خواتین کے حقوق: ’میں ٹی وی پر ریپ کا منظر دیکھتی تو طبعیت خراب ہونے لگتی‘


ریپ

مارتھا ایک گھر میں شیئرنگ کی بنیاد پر رہ رہی تھیں جب ان کے ایک جاننے والے مرد نے انھیں اُن ہی کے بستر میں ریپ کا نشانہ بنایا۔

ان کے اعتماد کو پہنچنے والی اس ٹھیس کے بعد ان کے لیے غصے، غیر یقینی اور صدمے کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

یہاں وہ اپنے الفاظ میں انصاف کی جدوجہد اور ریپ کے اپنے تعلقات اور ذہنی صحت پر اثرات کی روداد سُنا رہی ہیں۔

ایک ہفتے بعد میں کام پر رو پڑی

میں ریپ کے بعد بھی زندہ ہوں۔

مجھے اپنے لیے ’ریپ سے متاثرہ’ خاتون ہونے کی بجائے ’ریپ کے بعد بچ جانے والی خاتون‘ کا لفظ زیادہ ٹھیک لگتا ہے۔ مگر مجھے اس لفظ ’ریپ کے بعد بچ جانے والی خاتون‘ کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہونے میں کافی وقت لگا۔

یہ بھی پڑھیے

’طالبان نے میری بیوی کو ریپ کیا‘

ریپ سے متاثرہ افراد کے لباس کی نمائش

خواتین پوچھ رہی ہیں کہ ‘مرد ریپ کیوں کرتے ہیں؟’

پاکستان میں ریپ جیسے جرائم کے لیے کیا مزید قانون سازی کی ضرورت ہے؟

’(ریپ کے بعد) زندہ بچ جانا‘ یہ لفظ بہت اچھا محسوس ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی زلزلے کی زد میں آ جاتے ہیں تو آپ خود کو ملبے سے گھسیٹ کر نکالتے ہیں۔ مگر میں یہ لفظ اس لیے استعمال کرتی ہوں کیونکہ یہ زیادہ ہمت افزا ہے۔ ’ریپ سے متاثرہ‘ ہونے کا لفظ کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔ اس لفظ میں کوئی قوت نہیں ہے۔

کبھی کبھی مجھے یہ لفظ ’سروائیور‘ بھی پسند نہیں آتا کیونکہ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ کو اس سے زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ کبھی کبھی میں خود کو سروائیور بھی نہیں سمجھتی۔

ریپ

حملے کے فوراً بعد میں بہت زیادہ کانپ رہی تھی اور اگلی صبح میرا ذہن بالکل ماؤف ہو گیا تھا۔ اس دن میں کام پر گئی تھی مگر مجھے اس دن کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ بھی یاد نہیں۔

کچھ دن بعد میں نے ایک دوست کو دیکھا تو میں نے اسے بتایا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے ’نہ‘ کہا تھا مگر وہ نہیں رُکا۔ میرے دوست نے مجھے گلے سے لگایا اور کہا کہ میرا ریپ کیا گیا ہے۔

شروع میں تو میں نے اس بات کو مسترد کر دیا۔ میرا ایک تعلق حال ہی میں ختم ہوا تھا اس لیے مجھے اس سے ہونے والے درد کا زیادہ احساس تھا۔ مگر ایک ہفتے بعد میں کام پر رو پڑی اور میں نے ایک دوست سے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ میں تعلق کے خاتمے سے ٹھیک انداز میں نمٹ رہی ہوں اور یہ کہ میرا ریپ کیا گیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ میں نے یہ بات کہی۔

میری دوست نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اسے رپورٹ کرنا چاہتی ہوں؟ اس نے اُن دیگر لوگوں کے بارے میں بتایا جنھیں وہ جانتی تھی اور جو اسی صورتحال سے گزرے تھے اور انھوں نے اسے رپورٹ کیا تھا۔ اس سے انھیں اپنی خود اعتمادی واپس حاصل کرنے میں مدد ملی تھی۔ یہ ایسی چیز تھی جو اس وقت میرے حالات سے مطابقت رکھتی تھی کیونکہ اُس لمحے میں آپ بہت کمزور محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔

ریپ

میرا فون اُن کے پاس ہے

ہم اس کی رپورٹ درج کروانے کے لیے پولیس سٹیشن گئے۔

مجھے پولیس کی گاڑی میں بٹھا کر جنسی حملوں کے ریفرل مرکز بھیج دیا گیا جس سے مجھے مجرم کا سا احساس ہوا۔

انھوں نے سیکس کے ثبوت کے لیے ڈی این اے نمونے حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن میرے ساتھ پیش آئے واقعے کو ایک ہفتے سے زیادہ گزر جانے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔

میں جانتی تھی کہ انھیں ضابطے پر عمل کرنا ہے مگر میں سوچ رہی تھی: ’اس کی کوئی تُک نہیں۔ میں آپ کو بتا سکتی ہوں کہ مجھے کوئی جسمانی چوٹ نہیں پہنچی ہے۔ جس بات پر تنازع ہے وہ یہ ہے کہ کیا میرے ساتھ جو کچھ ہوا وہ رضامندی سے ہوا؟‘

اہلکار میرا فون لینا چاہتے تھے کیونکہ اس میں ہمارے درمیان کچھ ٹیکسٹ پیغامات کا ریکارڈ موجود تھا۔ میں صرف یہی سوچ رہی تھی: ’کیا مجھے نئے فون کی ضرورت ہے؟ میں نے اپنے دوستوں کو نہیں بتایا ہے، میں نے اپنے والدین کو نہیں بتایا ہے؟ آج کے دور میں عارضی نمبر رکھنے کے لیے کیا بہانہ تراشوں گی؟‘

بعد میں ایک فارانزک افسر میرے کمرے میں جانا چاہتے تھے اس لیے مجھے اپنے فلیٹ میں رہنے والے دیگر لوگوں کو بتانا پڑا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ افسر کی جانب سے میرے کمرے کا جائزہ بھی میرے لیے کافی شرمندگی کا باعث تھا کیونکہ میرا کمرہ انتہائی بکھرا ہوا تھا۔ فلیٹ میں ساتھ رہنے والی ایک لڑکی نے کہا: ’مارتھا، مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے۔‘ اور میں سوچ رہی تھی: ’ہاں مجھے معلوم نہیں کہ مجھے ابھی تمھیں کیا کہنا چاہیے، مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت مجھ سے کیا کہنا چاہیے۔‘

اس کے بعد مجھے صدمے (پی ٹی ایس ڈی) کی وجہ سے کام سے گھر بھیج دیا گیا۔ میں نے اس وقت سوچا کہ مجھے اپنے والدین کو بتانا چاہیے۔ میں یہ بالکل بھی نہیں چاہتی تھی مگر مجھے یہ محسوس ہوا کہ مجھے یہ کرنا ہی ہو گا۔

ابھی آدھا دن ہی گزرا تھا۔ میں گھر گئی اور میں نے اپنی امی کو بتایا۔ انھوں نے میرے والد کو بتایا۔ بعد میں وہ میرے گھر آئے تاکہ میرا کمرہ ٹھیک کر سکیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ اس لیے تھا کیونکہ وہ مجھے محفوظ رکھنے میں ناکامی کے بعد یہی کر سکتے تھے۔

ریپ

اسے اپنی ذات پر نہ لیں

عدالت جانا مشکل کام تھا۔

میں اس پورے معاملے سے دستبردار ہونا چاہتی تھی، پر اگر میں ایسا کرتی تو یہ لگتا کہ میں جھوٹ بول رہی تھی۔ مجھے یہ امید کرنا یاد ہے کہ وہ واپس آئیں گے اور کہیں گے کہ ثبوت و شواہد ناکافی ہیں تاکہ میرے پاس آپشن نہ رہے۔

میں پہلے ہی اپنی گواہی کی ریکارڈنگ کر چکی تھی تاکہ مجھے عدالت میں ہر چیز دہرانی نہ پڑے۔ یہ بہت عجیب تھا کیونکہ یہ میں تھی اور میں سوچ رہی تھی: ’میں نہیں جانتی کہ یہ کون ہے: یہ چھوٹی لگتی ہے، دبلی، اور اپنی ذات کا بس ایک خول، مگر وہ جمپر پہنے ہوئے ہے جو میرے پاس اب بھی ہے۔‘

جب اس نے رونا شروع کیا تو میں نے بھی رونا شروع کیا۔

دوران کیس جراح کا مرحلہ ایک نیا صدمہ تھا۔

وکیلِ دفاع ایک خاتون تھیں اس لیے میں نے فوراً سوچا کہ انھوں نے عورت ذات کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ وہ دھاک جمانے والی خاتون تھیں۔

آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انھیں ایک ایسی کہانی بُننے کی ضرورت ہے جس کا الزام یہ ہے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ایک موقع پر تو وہ یہ دلیل دینے کی بھی کوشش کر رہی تھیں کہ میرے لیے یہ کہنا آسان تھا کہ میرا ریپ ہوا ہے، بجائے اس کے کہ میں نے اپنی مرضی سے سیکس کیا اور یہ اچھا نہیں تھا۔

مجھے یاد ہے کہ مسلسل توجہ اس بات پر تھی کہ میں نے کیا پہنا ہوا ہے۔ اس سے میں اپنی تمام تر ہمت کھو بیٹھی اور میں نے سوچا کہ یہ بہت بُرا ہو رہا ہے کیونکہ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اپنی رات کی قمیض پہن رکھی تھی یا نہیں۔ اس دوران وکیلِ استغاثہ نے کچھ بھی نہیں کیا کیونکہ اعتراض کرنے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں۔ چنانچہ میں لوگوں سے بھرے ہوئے اس کمرے میں تھی، میں اپنے دفاع کے قابل نہیں تھی۔

کلرک مجھے کمرے سے باہر لے گئے اور اس وقت میں جسمانی طور پر کانپ رہی تھی۔ مجھے اس سب سے بہت صدمہ پہنچا تھا۔

جب ہم چل رہے تھے تو وہ میری جانب مڑیں اور کہا ’اسے پرسنل نہ لیں۔‘ آخر جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے اس سے زیادہ ذاتی کیا چیز ہو سکتی ہے؟ میں کبھی بھی اُن کے یہ الفاظ نہیں بھول سکتی۔

میرا ریپ کرنے والے کو مجرم قرار دیا گیا اور اسے چار سال قید کی سزا سنائی گئی جس میں سے دو سال پروبیشن پر تھے یعنی وہ کچھ شرائط کے ساتھ جیل سے باہر وقت گزار سکتا تھا۔

دو سال کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم نے ٹرائل کے لیے ہی دو سال کا انتظار کیا تھا۔

مگر مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ اسے مجرم قرار دیا گیا ہے۔ بہت کم ہی لوگ اس کی رپورٹ درج کرواتے ہیں اور جو ایسا کرتے ہیں ان میں سے بہت کم ٹرائل تک پہنچتے ہیں اور ان میں سے بھی بہت کم افراد کے حق میں فیصلہ آتا ہے۔

چنانچہ آپ یہ بوجھ محسوس کرتے ہیں کہ آپ شکایت بھی نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کو انصاف مل گیا ہے، ہیں نا؟ ہم سب یہی چاہتے ہیں۔ اس لیے اس کے بعد جو ہوتا ہے وہ اتنا پریشان کُن اور غصہ دلانے والا ہوتا ہے کیونکہ معاملہ ختم نہیں ہوا ہوتا۔

میں نے یہ کیا، میں نے اپنا سر بلند رکھا، میں نے رپورٹ درج کروائی، میں اس پر قائم رہی، میں وکیلِ دفاع کی تمام بکواس سنتی رہی اور پھر میں نے اپنا ریپ کرنے والے کے خلاف فیصلہ حاصل کیا۔ مجھے انصاف مل گیا چنانچہ قانونی طور پر یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اس نے میرا ریپ کیا۔

تو بس یہی اختتام ہونا چاہیے۔ مجھے میری خود اعتمادی واپس مل گئی ہے۔ مگر میں نہیں جانتی کہ مجھے واپس ملی ہے یا نہیں۔

ریپ

یہ خواتین کے ساتھ ہر جگہ ہو رہا ہے

کچھ عرصے بعد مجھے ڈپریشن کا صدمہ دوبارہ ہونے لگا۔ میں کوئی ٹی وی شو یا کتاب دیکھ رہی ہوتی اور کوئی ریپ کا منظر آتا تو میری طبعیت خراب ہونے لگتی۔ میرا دل چاہتا کہ کوئی مجھے نہ چھوئے۔ میں ہر وقت اداس رہتی جیسے میرے اعصاب میں آگ بھری ہوئی ہو۔

شاید لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ صدمے کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اپنے ریپ کے مناظر بار بار یاد آتے ہوں گے، مگر اس کے برعکس میرا دماغ ریپ کی متاثرہ دیگر خواتین پر مرکوز رہتا۔ تصور کریں کہ آپ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، کوئی معمول کی گفتگو کر رہے ہیں، اپنا کام کر رہے ہیں اور آپ کے ذہن میں خواتین کے ریپ کے شکار ہونے کی فلم چل رہی ہو۔

کبھی کبھی ہم یہ نہیں سوچتے کہ کسی شخص کے اندر کسی اور شخص کی موجودگی کا مطلب کیا ہو سکتا ہے۔ اگر آپ اپنے جسم میں چل رہی چیزوں پر اختیار نہیں رکھتے تو آپ کو کوئی جسمانی اختیار حاصل نہیں، آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ یہ اس لیے تھا کیونکہ مجھے احساس ہو رہا تھا کہ یہ صرف میں ہی نہیں ہوں، بلکہ ایسا دنیا بھر میں خواتین کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ مکمل طور پر ناقابلِ فرار اور غلبہ انگیز محسوس ہونے لگا۔ یہ میرے ساتھ دوبارہ ہو سکتا تھا یا میرے کسی جاننے والے کے ساتھ، کسی ایسے کے ساتھ جس سے میں پیار کرتی ہوں۔

مجھے آئی موومنٹ ڈی سینسیٹائزیشن اینڈ ریپروسیسنگ (ای ایم ڈی آر) تھیراپی کے لیے بھیج دیا گیا۔ جب آپ سو رہے ہوتے ہیں تو آپ کی آنکھوں میں تیز تر تحرک (ریپڈ آئی موومنٹ) کی وجہ سے آپ کی مختصر مدتی یادداشت طویل مدتی یادداشت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ آپ کی صدمہ انگیز یادیں آپ کی مختصر مدتی یادداشت میں پھنسی ہوتی ہے اور مقصد اسے طویل مدتی یادداشت میں تبدیل کرنا ہوتا ہے تاکہ یہ اتنی تازہ اور صدمہ انگیز نہ رہے۔

تھیراپسٹ آپ سے کہتے ہیں کہ آپ اس صدمے کو اپنے ذہن میں دہرائیں اور وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہراتے ہیں تاکہ آپ کی آنکھوں کو تیز حرکت کرنے پر مجبور کیا جائے۔

بادی النظر میں مجھے لگتا ہے کہ اس سے واقعی مدد ملی ہے کیونکہ یہ اب واقعی ایک پرانی یاد لگتی ہے مگر اس وقت ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ اس سے واقعی مدد مل رہی ہے۔

ریپ

خوشی ہوئی جب اسے ملک بدر کیا گیا

مجھے یاد ہے کہ وہ کرسمس کے موقع پر جیل سے باہر آیا۔

پولیس افسر نے کہا کہ میرے ریپسٹ کو امیگریشن کے محکمے نے بھی روک رکھا ہے مگر وہ اسے ضمانت پر رہا کرنے والے ہیں۔

اس نے انھیں وہ پتے دیے جہاں وہ جا سکتا تھا مگر چونکہ وہ جنسی جرائم میں ملوث افراد کی فہرست میں شامل تھا اس لیے کچھ پتے مسترد کر دیے گئے کیونکہ وہ کمزور افراد یعنی سکول یا اولڈ ہومز کے قریب کے تھے۔

مگر جو پتہ مسترد نہیں ہوا وہ میری رہائش سے 10 منٹ دور تھا۔

میں نے افسر سے پوچھا کہ میں جو واقعی اس کا نشانہ بن چکی ہوں، کیوں ان کمزور افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا کہ امیگریشن کو نہیں معلوم کہ میں کہاں رہتی ہوں اور اگر انھوں نے محکمے کو بتایا تو اسے میرا پتہ معلوم ہو جائے گا کیونکہ اگر محکمے اس پتے کو مسترد کرتا تو اس کے وکیل کو یہ بتانا پڑتا کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے۔

میں اس منطق پر سوچ میں پڑ گئی کیونکہ وہ مجھے نقصان پہنچاتا تو بے وقوف ہی ہوتا کیونکہ سب سے پہلا شک اسی پر آنا تھا۔

میں جہاں رہتی تھی وہاں سے وسطی لندن تک کا ہر راستہ اسی عمومی علاقے سے گزرتا جہاں وہ رہتا تھا۔

ضابطہ یہ تھا کہ اگر وہ مجھے دیکھتا تو اسے فوراً وہاں سے ہٹ جانا تھا اور اپنے نگران افسر کو کال کرنی تھی اور میں یہ سوچ رہی تھی: ’آپ یہ ایک مجرم کے زاویے سے دیکھ رہے ہیں، آپ اسے متاثرہ فرد کے نکتہ نظر سے نہیں دیکھ رہے۔‘

اگر آپ اسے متاثرہ فرد کے زاویے سے دیکھتے تو آپ کہتے: ’اچھا ٹھیک ہے، کیا ہوگا اگر میں اسے دیکھ لوں اور وہ مجھے نہ دیکھے؟‘ یہ اتنا برا بندوبست تھا اور اسے میرے سامنے اطمینان بخش بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔

میرا خیال ہے کہ شاید ایک سال سے کچھ کم عرصے میں اسے ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ مجھے سکون کا احساس ہوا مگر مجھے یہ بھی لگا کہ مجھے خوش محسوس کرنا چاہیے تھا۔

ریپ

میں نے اپنا سمیئر ٹیسٹ کروانے سے انکار کیا

ایک چیز جس کے بارے میں میں سوچ رہی ہوں: ‘کیا مجھے اپنے بچے چاہییں؟ ریپ کے شکار کئی خواتین کے لیے حاملہ ہونا بچے کی پیدائش کے مرحلے سے گزرنا نہایت صدمہ انگیز تجربہ ہو سکتا ہے اور مجھے اس کا احساس کبھی نہیں ہوا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی آپ کو اس بارے میں نہیں بتاتا۔ میں ابھی حاملہ نہیں ہوں اور ہم نے کوشش شروع نہیں کی ہے مگر ریپ کے 15 سال بعد بھی حاملہ ہو سکتی ہوں اور یہ بہت حقیقی اور تازہ تجربہ ہو گا۔

مجھے ڈاکٹروں کو یہ بتانے میں مسئلہ نہیں ہوتا۔ میں نے ایک معائنے کے دوران ان سے کہہ دیا تھا: ’دیکھیں، میں جنسی حملے سے گزر چکی ہوں، میں یہ کر سکتی ہوں مگر آپ کو مجھے پیشگی نوٹس دینا ہو گا، آپ کو مجھ سے اس کے بارے میں بات کرنی ہو گی کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں۔‘

مجھے (ریپ کے بعد) اپنے پہلے سمیئر ٹیسٹ (رحم کے سرطان کی سکریننگ) کا خط ملا مگر میں ایک طویل عرصے تک اس سے کتراتی رہی۔

پھر مجھے ایک فلاحی تنظیم مائی باڈی بیک پروجیکٹ نظر آئی جو بالخصوص جنسی حملوں کے شکار افراد کی سروائیکل سکریننگ اور جنسی امراض کی ٹیسٹنگ کا کام کرتی ہے۔ یہ بہت زبردست لوگ تھے۔ وہ آپ کو پورا مرحلہ سمجھاتے ہیں اور ان کے پاس تجربہ کار ڈاکٹر ہیں جو چیزیں سمجھتے ہیں، اور ان کے پاس ایک شخص ہوتا ہے جو ذہنی کیفیت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

اس تنظیم کا ایک میٹرنٹی یونٹ بھی ہے مگر بچے کی پیدائش تو اپنے ہی شیڈول پر ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر میں ان کے یونٹ تک رسائی حاصل نہ کر سکی تو کیا ہسپتال کے ڈاکٹر اس بات کو سمجھیں گے؟ کیا وہ میری بات سنیں گے؟

میں نہیں جانتی کہ میرے شوہر اس بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ایسا حال ہی میں ہوا ہے کہ میں ان کی جانب سے مجھے پشت سے گلے لگانے کو یا میری گردن چومنے کو برداشت کر سکتی ہوں جب میں برتن وغیرہ دھو رہی ہوں۔

مجھے امید ہے کہ میرے بچوں کے لیے چیزیں مختلف ہوں گی کیونکہ سیکس ایجوکیشن اور رضامندی سے متعلق آگاہی کے حوالے سے کافی پیش رفت ہو رہی ہے۔

میں چاہوں گی کہ ریپ کے بارے میں زیادہ بات کی جائے۔ میں چاہوں گی کہ ہم رضامندی پر بحث نہ کریں۔ میں ریپ سروائیور کے تصور کو چیلنج کرنا چاہتی ہوں۔ ریپ سے گزرنے والے لوگوں کی کئی اقسام ہوتی ہیں کیونکہ لوگ مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے اور یہی سب سے اہم ہے۔

یہ کہانی انھوں نے ریبیکا کیفے کو سُنائی، خاکے بشکریہ کیٹی ہوروِچ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp