کمسن بانو کا قتل، جب بیگم جونا گڑھ کو جیل جانا پڑا


بیگم

سنہ 1952 اور 1953 کے اخبارات بیگم آف جُونا گڑھ کے ہاتھوں ہونے والے ایک ملازمہ کے قتل کے مقدمے سے بھرے ہوئے تھے۔ اس مقدمے کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 28 جنوری 1952 کو کراچی پولیس نے بیگم جُونا گڑھ کو ان کی ملازمہ بانو کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

جُونا گڑھ ہندوستان کی ایک ایسی ریاست تھی، جہاں مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔

قیام پاکستان کے وقت اس ریاست کے حکمرانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا مگر بعد میں انڈیا نے اس ریاست پر قبضہ کرلیا اور ریاست کے حکمران نواب مہابت علی خان نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان میں اقامت اختیار کر لی۔

نواب مہابت علی خان کی پہلی اہلیہ منور جہاں تھیں جو بھوپال کے رئیس سعادت محمد خان کی بیٹی تھیں۔

وہ ماں صاب کہلاتی تھیں اور بیگم آف جونا گڑھ کے منصب پر فائز تھیں، ان کا تعلق بھوپال سے تھا۔ شہزادی عابدہ سلطان نے اپنی خودنوشت ‘عابدہ سلطان :ایک انقلابی شہزادی کی خودنوشت’ میں منور جہاں کے بارے میں بہت تفصیل سے لکھا ہے۔

وہ لکھتی ہیں ‘نہایت خوب صورت، دوستوں کی دوست اور بے حد فضول خرچ ماں صاب کے کردار میں حد درجے کا تضاد تھا۔ کچھ لوگوں کے ساتھ وہ انتہائی فیاضی کا مظاہرہ کرتیں جبکہ دوسروں کے ساتھ نہایت بے رحمی سے پیش آتیں۔ ان کی شخصیت جذباتی اور مہربان تھی، وہ اپنے گھر آنے جانے والوں کے ساتھ، چاہے وہ غریب ہو یا امیر، انتہائی مہمان نوازی کا سلوک کرتی تھیں۔ ان کی طبیعت کا ظالمانہ روپ صرف اس وقت ظاہر ہوتا تھا جب وہ اپنے ملازمین سے کام لیتی تھیں۔ دنیا کے لیے وہ سراپا انکسار اور محبت تھیں مگر اپنے ملازمین کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی نفرت انگیز تھا۔’

شہزادی عابدہ سلطان اپنی اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتی ہیں کہ ‘1950 میں جب میں پاکستان آئی تھی تو میں نے دیکھا کہ شاہی جونا گڑھ ہاؤس، عجیب بے ڈھنگا اور عیش کوش طرز زندگی کا نمونہ پیش کر رہا ہے۔

ان کا رویہ حکومت پاکستان اور ہم جیسوں کے لیے جو شاہی ریاستوں سے تعلق رکھتے تھے، باعث شرمندگی تھا۔

یہ بھی پڑھیے

‘بھٹو صاحب جوناگڑھ کو پاکستان لے گئے‘

جونا گڑھ کے رہائشی پاکستانی بن سکتے ہیں؟

پاکستان کے نئے سیاسی نقشے میں کیا ہے؟

جونا گڑھ کو پاکستان کے نئے ’سیاسی نقشے‘ میں شامل کرنے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

نواب جونا گڑھ کا مستقل مشغلہ اپنے کتوں کی فوج میں مشغول رہنا تھا جو وہ جونا گڑھ سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ یہ کتے ہر صبح ہزہائنس کے سامنے باقاعدہ پریڈ کرتے اور اکثر ان پالتو جانوروں کی شادی کی تقریبات منعقد کی جاتیں جن میں ان کو دولہا دلہن کے مخصوص لباس پہنائے جاتے۔

موسیقی کی محفل جمتی اور حاضری درباری خراج تحسین پیش کرتے۔ ان کی بڑی بیگم منور جہاں (ماں صاب) ایک الگ گھر میں رہتیں جس کا نام ان کے بیٹے اور وارث دلاور خان جی کے نام پردلاور منزل رکھا گیا تھا۔’

دلاور منزل بھی ماں صاب کے بھوپالی رشتے داروں، طفیلیوں اور ذاتی ملازمین سے بھری ہوئی تھی۔

ماں صاب اور نواب مہابت علی خان میں تعلقات کشیدہ تھے، انھیں ایک ناکافی مشاہرہ ملا کرتا تھا جس کے باعث وہ اپنے شاہانہ طرز زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے زیورات بیچنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔ انھیں ریس کے گھوڑے خریدنا اور سٹے بازی کا شوق تھا، وہ بے ایمان جواریوں اور دھوکے باز گھڑ سواروں کے کہنے پر بڑا بڑا جوا کھیلتیں اور ہارنے کے بعد کراچی کے سناروں کے پاس اپنے قیمتی زیورات رہن رکھتیں۔

شہزادی عابدہ سلطان نے لکھا ہے کہ ‘ماں صاب کے گھر کی دیکھ بھال اللہ رکھی نامی ایک سخت خوف ناک، چھ فٹ لمبی، حبشن کے ذمے تھی۔ ملازمین کی چھوٹی موٹی کوتاہیوں پر ماں صاب کا آنے والا غصہ اس عورت کے ذریعے اتارا جاتا جو ان غریب ملازم عورتوں کو اذیت دیتی رہتی۔

نواب آف جوناگڑھ

نواب مہابت خان

میں نے اکثر ماں صاب کو سمجھایا کہ وہ ملازمین پر ظلم کرنا چھوڑ دیں اور انھیں خبردار کیا کہ وہ اب شاہی ریاست میں نہیں رہتیں، جہاں وہ قانون کی پہنچ سے بالاتر تھیں۔

پاکستان میں رہ کر حد سے تجاوز کرنا انھیں کسی مصیبت میں پھنسا سکتا ہے مگر ماں صاب میرے انتباہ کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیتی تھیں کہ لڑکیاں مبالغہ کر رہی ہیں اور ضرورت سے زیادہ جذباتی ہوئی جا رہی ہیں اور اللہ رکھی تو ان کو قابو میں رکھنے کے لیے محض ہلکی پھلکی سزائیں دیتی ہے۔’

ایسے میں 22 جنوری 1952 کا دن آیا۔

ان کے محل میں ایک 13 برس کی بچی بانو ملازم تھی۔ اس کی طبیعت خراب تھی، جس کے باعث اس نے ماں صاب کا باتھ روم استعمال کر لیا تھا۔ ماں صاب کو سخت غصہ آیا، لیکن انھیں ریس میں جانا تھا اور دیر ہو رہی تھی لہٰذا انھوں نے بانو کو چند تھپڑ مارے اور اللہ رکھی کو حکم دے گئیں کہ وہ بانو کی مزید پٹائی کرے اور اس کے مخصوص حصوں میں مرچیں بھر دے تا کہ باقی سب ملازمین بھی سبق حاصل کریں۔

خوف ناک اللہ رکھی نے ماں صاب کی خواہش سے بڑھ کر ان کے حکم کی تعمیل کی اور جب ماں صاب ریس کورس سے واپس آئیں تو بند کمرے سے بانو کے کراہنے کی آوازیں آ رہی تھیں جہاں اسے قید رکھا گیا تھا۔ کسی کو جرأت نہیں تھی کہ وہ غریب کی کوئی مدد کرتا۔ جلد ہی اس کی درد ناک چیخیں بھی دم توڑ گئیں اور جب دروازہ کھولا گیا تو بانو مر چکی تھی۔

29 جنوری 1952 کو روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق بانو کو 23 جنوری کو میوہ شاہ قبرستان میں ایک 40 برس کی عورت ظاہر کر کے خفیہ طور پر دفنا دیا گیا۔ مگر بانو کے لواحقین اس قتل پر خاموش نہیں بیٹھے۔

ان کے شور مچانے پر بانو کے قتل کی تحقیقات شروع ہوئیں۔

کراچی سی آئی ڈی نے اس سلسلے میں دلاور منزل کے چھ ملازمین سلطان، مبارک میاں، ننھے میاں، ماسٹر اسحق بیگ اور دو دیگر افراد کو گرفتار کیا۔ قتل کی کڑیاں ملنا شروع ہوئیں تو سی آئی ڈی بانو کی قبر تک جا پہنچی اور 27 جنوری کو ایک مجسٹریٹ کی نگرانی میں قبر کشائی کی گئی اور بانو کی لاش برآمد کر لی گئی۔

بانو کے پوسٹ مارٹم سے یہ بات سامنے آئی کہ اس کی موت بری طرح مار پیٹ سے واقع ہوئی تھی۔

روزنامہ جنگ کی خبر کے مطابق بانو کے جسم پر زخموں کے کئی نشان پائے گئے۔ اس کے جسم پر آہنی زنجیروں کے نشان اور زدوکوب کیے جانے کی وجہ سے بڑے بڑے نیل پڑے ہوئے تھے۔ اس کی پنڈلی میں کچھ سوئی جیسے نشانات اور سر کی پشت پر ایک بڑا گومڑ پایا گیا تھا۔

پولیس نے قتل کا مقدمہ درج کیا اور دلاور منزل کے ملازمین اور کراچی میونسپل کارپوریشن کے ایک ہیلتھ آفیسر نسیم بیگ چغتائی کو گرفتار کر کے ان کے بیانات حاصل کیے۔ پولیس نے دلاور منزل کی ایک بارہ تیرہ سالہ ملازمہ بلو کا بیان بھی حاصل کیا جو انتہائی کمزور اور خوفزدہ حالت میں تھی، اسی نے بانو کے قتل کی تمام تفصیل پولیس کو بتائی۔

روزنامہ جنگ کی اس خبر کے مطابق دلاور منزل کے ملازمین کا مؤقف یہ تھا کہ بانو تپ دق کی مریضہ تھی اور اس کی موت کا سبب بھی یہی مرض تھا جبکہ بلو کا بیان بالکل مختلف تھا۔

پولیس کو اس کی موت کی اطلاع براہ راست نہیں ملی تھی بلکہ یہ خبر چند اخبار نویسوں کی وساطت سے موصول ہوئی تھی۔ اخبار نویسوں کو یہ اطلاع بھی ملی تھی کہ دلاور منزل میں ملازم خواتین کے ساتھ بہت بدسلوکی کی جاتی ہے چنانچہ وہ زد و کوب سے تنگ آ کر بھاگ نکلتی ہیں۔ دلاور منزل کی ایک ملازمہ تین مرتبہ فرار ہو چکی ہے، پہلی دو مرتبہ پولیس نے اسے تلاش کرکے دلاور منزل واپس پہنچا دیا تھا لیکن تیسری مرتبہ فرار ہونے کے بعد سے وہ اب تک لاپتہ ہے۔

روزنامہ جنگ کراچی کے مطابق 28 جنوری 1952 کو سی آئی ڈی کراچی کے سپرنٹنڈنٹ اکبر مرزا اور ایس پی کرائم برانچ سعید احمد کی قیادت میں پولیس دلاور ہاؤس پہنچ گئی۔ اس دوران ماں صاب اور اللہ رکھی کا آپس میں جھگڑا ہو گیا کیونکہ وہ جرم کی نزاکت کو سمجھ گئی تھیں اور ایک دوسرے پر الزام دھرنے لگی تھیں۔

جب دونوں پولیس افسران نے بیگم جونا گڑھ کو ان کی گرفتاری اور مکان کی تلاشی کے وارنٹ دکھائے تو وہ غصے سے بھڑک اٹھیں اور بولیں ‘کل تک میرے محل میں پانچ سو ملازم صرف محل کو صاف کرنے پر متعین تھے اور میں ان کے ساتھ جو سلوک چاہتی تھی کرتی تھی اور آج مجھے ایک تیرہ سالہ کتیا کے قتل پر گرفتار کیا جا رہا ہے’۔

اس کے بعد ماں صاب نے پولیس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور اختلاج قلب کی شکایت کرنے لگیں۔

پولیس ڈھائی گھنٹے تک مکان کی تلاشی لیتی رہی جہاں سے اسے ہتھ کڑیاں، زنجیریں، رسیاں، اسٹین گن، چار بھاری بندوقیں، ایک ریوالور اور بڑی مقدار میں گولیاں اور کارتوس ملے۔ اسی دوران بانو کے دو بھائی بھی دلاور منزل پہنچ گئے، جنھوں نے پولیس کو اپنی بہن کی قتل کی تفصیل بتائی اور کہا کہ ان کی بہن کو جونا گڑھ سے اس کی مرضی کے بغیر کراچی لایا گیا تھا۔

انھوں نے اپنی بہن کی بازیابی کے لیے پولیس کو درخواست بھی دی تھی مگر کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اب ماں صاب کا رویہ تبدیل ہوا اور انھوں نے اللہ رکھی کو یہ کہہ کر مورد الزام ٹھہرایا کہ اس نے بانو کو اس کے جرم کی بہت زیادہ سزا دی تھی اور وہ اس سزا سے بری الذمہ ہیں۔

پولیس نے بیگم جونا گڑھ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔

ماں صاب خوب صورت لباس میں باہر آئیں اور اپنے نیلے رنگ کی مرکری کار میں بیٹھ گئیں، وہ خاصی مطمئن اور پرسکون نظر آ رہی تھیں۔ کار میں بیٹھ کر انھوں نے اپنے لیے ایک پان بنایا، انھیں کراچی جیل لے جایا گیا جہاں انھیں ان کے خاندانی مرتبے کی وجہ سے اے کلاس میں رکھا گیا۔

جوناگڑھ

انھیں اپنے ساتھ اپنا بستر، کپڑے ، چاندی کا پان دان اور دو خدمت گار رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔

ماں صاب نے پولیس کو بیان دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میرے وکیل سے بات کیجیے۔ انھوں نے کراچی کے مشہور وکیل اختر عادل کی خدمات حاصل کیں۔ اگلے دن کے اخبارات بانو کے قتل کے سرخیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ پولیس نے اللہ رکھی کو بھی گرفتار کر لیا تھا۔

ماں صاب، سینیئر بیگم آف جونا گڑھ، گھڑ دوڑ کی باقاعدہ شوقین، سوسائٹی کی مشہور شخصیت اور نواب جونا گڑھ کی بیوی جنھوں نے اپنی ریاست کو پاکستان میں ضم کرنے کا کارنامہ انجام دیا تھا، جیل بھیج دی گئیں اور ان پر بانو کے قتل کی فرد جرم عائد کر دی گئی۔

یہ اطلاع شہزادی عابدہ سلطان تک بھی پہنچی تو انھوں نے سیکریٹری خارجہ جناب اکرام اللہ اور نواب جونا گڑھ سے بھی مشورہ کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔

جناب اکرام اللہ نے کہا مجھے بیگم جونا گڑھ سے ہمدردی ہے مگر میں قانون میں مداخلت نہیں کر سکتا، جبکہ نواب جونا گڑھ اس سارے معاملے میں بے فکر اور لاتعلق نظر آئے۔ اسی دوران عدالت میں بیگم جونا گڑھ کے وکلا نے یہ آئینی نکتہ بھی اٹھایا کہ جونا گڑھ ایک خودمختار ریاست ہے اور اس کے حکمران خاندان پر تعزیرات پاکستان کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اس پر ایک نئی بحث چھڑ گئی اور عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ جونا گڑھ 1947 سے قبل خود مختار ریاست تھی اب اس کے حکمران خاندان کے افراد پاکستان کے شہری ہیں اور ان پر تعزیرات پاکستان کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔

شہزادی عابدہ سلطان لکھتی ہیں کہ ‘میں ماں صاب کے اس عمل سے دہل گئی تھی لیکن میں باقاعدگی سے جیل میں ان سے ملاقات کرنے کے لیے جایا کرتی تھی۔ جیل میں ماں صاب نے جیل کے عملے کو پیسے کے بل بوتے پر اپنا گرویدہ بنا لیا۔

انھیں زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کر دی گئیں، ان کے کمرے نے دربار کی حیثیت اختیار کر لی تھی، جہاں چیف جیلر اور ان کے ساتھی ان کی خوشامد میں لگے رہتے تھے۔ ماں صاب نے شہزادی عابدہ سلطان کو رازداری سے بتایا کہ احمق جیلر ان کی مٹھی میں ہے۔ گویا رسی جل گئی تھی مگر بل نہیں گئے تھے۔

روزنامہ جنگ کراچی کے مطابق یہ مقدمہ تقریباً ایک برس جاری رہا اس مقدمہ میں استغاثہ کی جانب سے مسٹر ریمنڈ اور ملک شریح الدین نے پیروی کی جب کہ ملزمہ کی طرف سے دیال مل للوانی’ حسن علی عبدالرحمن اور جناب غزنوی پیش ہوئے۔

ماں صاب کے وکلا الزام قتل کو بلا ارادہ قتل میں کم کروانے میں کامیاب ہو گئے۔

16 فروری 1953 کو سندھ چیف کورٹ کے جج جسٹس محمد بچل نے جیوری کی متفقہ رائے سے اتفاق کرتے ہوئے جونا گڑھ کی بیگم منور جہاں کو ان کی ملازمہ بانو کے قتل کے مقدمہ میں تا برخاست عدالت قید اور چھ ہزار روپے جرمانے اور بصورت عدم ادائیگی جرمانہ چھ ماہ قید بامشقت کا حکم سنا دیا۔

بیگم جونا گڑھ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ کمرہ عدالت میں داخل ہوئی تھیں۔

انھوں نے زرد رنگ کا دوپٹہ، ہلکے گلابی رنگ کی قمیض اور پھول دار تنگ پاجامہ پہن رکھا تھا۔ آنکھوں پر بڑے سائز کا کالا چشمہ تھا، ہاتھوں میں سونے کی انگوٹھیاں تھیں۔ جسٹس محمد بچل نے سوا دو گھنٹے تک عدالت سے خطاب کیا، سوا گھنٹے بعد جیوری نے اپنا متفقہ فیصلہ سنا دیا، جس کے مطابق بانو کا قتل بیگم جونا گڑھ (ماں صاب) نے خود تو نہیں کیا مگر وہ اس جرم کی محرک تھیں اس لیے وہ سزا کی مستحق ہیں۔

لیکن چونکہ وہ ایک اعلیٰ سماجی رتبے کی حامل ہیں اس لیے وہ جتنا عرصہ قید میں گزار چکی ہیں اور ان کی جتنی بدنامی ہو چکی ہے وہی ان کی سزا ہے اب انھیں تا برخاست عدالت قید کی سزا دے کر رہا کر دیا جائے۔

روزنامہ جنگ نے لکھا کہ 13 ماہ تک جیل میں قید رہنے کے بعد جب بیگم جونا گڑھ نے یہ فیصلہ سنا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور وہ زارو قطار رونے لگیں۔ شام پانچ بجے بیگم جونا گڑھ کی جانب سے جرمانے کی رقم عدالت میں جمع کروا دی گئی جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔

روزنامہ جنگ کراچی نے لکھا کہ بیگم جونا گڑھ کے خلاف قتل کے مقدمے کا فیصلہ سننے کے لیے چیف کورٹ کے احاطے میں سینکڑوں افراد جمع تھے جو بے چینی کے ساتھ کورٹ سے باہر آنے والے افراد سے فیصلے کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔

کورٹ کے باہر فیصلے کا انتظار کرنے والوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو فیصلے کے بارے میں ہزار ہا روپے کی شرطیں باندھ رہے تھے۔

ماں صاب دلاور منزل واپس پہنچیں، لیکن سابقہ طمطراق اور اصراف ماضی کا قصہ بن چکا تھا اور زیادہ تر زیورات بک چکے تھے۔ کراچی میں ان کے باقی ماندہ سال غربت اور مایوسی میں گزرے۔ یہ بھی پتہ نہیں چل سکا کہ ان کا انتقال کب ہوا اور کس قبرستان کی مٹی نے انھیں اپنی آغوش میں لیا۔

بانو کے قتل کا واقعہ پاکستان کے ابتدائی برسوں کا ایک اہم واقعہ تھا۔ اس واقعے پر احمد فراز نے بھی ایک نظم لکھی جو ان کی کتاب ‘تنہا تنہا’ میں شامل ہے۔ اس نظم کا عنوان تھا ‘بانو کے نام’۔

ملوکیت کے محل کی گناہ گار کنیز

وہ جرم کیا تھا کہ تجھ کو سزائے مرگ ملی

وہ راز کیا تھا کہ تعزیر ناروا کے خلاف

تری نگاہ نہ بھڑکی تری زباں نہ ہلی

وہ کون سا تھا گناہ عظیم جس کے سبب

ہر ایک جبر کو تو سہہ گئی بہ طیب دلی

یہی سنا ہے بس اتنا قصور تھا تیرا

کہ تو نے قصر کے کچھ تلخ بھید جانے تھے

تیری نظر نے وہ خلوت کدوں کے داغ گنے

جو خواجگی کو زر و سیم میں چھپانے تھے

تجھے یہ علم نہیں تھا کہ اس خطا کی سزا

ہزار طوق و سلاسل تھے تازیانے تھے

یہ رسم تازہ نہیں ہے اگر تری لغزش

مزاجِ قصر نشیناں کو ناگوار ہوئی

ہمیشہ اونچے محلات کے بھرم کے لیے

ہر ایک دور میں تزئین طوق و دار ہوئی

کبھی چنی گئی دیوار میں انار کلی

کبھی شکنتلا پتھراؤ کا شکار ہوئی

مگر یہ تخت یہ سلطاں یہ بیگمات یہ قصر

مورخین کی نظروں میں بیگناہ رہے

بغیض وقت اگر کوئی راز کھل بھی گیا

زمانے والے طرفدار کج کلاہ رہے

ستم کی آگ میں جلتے رہے عوام مگر

جہاں پناہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے

ممتاز ادیب اشفاق نقوی نے اپنی کتاب ‘پاپ بیتی’ میں بھی بیگم جونا گڑھ کے اس مقدمہ قتل کا ذکر کیا ہے۔

وہ تقسیم سے پہلے جونا گڑھ میں ملازم تھے اورجونا گڑھ کے حکمران خاندان سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ جب انھیں بیگم جونا گڑھ کی گرفتاری کا علم ہوا تو ان سے ملنے کے لیے جیل پہنچے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ‘جیل کے اندر داخل ہوا تو پتا چلا کہ وہاں ایک وی آئی پی بلاک ہے جو انگریزوں نے اپنے قیدیوں کے لیے بنایا تھا۔ وہاں بیگم صاحبہ گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے پلنگ پر بیٹھی تھیں اور ایک ملازمہ ان کی ٹانگیں دبا رہی تھی، قریب ہی چاندی کا پان دان پڑا تھا، انھوں نے اپنے ہاتھ سے پان لگا کر مجھے دیا جو میں نے دانتوں میں دبایا، دوچار ہمدردی کی باتیں کیں اور باہر نکل آیا۔’

اشفاق نقوی نے اپنی کتاب میں حیدرآباد (دکن) کے ایک شاعر صمد رضوی کی ایک نظم کے چند اشعار درج کیے ہیں جو انھوں نے اس واقعے کے بارے میں لکھی تھیں۔

سلام اے جور و استبداد کی ماری ہوئی بانو

سلام اس پر کہ جو اللہ کو پیاری ہوئی بانو

سلام اس پر کہ آخر موت ہی راس آگئی جس کو

مزاج بادشاہی کی نزاکت کھا گئی جس کو

مقام مفلسی کی رفعتیں تو نے عیاں کردیں

برہنہ قصر سلطانی کی سب چنگیزیاں کردیں

ہزاروں اہرمن زادے تمدن کے دلارے ہیں

ہزاروں ناگنوں نے بیگموں کے روپ دھارے ہیں

منور جہاں کے فرزند محمد دلاور خانجی نے ایک مختصر مدت کے لیے سیاست کے میدان میں نام کمایا۔ وہ یکم مارچ 1976 سے 5 جولائی 1977 تک سندھ کے گورنر کے منصب پر فائز رہے۔ ان کا انتقال 30 اگست 1989 کو ہوا۔ وہ اپنے والد محمد مہابت خانجی کی وفات 7 نومبر 1959 کے بعد جونا گڑھ کے نواب کے علامتی منصب پرفائز ہوئے تھے۔ اس وقت دلاور خانجی کے صاحبزادے محمد جہانگیر خانجی جونا گڑھ کے نواب کے منصب پر فائز ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp