آئینے کے پیچھے


پیاری امی جان

خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ لوگ سب خیریت سے ہیں۔ آج ہی آپ کا خط ملا اور آج ہی آپ کو جواب دے رہا ہوں۔ آج جمعہ کا دن ہے۔ دوپہر کو چھٹی لے کر جمعہ کی نماز پڑنے اسلامک سینٹر گیا تھا۔ واپس آیا تو آپ کا خط میز پر رکھا ہوا تھا۔ جب بھی جمعہ کو چھٹی مل سکتی ہے تو جمعہ کی نماز پڑھنے ضرور جاتا ہوں۔ یہ اچھے لوگ ہیں۔ جو ڈاکٹر جمعہ، ہفتہ، اتوار کام کرتا ہے، مجھے عام طور پر جمعہ کے دن کور کر دیتا ہے۔ ہر مرتبہ جب ہفتہ اتوار آتا ہے تو آپ لوگ بری طرح سے یاد آتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ پہاڑ جیسا ویک اینڈ کیسے گزرے گا۔ اجنبی ملک کے اجنبی لوگوں کے درمیان میں ایک ایسے تنکے کی طرح ہوں جو سمندر کی لہروں میں ہچکولے ہی لیتا رہتا ہے، جس کی نہ کوئی منزل ہے اور نہ کوئی ٹھکانہ۔

میرا کام ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ میری یہ جاب تین مہینوں میں ختم ہو جائے گی۔ اس کے بعد مجھے لیور پول میں جاب مل گئی ہے۔ لیور پول اچھی جگہ ہے مگر مانچسٹر کی طرح بہت سارے پاکستانی وہاں نہیں ہیں۔ اگلے جاب کے دوران ایک کورس کرنے لندن جاؤں گا اور اس کے بعد پارٹ ٹو کا امتحان دوں گا۔ امید تو یہی ہے کہ یہ امتحان بھی پچھلے امتحان کی طرح پہلی مرتبہ میں ہی نکال دوں گا۔ اس کے بعد میرا پاکستان آنا ہو گا۔

میری نئی کار بالکل ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے مگر جب بھی کار چلاتا ہوں تو آپ سب لوگ بے انتہا یاد آتے ہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ ابو، آپ، آپا، ریحان سلمیٰ، نجمہ اور ماجد سب لوگ میرے پاس ہوتے، میں کار میں آپ لوگوں کو گھماتا اور نہ جانے کیا کیا کرتا۔ میں تو اس انگلینڈ کی زندگی سے بیزار ہو گیا ہوں۔ آپ کے پکائے ہوئے پائے، آپا کے بنائے ہوئے قیمہ اور اور مٹر کو ترس گیا ہوں ان لوگوں کے بے مزا کھانے کھا کھا کر۔

زاہد نے گھڑی دیکھی تو آٹھ بج چکے تھے۔ پارٹی کا وقت ہونے والا تھا۔ اس کو پارٹی کی تیاری بھی کرنی تھی۔ جمعہ کی رات کی پارٹی اچھی ہوتی ہے۔ اس دفعہ پارٹی ٹاپ گن میں تھی۔ وہسکی، لاگر بیئر، پنیر، وائن، کھانا، ڈانس ہر چیز کا انتظام تھا اور پارٹی کے بعد کیا ہو گا، کون کس کے ساتھ ہو گا، ابھی سے اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مگر زاہد کے ذہن میں ٹریسی تھی۔ پچھلی پارٹی میں ہی اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگلی پارٹی کی رات ٹریسی کی رات ہو گی۔

بہت دن سے اس لڑکی پر اس کی نظر تھی مگر قسمت کی خرابی یہ تھی کہ جس پارٹی میں ٹریسی ہوتی، اس رات زاہد کام کر رہا ہوتا تھا اور جب زاہد فارغ تھا تو ٹریسی کی ڈیوٹی ہوتی۔ آج کی رات بہت انتظار کے بعد آئی تھی۔ آج وہ بھی فری تھا اور ٹریسی بھی فارغ تھی۔ وہ بھی پارٹی میں آ رہی تھی اور زاہد نے Dirty Weekend کا پلان بنا لیا تھا۔ اس نے مسکراتی ہوئی نظر کے ساتھ کمرے کا جائزہ لیا، کمرہ روز کی طرح صاف ستھرا تھا۔ میز کے سرہانے پر جون کونز کی برہنہ تصویر لگی ہوئی تھی، ایک مکار مسکراہٹ کے ساتھ۔

دروازے کے پیچھے پلے بوائے کے کچھ انتخاب مسکرا رہے تھے۔ دیواروں پر مختلف ماڈل گرلز کی اشتہا انگیز تصاویر مسکرا رہی تھیں۔ اس کی نظر گھومتے ہوئے ٹیبل پر چلی گئی تھی جہاں سرجری کی کتابوں کے اوپر امی اور ابو کی تصویر تھی اور تصویر کے ساتھ ہی اس کو ادھورے خط کا خیال آ گیا۔ آج خط کا جواب ضرور دینا تھا۔ تقریباً ہفتہ ہو گیا تھا اس خط کو آئے ہوئے مگر اس کو جواب لکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ حقیقت میں موقع تو ملا تھا مگر سستی کی وجہ سے جواب نہیں دے سکا تھا۔

امی کے خط کا جواب، دنیا کا سب سے مشکل کام تھا۔ وہی بے کار کی باتیں، چند مکالمے، وہی گھسے پٹے قصے، عید، جمعہ یا پھر عید کی نماز کا ذکر یا رمضان کا قصہ، یہ کہ وہ کس طرح شب برات کے حلوؤں کو ترس گیا ہے یا اس سال محرم بغیر شام غریباں کے گزر گیا اور جب رات گزر گئی تو پتا لگا کہ کل شب معراج تھی اور آخر میں یہ کہ بہت جلد وہ پاکستان واپس آنے والا ہے۔ زاہد نے خط پر دوبارہ نظر ڈالی، پارٹی کا وقت قریب آ چکا تھا لیکن اس نے سوچا کہ خط مکمل کر لیا جائے۔

”اکتا گیا ہوں۔ اب تو یہی دل چاہتا ہے کہ فوراً پاکستان چلا آؤں۔ اپنے وطن اپنے لوگوں کی کیا بات ہے۔“

زاہد نے لائن مکمل کی ہی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ یہ طارق تھا، خوشبو میں نہایا ہوا، رنگین قمیض پر خوبصورت ٹائی لگائے ہوئے پارٹی کے لیے مکمل طور پر تیار تھا۔ ”یار تم بھی عجیب آدمی ہو۔ ابھی تک بیٹھے ہوئے ہو اور وہاں حسینائیں ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔“ زاہد نے خط کا کام کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھا اور تیار ہونے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ ”درست دس منٹ سے زیادہ نہیں لگاؤں گا۔ بس ذرا انتظار کر۔ فریج میں بیئر رکھی ہے پیو یا کچن میں کافی بنا لو۔“

”یار دارو تو پارٹی میں پی جائے گی۔ فی الحال تو کافی ہی پیتے ہیں۔ تمہارے لیے بھی ایک پیالی بنا لیتا ہوں۔ بس تم تیار ہو جاؤ، نو بجے کی خبریں سن کر چلتے ہیں۔“ طارق کچن میں کافی بنانے میں لگ گیا اور زاہد نے تیاری شروع کر دی۔ گرما گرم شاور، شوخ رنگ کی قمیض، براؤن پینٹ اور لیزا کی دی ہوئی براؤن ٹائی، اس کے اوپر سے آفٹر شیو اور پرفیوم کی یلغار۔ بال سکھا کر اس نے برش کیا اور آئینے میں اپنے آپ کو آنکھ ماری تو اسے ٹریسی کا خیال آ گیا۔ کہاں بچ کر جائے گی آج۔ آج کی رات ٹریسی کی رات ہے، ابھی وہ ٹریسی کے تصور میں مگن ہی تھا کہ طارق کی آواز آئی ”ارے یار، آ بھی جاؤ کافی تیار ہے۔“

نو بجے کوئی خاص خبر نہیں تھی۔ آئرلینڈ میں بم کا دھماکہ۔ پولینڈ کی صورتحال بگڑ رہی ہے۔ افغانستان میں روس زیادتی کر رہا ہے۔ بیروت میں خانہ جنگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ قذافی نے نئی دھمکی دے دی ہے۔ خمینی کی موت کی افواہیں پھیل رہی ہیں۔ وہی روز کی گھسی پٹی خبریں تھیں۔ خبروں کے درمیان ہی دونوں کی کافی ختم ہو گئی۔ طارق زاہد کو اپنے پروگرام کے بارے میں بتا رہا تھا اور زاہد ٹریسی کے گرما گرم جسم کے تصور میں غلطاں تھا۔ ”یار، اگر یہ پارٹیاں نہ ہوں تو ہم پرائے ملک کے ڈاکٹروں کی تو جان ہی نکل جائے۔ اور تو تفریح کا کوئی ذریعہ ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو فرصت نہیں ہے۔“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments