لیبارٹریوں میں غلط تشخیص: ’غلط خون لگنے سے میری بہن موت کی دہلیز پر پہنچ گئیں‘


بلڈ

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے ایک شہری نے الزام عائد کیا ہے کہ ایک نجی لیب کی جانب سے ان کی بہن کے بلڈ گروپ کی مبینہ غلط تشخیص اور اس کے نتیجے میں نجی ہسپتال کی جانب سے انھیں غلط خون لگانے کے باعث وہ (بہن) موت کی دہلیز پر پہنچ چکی ہیں جبکہ متعلقہ حکام اس مبینہ غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔

لاہور کے رہائشی ثمر حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بہن سیدہ کرن ایک سکول میں پڑھاتی ہیں اور چند روز قبل ان کی طبیعت خراب ہوئی تو انھیں لاہور کے ایک نجی ہسپتال لے گئے جہاں انھیں علاج معالجے کی غرض سے داخل کر لیا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ابتدائی ٹیسٹ کرنے کے بعد ڈاکٹروں نے خون کی کمی کی بیماری تشخیص کی اور فوری طور پر اے بی پازیٹیو خون کی بوتلیں لگانے کی تجویز دی گئی۔

ثمر حسین کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے خون کا گروپ بھی اے بی پازیٹیو تھا اس لیے انھوں نے اپنی بہن کو خون عطیہ کر دیا۔

ثمر کے مطابق خون لگنے کے بعد اُن کی بہن کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑتی چلی گئی اور جلد ہی ان کے گردے متاثر ہونے لگے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ دن تو وہاں پر اپنی بہن کا علاج کرواتے رہے لیکن جب کوئی افاقہ نہ ہوا تو وہ انھیں شہر کے دوسرے نجی ہسپتال لے گئے جہاں پر جب ان کے خون کے نمونے لے کر خون کا گروپ چیک کیا گیا تو مریضہ کے خون کا گروپ بی پازیٹیو تھا۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا کا نایاب ترین خون ’بامبے نیگیٹو‘ ہے کیا؟

زینب کی زندگی بچانے کے لیے نایاب خون کی تلاش

’مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرا خون اور سپرم زہریلے ہیں‘

اُنھوں نے کہا کہ اس ہپستال کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان کی بہن کی طبیعت غلط گروپ کا خون لگنے سے مزید بگڑی۔

ثمر حسین کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے اس کی شکایت اس نجی ہسپتال کے مالک ڈاکٹر ظفر شیخ کو کی تو اُنھوں نے واقعے کو ماننے سے انکار کیا۔ ثمر حسین نے الزام عائد کیا کہ ہسپتال کی انتظامیہ نے نجی لیبارٹری سے مبینہ طور پر سازباز کر کے اس کی بہن کے خون کا گروپ اے بی پازیٹیو ہی بتایا اور اس کی رپورٹ بھی فراہم کر دی۔

انھوں نے کہا کہ اس رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہسپتال کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ مریضہ کو اسی گروپ کا خون لگایا گیا ہے جو اُن کے گروپ سے میچ کرتا تھا۔

ثمر حسین کا کہنا تھا بہن کی طبعیت زیادہ خراب ہونے پر وہ انھیں کراچی لے گئے جہاں پر ان کے خون نے نمونے دوبارہ لیے گئے تو اس میں بھی کرن بخاری کے خون کا گروپ بی پازیٹیو ہی تشخیص ہوا۔

اُنھوں نے کہا کہ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اُنھوں نے گھر کا پتا اور رابطہ نمبر تبدیل کر کے اسی نجی لیبارٹری سے اپنی بہن کے نمونے لے کر ٹیسٹ کروایا تو اس رپورٹ میں اسی لیبارٹری نے ان کی بہن کا گروپ بی پازیٹیو بتایا جبکہ اس سے پہلے یہی لیبارٹری اس نجی ہسپتال کو کرن بخاری کے خون کا گروپ اے بی پازیٹیو ہونے کی رپورٹ دے چکی تھی۔

نجی لیب کا موقف

اس ضمن میں جب بی بی سی نے نجی لیب کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو وہاں پر موجود ڈاکٹر عائشہ نے اس بارے میں کوئی ردعمل دینے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ کسی مریض کی بیماری کے بارے میں تفصیلات مریض کی اجازت کے بغیر نہیں بتا سکتیں۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ایک ہی مریض کے بلڈ گروپ کی دو متضاد رپورٹس کیوں جاری کی گئیں تو ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں جب انھیں پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن سے کوئی نوٹس موصول ہو گا تو ان کا ادارہ صرف اسی کو جواب دینے کا پابند ہے۔

خون نمونہ

ہسپتال کا موقف

اس نجی ہسپتال سے جب رابطہ کیا گیا تو اس ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر ظفر شیخ سے تو رابطہ نہ ہو سکا البتہ ان کے سیکریٹری کا کہنا تھا کہ مریضہ کرن بخاری کو اسی گروپ کا خون لگایا گیا جو ان کے خون گروپ کے ساتھ میچ کرتا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ دو مرتبہ لیب سے خون کے ٹیسٹ کروائے گئے اور دونوں مرتبہ مریضہ کرن بخاری کے خون کا گروپ اے بی پازیٹیو ہی آیا تھا۔

پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مریضہ کے بھائی ثمر حسین نے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن میں درخواست دی ہے۔

ثمر حسین کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام نے ناصرف اس درخواست کو وصول کیا بلکہ اس پر کارروائی کے لیے اس پر ڈائری نمبر بھی لگا کر دیا لیکن ابھی تک ذمہ داران کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہو سکی ہے۔ اس ضمن میں جب پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن سے رابطہ کیا گیا تو ان کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر عامر وقاص چوہدری نے بتایا کہ ان کے محکمے کو جنوری کے پہلے ہفتے میں درخواست موصول ہوئی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ مریضہ کی بیماری کا ریکارڈ حاصل کر لیا گیا ہے اور ان کا ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔

ثمر حسین کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس واقعہ سے متعلق سیٹیزن پورٹل پر بھی درخواست دی تھی لیکن ان کے بقول اس پر یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے اس درخواست کو نمٹا دیا گیا۔

کون سے بلڈ گروپ کے حامل افراد کو کون سا بلڈ لگ سکتا ہے؟

ڈاکٹر عامر تاج نے بی بی سی کو بتایا کہ غلط بلڈ گروپ لگانے کی وجہ سے انسانی جسم میں ردعمل آتا ہے جس سے پھیپھڑوں اور گردوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان کے مطابق اگر پھپھڑے زخمی ہو جائیں تو پھر یہ نقصان مزید بڑھ سکتا ہے۔

برطانوی ادارے این ایچ ایس کے مطابق اے بی پازیٹیو بلڈ گروپ کی بات کی جائے تو اس بلڈ گروپ کے حامل افراد کو صرف اے بی پازیٹیو خون لگ سکتا ہے جبکہ اس گروپ کے حامل افراد تمام گروپس کے حامل افراد کو خون عطیہ کر سکتے ہیں۔

بی پازیٹیو بلڈ گروپ کی بات کی جائے تو اس بلڈ گروپ کے حامل افراد کو صرف بی پازیٹیو اور او پازیٹیو خون لگ سکتا ہے جبکہ اس گروپ کے حامل خون کے افراد بی پازیٹیو اور اے بی پازیٹیو گروپ کے افراد کو خون دے سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بہت زیادہ ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور صارفین حکام سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp