سینیٹ کا سرکس اور جادوئی آئینہ


قدیم ایران میں دنیا کے حالات جاننے کے لیے جادوئی پیالے ”جام جمشید“ سے کام لیا جاتا تھا۔ طلسماتی کہانیوں کے بادشاہ اپنی سلطنتوں کے حال اور مستقبل کی مشکلات جادوگر کے آئینے کی مدد سے جان لیا کرتے تھے۔

ان دنوں اگر وزیراعظم عمران خان جادوئی آئینہ استعمال کریں تو پہلی نظر میں تو سکون حاصل ہو گا۔ بدترین سیاسی حریفوں کی، صحرا میں منزل کی ناکام تلاش میں بھٹکے مسافروں کی طرح سانسیں اکھڑی، اکھڑی نظر آئیں گیں۔ جنوری بھی گزر گیا، نہ کوئی سیاسی طوفان بلکہ سردی کی ہوائیں بھی اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کی طرح تھم سی گئی ہیں۔

نہ استعفے نہ حکومت کا خاتمہ، دھرنا نہ احتجاج۔ اقتدار کے سدا بہار کھلاڑی شیخ رشید اور بابر اعوان ہوا میں ہاتھ اٹھا اٹھا کر تعریفوں کے پل باندھ رہے ہوں گے، ”ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا۔ پانچ سال پکے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی نظر کرم ہم پر ہے۔ آپ کے دور کا بول بالا ہو۔“

لیکن جادوئی آئینے کا رخ ذرا سا پلٹا جائے تو عمران خان صاحب کی اطمینان کی سانسیں اضطراب میں بدلتی نظر آئیں گی۔ کچھ دیر قبل، جو سیاسی حریف صحرا میں بھٹکتے مسافروں کی طرح دکھ رہے تھے، وہ اب نئے سیاسی جھرنے سے توانائیاں حاصل کر کے ایک اور لڑائی کے لیے تیار نظر آرہے ہیں۔ وہ سینیٹ انتخابات کے ’میدان جنگ‘ میں حتمی صف بندی میں مصروف ہیں۔

اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کی شطرنج کی بساط کے سپاہ سالار زرداری نظر آتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان قدرے پس منظر میں ہیں۔ جہاں سیاسی جوڑ توڑ ہو، وہاں زرداری صاحب کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔ خیر عمران خان صاحب کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین، جن سے آج کل قربتیں فاصلوں میں تبدیل ہو گئی ہیں، سیاسی حریفوں کی نظر میں ایک سیاسی سرمایہ دار ہی تھے۔ ان کی اس موسم میں تحریک انصاف کو ان کی کمی تو محسوس ہو رہی ہو گی۔

اراکین قومی اسمبلی کے ہوں یا صوبائی اسمبلیوں کے، اپوزیشن جماعتوں سے تعلق ہو یا حکمراں جماعت سے، ان دنوں ہیرے جواہرات سے زیادہ قیمتی ہیں۔ اس وقت سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے لیکن تین مارچ کے انتخابات میں بظاہر تحریک انصاف برتری حاصل کر سکتی ہے اور اسی کی کھینچا تانی ہے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ عمران خان کی اس برتری کے مواقع کو کمزور کیا جائے۔

وزیراعظم عمران خان کو سینیٹ کا کنٹرول چاہیے۔ ان کو مستقبل میں قانون سازی کے لیے اپوزیشن کی محتاجی نہیں رہے گی۔ ناقدین کے اس تاثر کو زائل کرنے کا موقع ملے گا کہ ان کے اقتدار کی ناؤ اسٹیبلشمنٹ کے چپوؤں سے نہیں بلکہ ان کے اپنے سیاسی بازوؤں کے زور پر چل رہی ہے۔

کرکٹ ہو یا سیاست کی کپتانی، عمران خان قیادت کے لیے انتہائی کنٹرول کے متمنی رہتے ہیں۔ لیکن اس لڑائی میں مقابلہ تجربہ کار سیاسی کھلاڑیوں سے ہے، جس کی پس پردہ قیادت سابق صدر زرداری کر رہے ہیں۔ بلاول اور مریم سامنے ہیں لیکن فیصلہ سازی نواز شریف اور زرداری صاحب کے ہاتھوں ہے۔

نواز شریف کی براہ راست اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کی بظاہر ناکامی کے بعد سینیٹ انتخابات کے لیے اپوزیشن کی فیصلہ سازی کی چھڑی زرداری کے پاس ہے۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمان زرداری صاحب سے نالاں نظر آتے ہیں۔ سینیٹ کا میدان جنگ، جہاں اپوزیشن کی بقاء کے لیے ضروری ہے، وہاں زرداری صاحب کے لیے کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ کو واپس حاصل کرنا بھی ایک مقصد ہے۔

آصف علی زرداری سمجھتے ہیں کہ سن دو ہزار اٹھارہ کے سینیٹ انتخابات میں ان کے ساتھ دھوکا ہوا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی آشیرواد حاصل کرنا مقصود تھا۔ خواہشات کسی کی بھی ہوں، زرداری آلہ کار بن گئے۔ نئی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی وجود میں آئی، جسے سیاسی حلقوں میں ”مائی باپ“ کی جماعت کا ٹائٹل دیا گیا۔ بلوچستان حکومت ان کے حوالے ہوئی۔ نواز شریف اور مولانا کی رضا ربانی کو چیئرمین بنانے کی تجویز کو بھی ٹھکرایا۔ بالآخر صادق سنجرانی سینیٹ کے چئیر مین بن گئے۔ آشیرواد کی تمناؤں کے بجائے جھولی میں منوں سیاسی خواری کی دھول اکٹھی ہوئی۔

زرداری صاحب نے اس مرتبہ نواز شریف کو اعتماد میں لے کر ایک جارحانہ چال چلی ہے۔ تجربہ کار یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹ کے امیدوار کی حیثیت سے کھڑا کیا ہے۔ اسلام آباد سے منتخب ہونے کے لیے قومی اسمبلی کے اراکین کے ووٹ درکار ہوتے ہیں، جہاں تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں کی اکثریت ہے۔ حکومت کے امیدوار وزیر خزانہ شیخ حفیظ ہیں۔

اگر گیلانی کو صرف سینیٹر منتخب کرانا ہوتا تو انہیں سندھ سے پی پی پی کی طاقت پر با آسانی منتخب کروا لیتے لیکن اب وہ پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار نظر آتے ہیں۔

اگر گیلانی منتخب ہو جاتے ہیں تو یہ عمران خان کے لیے پارلیمنٹ میں ایک طرح سے عدم اعتماد کی تحریک ہو گی۔

زرداری صاحب، جہاں اپوزیشن اتحاد میں حاوی ہونا چاہتے ہیں، وہاں اسٹیبلشمنٹ کے لیے شاید پیغام ہے کہ ان کی سیاسی اننگز ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یاد تو ہو گا کہ گیلانی زرداری کی اسٹیبلشمنٹ اور اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ کشیدگی کی نظر ہو گئے تھے۔

موجودہ سیاسی ماحول میں گیلانی بمقابلہ حفیظ شیخ دراصل پی ڈی ایم بمقابلہ حکومت مقابلہ بنتا جا رہا ہے۔ اگر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو شکست ہوتی ہے تو زرداری صاحب کی ساکھ اور پی ڈی ایم، جو حکومت مخالف تحریک میں اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

عمران خان سینیٹ انتخابات میں رائج خفیہ ووٹنگ کے طریقہ کار کو تبدیل کر کے اوپن ووٹنگ یا شو آف ہینڈز اپنانا چاہتے ہیں تاکہ اراکین کی خرید و فروخت ختم ہو سکے۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی ہوئی ہے۔ ساتھ ہی صدارتی آرڈیننس بھی جاری کر دیا ہے کہ الیکشن اوپن ووٹنگ سے کرایا جائے جبکہ اپوزیشن فی الوقت خفیہ ووٹنگ ہی چاہتی ہے۔ گزشتہ سینیٹ الیکشن کی ویڈیو بھی لیک ہوئی، جس میں تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکین مبینہ طور پر کروڑوں کی رقم تھیلے بھر بھر کر وصول کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بھر مار ہے۔

سینیٹ کے الیکشن میں خرید فروخت کی مثال ماضی میں بھی ملتی ہے۔ ایک عرصے تک سابقہ قبائلی علاقے کے سینیٹرز کی حمایت کروڑوں کے عوض ہمیشہ حکومت کی جھولی میں گرتی تھی۔ بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں اس وقت ایک صوبائی اسمبلی کے رکن کی قیمت سات کروڑ بتائی جا رہی ہے۔ اس طرح ایک سینیٹر کو اگر سات ووٹوں کی ضرورت ہے تو اس کے لیے پینتالیس سے پچاس کروڑ لگتے ہیں۔

کبھی کبھار تو رقم کے ساتھ لینڈ کروزر کے رنگ کی چوائس بھی ڈھٹائی سے بتائی جاتی ہے۔

بد قسمتی سے ہر جماعت میں سرمایہ دار ایسے موسم میں سرگرم ہو جاتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کی بنیادوں میں سے نظریات کی سیاست کو مادی چمک دھمک کی دیمک سے کمزور کرتے ہیں۔

اس طرح اس کمزور پارلیمانی نظام کو یکسر بدلنے کی سازشیوں کو تقویت ملتی ہے۔ عدلیہ کے فیصلے کا انتظار ہے کہ سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ کے طریقے سے ہوگا یا حکومت کی شو آف ہینڈز کی دلی خواہش بر آئے گی۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی جماعتیں اس خرید و فروخت کو ختم کرنا چاہتیں ہیں یا پھر طریقہ کار کی تبدیلی کے نام پر عارضی سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

گزشتہ سال جب چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد تحریک لائی گئی تو اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود خفیہ ووٹنگ میں چودہ اراکین نے ضمیر کا سودا کیا تھا۔ اس وقت تحریک انصاف کے اراکین خوشیاں منا رہے تھے۔ ووٹنگ خفیہ ہو یا شو آف ہینڈز کے ذریعے، سینیٹ الیکشن کے میدان جنگ میں عمران خان ہوں یا نواز شریف یا زرداری بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔

لڑائی کے لیے مارچ یعنی موسم بہار کا چناؤ۔ کس کے نصیب میں موسم بہار اور کس کی قسمت کی جھولی میں موسم بہار میں خزاں کا پت جھڑ۔ اگر سینیٹ کا ادارہ عزت و وقار حاصل کرنے کے بجائے سیاستدانوں کی خرید و فروخت کی منڈی بن جائے تو ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام کی قسمت میں ماضی کی طرح مستقبل میں بھی موسم خزاں ہی رہے گا۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے۔

اویس توحید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس توحید

اویس توحید ملک کے معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں ای میل ایڈریس owaistohid@gmail.com Twitter: @OwaisTohid

owais-tohid has 34 posts and counting.See all posts by owais-tohid

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments