیوں کی ایک انوکھی قسم فروخت کرتے ہیں۔ اب وہ کافی معروف اور امیر ہیں مگر اُن کے کاروباری سفر کا آغاز خراب حالت میں ایک انتہائی پُرانی گاڑی کی تجدید سے ہوا تھا۔

انھوں نے ایک فورک لفٹ ٹرک کے پرزے استعمال کرتے ہوئے ایک بی ایم ڈبلیو گاڑی کو نئی ہیت دی۔ انھوں نے اس بی ایم ڈبلیو کو اپنی تیار کردہ نئی ٹیکنالوجی سے الیکٹرک کار میں تبدیل کرنے کا ٹیسٹ کیا تھا۔

اس بی ایم ڈبلیو کار کو پھر موٹر سپورٹس کی مختلف تقاریب میں لے جایا گیا۔ ان مقابلوں میں جب روایتی گاڑیوں سے ان کی کار جیتی تو اس کی کافی پذیرائی ہوئی۔ یہ پہلی بار تھا کہ دنیا کی تیز ترین الیکٹرک کار بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔

دو سال بعد 2009 میں انھوں نے اپنی کمپنی کی بنیاد ڈال دی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں ایک کار بنانا چاہتا تھا، میں صرف یہی کرنا چاہتا تھا۔‘

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ میٹ ریمیک آٹو انڈسٹری کے کسی عام ایگزیکٹو جیسے بالکل نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سکول چھوڑ کر جوتے بیچنے والے 17 سالہ نوجوان کی کہانی

ایک ’بے گھر، نشے کا عادی‘ شخص کروڑ پتی کیسے بنا؟

وہ خاتون جنھوں نے سگریٹ نوشی ترک کی اور کامیاب کاروبار کی بنیاد رکھی

وہ کامیاب کاروباری آئیڈیا جسے شروع میں احمقانہ کہا گیا

اس 33 سالہ کاروباری شخص کی داڑھی اور کپڑوں سے لگتا ہے کہ وہ سیلیکون ویلی کے کسی سٹارٹ اپ کے مالک ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن کا موازنہ ٹیسلا کمپنی کے مالک ایلون مسک سے کیا جاتا ہے۔

انھوں نے نئی کمپنی کے سلسلے میں کیلیفورنیا کی جگہ اپنے آبائی ملک کروشیا کا انتخاب کیا۔ اُن کی کمپنی ’ریمیک آٹو موبیلی‘ کروشیا کے دارالحکومت زغرب کے پاس ایک چھوٹے شہر ’سوتا ندلیا‘ میں واقع ہے۔

ان کی الیکٹرک گاڑیوں کی ٹیکنالوجی اب موجودہ آٹو کمپنیوں کی کافی مدد کر رہی ہے۔ ریمیک آٹو موبیلی ایک ایسی کمپنی ہے جسے اپنی نایاب الیکٹرک ہائپر کاریں بنانے کے لیے جانا جاتا ہے۔

سنہ 2011 میں رونما کی گئی ان کی ’کانسیپٹ ون کار‘ کی حد رفتار 354 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ ابتدا میں ایسی صرف آٹھ گاڑیاں بنائی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک کار اس وقت بہت بُری طرح تباہ ہو گئی تھی جب ٹی وی اینکر رچرڈ ہیمنڈ نے سوئٹزرلینڈ میں ایک ریس میں حصہ لیا تھا۔

ان کی کمپنی کی حالیہ کار ’سی ٹو‘ کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کی حد رفتار 415 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ صفر سے 97 کلومیٹر فی گھنٹہ پر صرف 1.85 سیکنڈز میں جا سکتی ہے۔ امکان ہے کہ رواں سال اس کی فروخت کا آغاز ہو گا اور اس کی قیمت 24 لاکھ ڈالر تک ہو سکتی ہے۔

یہ کسی عام کار کی نسبت ایک غیر معمولی گاڑی ہے۔ لیکن یہ ریمیک کے بزنس ماڈل کا صرف ایک حصہ ہے۔

میٹ ریمیک کی کمپنی یہ کوشش کر رہی ہے کہ وہ دوسری کمپنیوں کو اپنی ٹیکنالوجی فروخت کر سکے تاکہ وہ بھی پائیدار الیکٹرک گاڑیاں بنا سکیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’چونکہ ہمارے پاس کوئی سرمایہ کار نہیں تھے تو اس لیے ہمیں پہلے دن سے ہی آمدن جمع کرنی تھی۔‘

’ہمیں احساس ہوا کہ لوگ ایسی کمپنی میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتے جو صرف غیر معمولی کاریں بناتی ہو۔ لوگ بڑے پیمانے پر ایک باقاعدہ کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اپنی کمپنی کے استحکام اور ترقی کے لیے انھوں نے دوسری کمپنیوں کو اپنی ٹیکنالوجی اور صلاحیت سپلائی کرنا جاری رکھی ہوئی ہے۔ وہ اس طریقے سے اپنی کمپنی کے لیے فنڈنگ جمع کر رہے ہیں۔

ایک چیز جو ان میں کسی سیلیکون ویلی کے سٹارٹ اپ کے مالک سے قدر مشترک ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے بھی اپنے گیراج سے کام کرنا شروع کیا۔ مگر کوئی ویب سائٹ بنانے کی جگہ انھوں نے اپنی الیکٹرک کار بنائی۔

اس سے اگلا قدم ایک نئی کار بنانا تھا۔ لیکن کروشیا میں ایک آٹو بزنس قائم کرنا کافی مشکل کام تھا۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’میں کسی ایسے بندے کو نوکری پر نہیں رکھ سکتا تھا جس نے پہلے گاڑیوں پر کام کیا ہو۔ میں یونیورسٹی آف زغرب گیا اور میں نے انھیں کہا کہ میں ایک گاڑی بنانا چاہتا ہوں۔‘

’انھوں نے مجھے کہا کہ کروشیا میں کار بنانا ممکن نہیں۔ اگر آپ جلدی ہار مان جائیں گے تو شاید کم لوگوں کو آپ کی طرح نقصان ہو گا۔‘

وہ سیلیکون ویلی سے بھی فنڈنگ حاصل نہیں کر پا رہے تھے۔

’میں ایک بار سیلیکون ویلی گیا اور ان سے کہا کہ مجھے فنڈنگ چاہیے۔ میں نے سرمایہ کاروں سے بات کرنا چاہی۔‘

’لیکن انھوں نے کوئی دلچسپی نہ دکھائی۔ یہ آٹھ سال پرانی بات ہے اور اس وقت الیکٹرک گاڑیوں کی اتنی مقبولیت نہ تھی۔ لوگ صرف سوشل میڈیا پر سرمایہ لگا رہے تھے۔ وہ الیکٹرک کار کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہتے تھے۔‘

’لیکن آج یہ بات اس سے اُلٹ ہے۔ ٹیسلا کی کامیابی دیکھنے کے بعد اب تمام لوگ الیکٹرک گاڑیوں پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔‘

ریمیک

تاہم انھیں اس کے باوجود فنڈنگ مل گئی تھی۔ سنہ 2018 کے اوائل میں سپورٹس کار بنانے والی جرمن کمپنی پورشے نے ان سے 10 فیصد شیئر خرید لیے اور بعد میں اسے بڑھا کر 15.5 فیصد کر دیا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب پورشے کی مالک کمپنی ولکس ویگن نے اپنی خود کی الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے لیے اربوں یورو کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ لیکن پورشے اپنی خود کی الیکٹرک سپورٹس کار بنانا چاہتی تھی۔ انھوں نے ریمیک کی مہارت اور ٹیکنالوجی کو ایک بہتر الیکٹرک بیٹری اور سسٹم کے لیے استعمال کرنا چاہا تھا۔

پورشے کے ڈپٹی چیئرمین اور فنانس ڈائریکٹر لوٹز میشک نے بتایا ہے کہ ’انھوں نے ہماری نسبت کئی برس قبل الیکٹرک گاڑیاں بنانا شروع کر دی تھیں۔‘

’ہماری سرمایہ کاری درست ثابت ہوئی۔ اس کمپنی نے اپنے قیام کے بعد سے کافی ترقی کی ہے۔ انھوں نے ٹیکنالوجی کو بھی بہتر بنایا ہے۔‘

دو مزید کمپنیاں اب ریمیک کے ساتھ ہیں۔ مئی 2019 میں کوریئن کار کمپنی ’ہنڈائی‘ اور اسی سے منسلک ’کِیا‘ نے مشترکہ طور پر آٹھ کروڑ یورو کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سرمایہ کاری سے انھوں نے ریمیک میں غیر مخصوص شیئر خرید لیے اور تکنیکی شراکت کا آغاز کیا۔ دونوں کمپنیاں اب مل کر نئی الیکٹرک کاریں بنائیں گی۔ گاڑیوں کی صنعت کے آزاد تجزیہ کار مٹیاس شمڈ کہتے ہیں کہ جس طرح مختلف حکومتیں پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کو ختم کرنا چاہتی ہیں، تو اس صورتحال میں کروشیا کی اس کمپنی کو کافی فائدہ ہو سکتا ہے۔

پورشے

وہ کہتے ہیں کہ ’گاڑیوں کی کمپنیوں پر دباؤ ہے کہ وہ الیکٹرک کاریں بنائیں۔‘

ان کے مطابق ایسی مہنگی گاڑیاں صرف واکس ویگن جیسی بڑی کمپنیاں بنا پاتی ہے۔ ’درمیانی سطح کی کمپنیوں کے پاس خود اتنے فنڈز نہیں ہوتے تو انھیں یہ ٹیکنالوجی کہیں اور سے خریدنی پڑتی ہے۔‘

برمنگھم یونیورسٹی میں صنعتی حکمت عملی کے پروفیسر ڈیوڈ بیلی کہتے ہیں کہ کاروں کی صنعت سے خود بخود پیسے بنائے جا سکتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ میٹ ریمیک نے کچھ الگ کام کیا جو کہ عام طور پر دیکھا نہیں جاتا۔ ’ان کی کمپنی اپنے قیام کے بعد اچانک مشہور ہوئی اور ان کی بنائی گئی گاڑیاں کافی دلچسپ ہیں۔ انھوں نے ہائپر کار کا ایک برانڈ بنایا ہے۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ اب ایک کمپنی کی مدد سے لاکھوں ڈالر مالیت کی الیکٹرک سپر کاریں کم پیسوں میں مل سکیں گی۔ ’ٹیکنالوجی میں تیزی سے پیشرفت ہو رہی ہے۔ میرے خیال سے ریمیک اس میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ کافی منافع بخش ہو سکتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp