نئے پرانے ٹھگ اور لٹنے والا عوامی قافلہ


جونہی ٹی وی آن کیا کہ خبریں ہی سن لیں۔ وطن عزیز سے کوئی خیر کی خبر آئے بڑا مشکل ہے مگر امید پہ دنیا قائم ہے۔ نیوز چینل کی سکرین پر ایک جانی پہچانی سی ”ادکھڑ“ خاتون کو بلبلاتے دیکھ کر بہت ہی رحم آیا اور بہت غور کیا تو یاد آیا کہ یہ تو فلاں ہیں مگر ان کے دشمنوں کو کیا ہوا جو یہ منت ترلے کا لہجہ اختیار کیے ہیں اور مسلسل بیٹے کی بے گناہی کی بات کر رہی تھیں۔

کیا قصور تھا ان عفیفہ کے معصوم بروا کا؟ محض چار نوجوانوں (جن کا تعلق عوام الناس سے تھا اور جو دارالحکومت میں نوکری کا خواب لیے ایک دوست کے ساتھ آئے تھے) کی کھلونے جیسی گاڑی اس ہونہار نے اپنی جہازی سائز کی گاڑی سے اڑا دی، ایک دھماکہ ہوا اور چار گھروں کے چراغ گل ہو گئے، جن کی مائیں جب تک زندہ رہیں گی بس بین کرتی رہیں گی اور ان کی کوئی شنوائی نہ ہو گی۔

دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو دنیا نے ایک جھرجھری لے کر انگڑائی لی اور جنگ کی راکھ کو جھاڑنا شروع کیا، اس جنگ نے جہاں یورپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی وہیں ایشیا کی بھی درگت بن چکی تھی اور سب تباہ حالی سے دوچار تھے۔ برطانیہ کا سورج جگہ جگہ غروب ہونے لگا تو مختلف ملکوں میں آزادی کا سورج طلوع ہونے لگا تھا۔ ہندوستان بھی آزاد ہو گیا سو ایک لکیر کھینچی گئی اور ہندوستان کو دو ممالک میں تقسیم کر دیا گیا اور برٹش راج ماضی کی کہانی بن گیا۔

پاکستان ستائیسویں کی مبارک شب وجود میں آیا اور ہمارے معصوم لوگ اس کو معجزہ سمجھنے لگے اور بعض تو سوچنے لگے کہ شاید جوتا پہن کر چلنا بے ادبی ہو گی مگر اس خواب سے باہر آنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت میں لاکھوں لوگ لٹ پٹ کر ارض پاک پہنچے اور اتنی قربانیوں کے بعد ان میں سے کچھ کا خیال تھا کہ سارا کھیت ہرا ہے اور ان کے لئے ہے ، سو جہاں سے چاہیں وہ چر لیں گے اور من و سلوٰی کی طرح ہر چیز کی جب بارش ہو گی تو وہ اس میں نہانے لگیں گے مگر بھول گئے کہ وہ بنی اسرائیل نہیں ہیں۔

ہم جو بہکی بہکی باتیں کیے چلے جا رہے ہیں (حالانکہ صبح کیپسول یاد سے کھا لیا تھا) اس کی وجہ رضا علی عابدی صاحب ہیں، جن کی ایک کتاب ”پرانے ٹھگ“ دوبارہ پڑھنی شروع کی اور بہت ہی دلچسپ مگر بہت سے راز آشکار کرتی اس کتاب کو دوبارہ پڑھ کر بھی ہمیں تو حیرت اور عبرت کے اتنے ہی غوطے لگے جتنے کہ پہلی دفعہ لگے تھے کہ آج بھی اکیسویں صدی میں ہم انیسویں میں کھڑے ہیں بلکہ صورتحال دو سو سال سے زیادہ خراب ہے۔

جب گوروں نے اپنے جمتے قدم اور جمانے کے لئے جرائم کی بیخ کنی اپنی پہلی ترجیح رکھی اور بہت سی وباؤں کے ساتھ ساتھ قبیح جرائم کی جڑیں بہت کامیابی سے کاٹیں مگر آج کے ٹھگ جب کہتے ہیں کہ ”فلاں“ کی کیا مجال کہ ہم سے پوچھ گچھ کرے یا ہم تو ”ان“ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے تو وہ لاکھ  لاکھ شکر کریں کہ مملکت خداداد میں بیٹھے ہیں ،ہوتا برٹش راج تو بغاوت کے جرم ایک ہجوم کے سامنے صبح دم سولی پر لٹکا دیا جاتا اور کچھ شنوائی نہ ہوتی۔

1810 میں اوٹاوہ میں جہاں کمپنی کی عمل داری تھی، آٹھ افراد کو کچہری میں لایا گیا، ان پر قتل کا الزام تھا تو ابتدائی تفتیش میں ایک بیس سالہ لڑکے نے کہا: میرا نام غلام رسول ہے اور میں ٹھگ ہوں ، یوں پہلی بار ٹھگ کا لفظ کاغذوں میں لکھا گیا۔ مگر یہ ٹھگ کون تھے اور کون ہیں؟

یہ عام جرائم پیشہ لوگوں کی نسبت بہت زیادہ سفاک اور خطرناک تھے اور ہیں۔ پرانے ٹھگ قافلوں کو میٹھی میٹھی باتیں کر کے اپنے جال میں پھانستے تھے اور رومال ان کے گلے میں ڈال کر ان کے نرخرے توڑ کر سب کچھ لوٹ لیتے تھے اور آج کے ٹھگ انتخابی وعدوں سے عوام الناس کے ساتھ میٹھے وعدے کر کے ان کو پھانس لیتے ہیں اور امیدوں کے رومال ان کے گلے میں ڈال کر ان کا دم نکال دیتے ہیں۔ پرانے ٹھگ بے حد سفاک، شاطر اور منصوبہ ساز تھے محض دو روپے کی خاطر دس لوگوں کی لاشیں گرا دیتے تھے اور آج کے ٹھگ بھی اسی رسم پر عمل پیرا ہیں۔

ٹھگوں نے انیسویں صدی میں بہت ظلم ڈھایا، یہ کالی کی پوجا کرتے تھے خواہ ان کا کسی بھی مذہب سے تعلق تھا۔ سارا مال بانٹ کر کھاتے اور کسی اونچ نیچ میں ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہو جاتے۔ بیچارے مغل تو اپنے پرتعیش شب و روز میں اتنے مگن تھے کہ ان کو احساس ہی نہ ہوتا تھا کہ کیا ناسور جڑیں پکڑ رہا ہے مگر کمپنی بہادر جو اپنے پنجے گاڑ رہی تھی ، اس نے ٹھگوں کا نوٹس لیا جب ان کے مقامی سپاہی مال و متاع کے ساتھ چھٹی جاتے تو واپس نہ آتے اور نہ ہی گھروں کو پہنچ پاتے تھے۔

پرانے ٹھگ بھی بے پناہ طاقت ور اور اپنے کام میں چابک دست تھے۔ اپنے مخصوص رسم و رواج کے اور توھمات کے قائل تھے اور ٹھگی کے وقت ہر چیز کو پس پشت ڈال دیتے تھے۔ وہ ہمارے ٹھگوں ٖ طرح سزا و قضا کے خوف سے بے نیاز تھے اور تیس چالیس لوگوں کے قافلے کو اپنے رومالوں سے منٹوں میں پھانسی دے دیتے تھے، خون بہانا وہ بدشگونی سمجھتے تھے مگر کبھی وہ بھی کر گزرتے تھے اور چابک دستی سے لاشیں گڑھوں میں دفن کر دیتے تھے کہ ان ہی دنوں میں ولیم سلیمین کا جہاز ولایت سے چلا اور ہندوستان کے ساحلوں پر آ لگا۔

ہندوستان میں کچھ مدت اس نے فوج میں گزار کر سول نوکری پکڑ لی اور جبل پور میں آ پہنچا۔ اس وقت یہ شہر اور اس کے اردگرد کے علاقے میں افیون کا کاروبار اپنے عروج پہ تھا اور ساہوکار دولت کے انباروں پر بیٹھے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ٹھگی کی قتل و غارت اپنے عروج پر تھی ، سو ولیم سلیمین نے ان کی سرکوبی کی ٹھان لی مگر مزے کی بات یہ ہے کہ جہان کمپنی کی عمل داری نہیں تھی ، راجے مہاراجے ان کو بچا لیتے کہ وہ اپنا حصہ وصول کرتے تھے۔

آہستہ آہستہ راج کی جڑیں مضبوط ہونے لگیں اور ٹھگ پکڑے جانے لگے، ہزاروں کو پھانسی دی گئی اور کالے پانی بھیجے گئے یا ہمیشہ کے لئے جیلوں میں ٹھونسے گئے مگر ساتھ ساتھ این آر او بھی ملنے لگا مطلب وعدہ معاف کو معافی بھی ملنے لگی اور پلی بارگین بھی ہونے لگی یعنی جو ٹھگ اپنا مال خزانے میں جمع کراتے ، وہ معافی پاتے تھے، غرض کہ چالیس سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد گوروں نے ٹھگی کو جڑ سے ختم کر دیا۔

قائداعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان میں جو ٹھگ منظر عام پر آئے تو ان کے ایک دور کا اختتام ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ ضیاءالحق کے زمانے سے ٹھگی نے کروٹ لی اور پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا (ٹھگی نے) اور نئی جہتوں کو چھو لیا۔

اس دور میں اور بعد میں ٹھگوں کی صرف قسما قسم نسلیں ہی سامنے نہ آئیں (ترقی پسند، معتدل اور مذہبی شدت پسند) بلکہ ان کے دیکھا دیکھی عوام الناس بھی اس پیشے کو آئیڈلائز کرنے لگے۔

پرانے ٹھگوں نے تو پھر بھی کوئی ضابطۂ اخلاق اپنے معاملات میں مقرر کر رکھا تھا مگر یہاں تو وہ بھی نہیں ہے۔ پرانے ٹھگوں کو جب کوئی خطرہ محسوس ہوتا یا برا وقت آتا تو بھیس بدل لیتے، سادھو بن جاتے یا فقیروں کا حلیہ بنا کر دھوکہ دہی سے ادھر ادھر ہو جاتے تھے، آپ نئے ٹھگ دیکھ لیں جونہی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی ، سب نے مریضوں کا بھیس بدل لیا اور جان لیوا بیماریوں کا ڈھونگ رچا کر سب کو دھوکہ دے رہے ہیں اور مزے کی بات ہے کہ اپنی ناجائز دولت کو وراثت کہتے ہیں حالانکہ بڑے بھائی کے والد امیر تھے اور چھوٹے بھائی کے والد غریب، یعنی ان کو خود بھی سمجھ نہیں آتی کہ اس ٹھگی کا دفاع کیسے کریں۔

پرانے ٹھگ اپنے بچوں کی تربیت اوائل عمری میں شروع کر دیتے تھے اور قد نکالتے ہی وہ بچے بے گناہ لوگوں کو نہایت مہارت سے پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کرتے اور دنوں میں اپنے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیتے۔ دور حاضر میں کیا ان کی اولادیں ٹھگی میں کسی سے پیچھے ہیں کیا؟

ایک مایہ ناز صحافی جو خود بھی ہمہ صفت ہیں، انہی میں سے ایک کے صاحبزادے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”صاحب حافظ قرآن ہیں اور چوبیس گھنٹے وضو سے رہتے ہیں“ مگر یہ حافظ صاحب مسجد نبوی میں ایک جج صاحب کو بلیک میل کر رہے تھے اور وہی حرکتیں حافظ صاحب کی بہن صاحبہ کی بھی ہیں اور وقت آنے پر یہ بائیس کروڑ لوگوں کا اپنے طریقے سے گھونٹ سکتے ہیں۔

نئی ٹھگی میں مخصوص خواتین کو اعلیٰ مقام حاصل ہے اور مال و دولت کے علاوہ عدل و انصاف ان کے گھر کی لونڈی ہے، حکومت کوئی بھی آئے یا جائے ان کے عہدے اور مقام کو کوئی نہیں چھیڑ سکتا اور یہ سب کی منظور نظر ہیں۔

برٹش راج کو گزرے ایک زمانہ بیت گیا مگر ٹھگی کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا وہیں سے جڑ گیا تھا۔ ملک میں ٹھگوں کے علاوہ باقی عوام کو تو صحت، روزگار، عدل و انصاف کچھ بھی میسر نہیں ہے۔ تعلیم کا معیار اتنا گر چکا ہے کہ اس سے استفادہ کرنے والا تو اب ٹھگ بھی ڈھنگ سے نہ بن پائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments