جیف بیزوس بمقابلہ مکیش امبانی: دنیا کے دو امیر ترین افراد کے درمیان کیا لڑائی چل رہی ہے؟


امبانی، ایمازون

انڈیا میں گھریلو استعمال کی اشیا کی ایک کمپنی پر پیدا ہونے والے تنازعے نے دنیا کی ای کامرس کی بڑی کمپنی ایمازون کو انڈیا کی سب سے بڑی کمپنی ریلائنس کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے۔

دونوں کمپنیاں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں کیونکہ انھوں نے ایک ہی کمپنی فیوچر گروپ کے ساتھ مختلف معاہدے کر رکھے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی کمپنی ایمازون اور انڈیا میں ہیرو کی حیثیت رکھنے والے مکیش امبانی کی کمپنی کے درمیان یہ قانونی جنگ، جس میں مکیش امبانی کو مقامی ہونے کی برتری بھی حاصل ہے، انڈیا میں ای کامرس کی پیداوار کو آئندہ کئی برسوں تک ایک نئی جہت پر لے کر جا سکتی ہے۔

کنسلٹنسی فرم فورسٹر کے سینیئر تجزیہ کار ستیش مینا کی پیشگوئی کے مطابق یہ ایک بہت بڑی قانونی جنگ ہے۔ ان کے مطابق ’اس سے قبل ایمازون نے کبھی بھی کسی مارکیٹ میں اس قسم کا حریف نہیں دیکھا۔‘

ایمازون کے بانی جیف بیزوس دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ اس وقت وہ اس کمپنی کے سربراہ نہیں اور کمپنی نے اپنی ہیئت تبدیل کرتے ہوئے دنیا بھر میں اب اپنے سٹور بھی قائم کر دیے ہیں۔ ریلائنس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو مکیش امبانی، جو انڈیا کے سب سے امیر شخص ہیں، بھی خوب مقابلہ کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایمازون کے 25 سال: کامیابی کی ایک داستان

ایشیا کا امیر ترین شخص ایمازون سے مقابلے پر تیار

فیس بک کا انڈیا کے امیر ترین شخص پر ’ساڑھے پانچ ارب ڈالر کا جوا‘

اس صنعت سے وابستہ تجزیہ کاروں کے خیال میں مکیش امبانی کے ’ریٹیل پلان‘ ایمازون اور والمارٹ کے فلپ کارٹ کے لیے بھی ایک چیلنج بن جائیں گے۔ ایمازون جارحانہ انداز میں انڈیا میں اپنے کاروبار میں توسیع لا رہا ہے، جہاں اب اس کمپنی کی انڈیا میں بڑھتی ہوئی ای کامرس کی مارکیٹ پر بھی نظر ہے۔

ریلائنس بھی اب اپنے ای کامرس اور گھریلو استعمال کے اشیا کے کاروبار کو وسیع کرنا چاہتا ہے۔

ریلائنس

فیوچر گروپ سے متعلق کیا لڑائی چل رہی ہے؟

فیوچر گروپ نے حال ہی میں ایک معائدے کے تحت اپنے 3.4 بلین کے اثاثے ریلائنس انڈسٹریز کو فروخت کیے ہیں۔

سنہ 2019 سے ایمازون فیوچر کوپنز کے 49 فیصد اثاثوں کا مالک بن چکا ہے، جو اسے بالواسطہ طور پر ’فیوچر ریٹیل‘ کا مالک بنا دیتا ہے۔ ایمازون کا کہنا ہے کہ اس خرید کا معاہدہ فیوچر گروپ کو ریلائنس کمپنی سمیت انڈیا کی کچھ کمپنیوں سے ایسے فروخت کے معاہدوں پر پابندی عائد کرتا ہے۔

’اینٹوں اور مورٹر‘ کا کاروبار کرنے والی کمپنی ’فیوچرریٹیل‘ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بہت متاثر ہوئی ہے۔ اس کمپنی کا مؤقف ہے کہ اپنے وجود کی بقا کے لیے ریلائنس کمپنی کے ساتھ معاہدہ بہت ضروری ہو گیا تھا۔

عدالت میں ہونے والی ابتدائی سماعت فیوچر گروپ کے حق میں گئی ہے۔ گذشتہ پیر کو دلی ہائی کورٹ نے اس حوالے سے اپنا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اس کو فروخت سے روک دیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف ایمازون نے اپیل دائر کر رکھی ہے۔

مکیشن امبانی

مکیش امبانی

خطرے میں کیا ہے؟

اگر ریلائنس کو خریداری کی اجازت مل گئی تو پھر یہ کمپنی انڈیا کے 420 سے زائد شہروں میں اپنے 1800 سے زائد سٹورز قائم کرے گی۔ اس کے علاوہ ریلائنس فیوچر گروپ کے ہول سیل بزنس اور دیگر اثاثوں کو بھی خود سنبھال لے گی۔

ستیش مینا کا کہنا ہے کہ ریلائنس کے پاس پیسہ ہے جس وجہ سے اس کمپنی کو مارکیٹ میں مطلوبہ اثرو رسوخ حاصل ہے لیکن انھیں ای کامرس کے شعبے میں مہارت حاصل نہیں۔

اگر ایمازون کو کامیابی حاصل ہوتی ہے تو پھر اس کا اثر بڑھ جائے گا، جس سے وہ اپنے بڑے مد مقابل کی اس شعبے میں آنے کی رفتار کو کم کر سکتا ہے۔

تجزیہ: نِکھل انعامدار، بی بی سی نیوز ممبئی

دنیا کے دو امیر ترین اشخاص میں یہ بڑا تنازع اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جیف بیزوس اور مکیش امبانی کے ایک ایسی مارکیٹ جسے عام طور پر پیداواری شعبے میں آخری درجہ حاصل ہوتا ہے، میں مفادات کس قدر بڑھ چکے ہیں۔

یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے انڈیا میں کاروبار کرنا کتنا زیادہ مشکل بنتا جا رہا ہے۔

ایسی غیر ملکی کمپنیوں میں ایمازون کا اضافہ نیا ہے جو اپنے انڈین کاروباری پارٹنرز سے کیے گئے معاہدوں پر عمل نہیں کرا سکی ہیں۔ یہ غیر ملکی کمپنیاں انڈیا میں مقامی عدالتوں میں بھی قانونی کارروائی کے اتار چڑھاؤ کا شکار ہو کر رہ جاتی ہیں۔

حال ہی میں انڈیا کو کیرن انرجی پی ایل سی اور ٹیلی کام کمپنی وڈافون سے ٹیکس سے متعلق ایسے دو مقدمات میں عالمی فورمز پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جیف بیزوس

کینیڈا میں ایشیا پیسفک فاؤنڈیشن کی محقق روپا سوبرامانیا کا کہنا ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ غیر ملکی اب اس صورتحال اور اس طرح دوسرے واقعات پر ناراضگی کا اظہار کریں گے۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ انڈیا کے قابل بھروسہ ہونے، آئندہ کاروبار اور سرمایہ کرنے سے متعلق ایک منفی تاثر پیدا کرے گا۔

اگرچہ ایمازون بغیر قانونی جنگ کے اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور محض اس وجہ سے وہ میدان نہیں چھوڑے گا کہ کچھ تجزیہ کاروں نے یہ کہہ دیا ہے کہ اس مقدمے میں ریلائنس کو ایک خاص قسم کی مقامی کمپنی ہونے کی برتری حاصل ہے۔

تاہم انڈیا کی ایک کمپنی ریلائنس کے خلاف جانے کی وجہ سے ایمازون کے لیے انڈیا میں کاروبار میں توسیع کا میدان اتنا سازگار نہیں۔ انڈین حکومت کے قواعد غیر ملکی ای کامرس کمپنیوں کو اپنی کوئی شے یا براہ راست صارفین کو کسی بھی پرائیویٹ چیز کی فروخت سے روکتے ہیں۔ اس پابندی کو حفاظتی پالیسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کا مقصد مقامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

ایمازون کو ڈیٹا کے استعمال پر عائد پابندیوں اور انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کے خود انحصاری کے اعلان کے بعد سے ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مواقع پر نظر

ایمازون اور ریلائنس انڈیا کی مارکیٹ پر لڑنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ یہاں پیداوار کے منفرد مواقع دستیاب ہیں۔ مینا کا کہنا ہے کہ امریکہ اور چین کی مارکیٹ کے بعد ایسی کوئی مارکیٹ نہیں، جو ان کمپنیوں کو ایسے مواقع دیتی ہوں۔

مینا کا کہنا ہے کہ انڈیا کا ریٹیل سیکٹر 850 بلین ڈالر مالیت کا حامل ہے مگر ابھی ای کامرس اس کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ پیشگوئی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انڈین مارکیٹ سالانہ 25.8 فیصد سے بڑھ کر 2023 تک 85 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ای کامرس کی مارکیٹ میں مقابلے میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ ایمازون کے علاوہ وال مارٹ نے ای کامرس کمپنی فلپ کارٹ سے شراکت داری کر رکھی ہے۔ فیس بک بھی اب اس مارکیٹ کا حصہ ہے، جس نے ریلائنس انڈسٹریز کے جیو پلیٹ فارمز پر 9.9 فیصد اثاثوں کے لیے مکیش امبانی کی کمپنی کو 5.7 بلین ڈالر ادا کیے ہیں۔

خوراک کے لیے لڑائی

انڈیا میں گھریلو استعمال کی اشیا کا کاروبار بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے اور اس وقت ای کامرس میں خراب نہ ہونے والی اشیا جیسے سمارٹ فونز وغیرہ کا کاروبار خوب ہو رہا ہے۔

کورونا وائرس کی وبا نے اب گھریلو استعمال کی اشیا کا لین دین بھی ای کامرس انڈسٹری سے جوڑ دیا ہے کیونکہ انڈیا ان ممالک میں شامل ہے جس نے اس وائرس پر قابو پانے کے لیے سخت ترین لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا۔

لوگ گھروں تک محصور ہو کر رہ گئے۔ بزنس کنسلٹنسی اے ٹی کیرنی کے کنزیومر اینڈ ریٹیل فار ایشیا کے سربراہ ہمانشو بجاج کا کہنا ہے کہ (لاک ڈاؤن کے) اس عرصے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں نے آن لائن سروسز پر ہی انحصار کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32485 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp