فواد چوہدری کی ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل: ’کیا آپ ایسے ماؤں کو جواب دیتے ہیں‘


’یہ مائیں پنجاب میں احتجاج کر سکتی ہیں یہاں کوئی ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر گولی نہیں مارے گا، لیکن پنجاب کی ان ماؤں کے دُکھ کا کیا کریں جن کے بچوں کو بسوں سے نکال کر صرف پنجابی ہونے پر بلوچستان میں (گولیوں سے) چھلنی کیا جاتا ہے؟ یہ تو کہیں کہ ظلم، ظلم ہے اور خون کا رنگ پنجابیوں کا بھی لال ہی ہے۔‘

اگر آپ نے آج صبح سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر نظر دوڑائی ہے تو سوشل میڈیا صارفین کو یہ ٹویٹ لازمی شیئر کرتے دیکھا ہو گا۔

یہ ٹویٹ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی جانب سے کی گئی ہے اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ حال میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی جانب سے لگائے جانے والے احتجاجی کیمپ پر حکومت کی جانب سے دیے جانے والے ابتدائی ردعمل میں سے ایک ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز ہی وفاقی وزیر داخلہ اپنی ایک پریس کانفرنس میں اسی حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب یہ کہہ کر دے چکے ہیں کہ حکومت مسنگ پرسنز کے معاملے کو دیکھ رہی ہے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا ان میں کتنے اصل لاپتہ افراد ہیں اور کتنے خود سے ’مِس‘ ہوئے ہیں۔

درحقیقت فواد چوہدری نے ٹویٹ سوشل میڈیا صارف طوبیٰ سید کی ایک ٹویٹ کے جواب میں پوسٹ کی ہے۔ طوبی سید نے لکھا تھا کہ ’بلوچ مائیں ڈی چوک کی جانب واک کر رہی ہیں، اپنے بیٹوں کے لیے انصاف کا تقاضہ کرنے کے لیے اور ان کی گھروں کو محفوظ واپسی کے لیے۔ سال ہا سال گزر گئے ہیں مگر یہ عورتیں اپنے بچوں کی منتظر ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

لاپتہ افراد: مریم کی تقریر، وعدے اور امتحان

11 سال سے لاپتہ والد کی راہ تکتی سمی بلوچ کی کہانی

یاد رہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کا یہ کیمپ سات روز سے اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے لگایا گیا تھا۔ اس کیمپ میں موجود افراد میں سے بیشتر بلوچ خواتین ہیں جن کے ہمراہ بچے بھی ہیں جبکہ مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں کم ہے۔ یہ خواتین اور بچے اب ڈی چوک تک مارچ کر کے وہاں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

طوبیٰ سید کی جانب سے کی جانے والی ٹویٹ پر فواد چوہدری کا جواب بہت سے سوشل میڈیا صارفین کو کچھ اچھا نہیں لگا اور انھوں نے اسے لاپتہ افراد کے مسئلے سے ’توجہ ہٹانے‘، لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی ’توہین‘ اور ’صوبائیت کو ہوا دینے‘ کی کوشش قرار دیا ہے۔ لیکن ایسے صارفین بھی دکھائی دیے جنھوں نے وفاقی وزیر کی توثیق کی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ ان کی ٹویٹ پر لوگ اُن پر تنقید نہیں کر رہے بلکہ ان کی تعریف کی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پنجاب کے لیے بات کریں تو تنقید ہو جاتی ہے باقیوں کے لیے کریں تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ میری ٹویٹ کو کوئی غلط نہیں لے رہا صرف وہ لوگ تنقید کر رہے ہیں جن کے ویسٹڈ انٹرسٹ ہیں۔‘

سماجی کارکن ندا کرمانی نے لکھا کہ ’کیا آپ ایسے ماؤں کو جواب دیتے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ وہ ان اموات کی ذمہ دار ہیں؟ اور یہ اموات کیا ریاست کے تشدد کو جواز دیتی ہیں؟ آپ کی ٹویٹ نے لسانی نفرت پیدا کی ہے جو یہ تاثر دیتی ہے کہ بلوچ اجتماعی طور پر اس کے ذمہ دار ہیں اور اس لیے انھیں اجتماعی سزا ملنی چاہیے۔‘

رابعہ محمود نامی صارف نے فواد چوہدری کی اس ٹویٹ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ غمزدہ بلوچ ماؤں کی بے عزتی کرنے اور بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کو نشانہ بنانے اور دو دہائیوں سے بلوچوں کی ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کو ایک جیسا معاملہ قرار دینے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔‘ انھوں نے لکھا کہ یہ تو ایسا ہی ہے کہ آپ شدت پسندوں اور پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیز کو ایک جیسا دکھائیں۔

مزمل رحیم نے لکھا کہ ’یعنی آپ ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ ہم ہی بےوقوف ہیں جو آپ سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔‘

ٹوئٹر صارف الیہہ ملک نے فواد چوہدری کے ردعمل کو ’حیران کُن‘ قرار دیتے ہوئے کہا اور لکھا کہ جب ایک حکومتی نمائندہ ہی ایسی باتیں کرتا ہے تو ہم دوسروں سے کیا گلہ کریں۔‘

ثاقب جنجوعہ نے چوہدری فواد کے نام پیغام لکھا ’جناب والا یہ اچھا موازنہ نہیں ہے۔ براہ کرم پنجاب، بلوچ کارڈ سے پرہیز کیجیے۔ آئینی طور پر یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انھیں سُنیں۔‘

ایک صارف کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کی ٹویٹ معصوم بلوچوں کے ذہنوں میں لسانی تعصب اور اشتعال پیدا کرے گی۔ انھوں نے سوال کیا کہ ’کیا آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ان اندہوناک واقعات کے لیے یہ مائیں بہنیں ذمہ دار ہیں۔‘

عدنان خان محمود نے ٹوئٹ کی کہ ’یہ احتجاج وفاقی دارلحکومت میں ہو رہا ہے۔ بحثیت حکومتی نمائندہ آپ کو یہ تفریق نہیں کرنی چاہیے تھی۔ کیونکہ ریاست ماں ہوتی ہے۔ لیکن آپ کی تحریر سے لگ رہا ہے کہ ریاست بلوچوں کے لیے سوتیلی ماں کا کردار ادا کر رہی ہے۔‘

لیکن تمام صارفین فواد چوہدری پر تنقید نہیں کر رہے۔ سرفراز حبیب نے لکھا کہ چوہدری صاحب کی بات 110 فیصد درست ہے۔ عرفان ارشد نے بھی کہا ’بالکل بجا‘۔

صائم خان نے لکھا پہلی دفعہ متفق ہوں آپ کی بات سے۔

عامر نامی صارف نے لکھا کہ بالکل درست، یہ پراپیگنڈا ایک بار پھر پھیلایا جا رہا ہے۔‘

بلوچ لاپتہ افراد کے اہلخانہ اب اسلام آباد کے ڈی چوک میں موجود ہیں اور پاکستان مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز اس وقت کیمپ میں موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32465 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp