خوبصورت آنکھوں میں بولتی خاموشی اور کتاب سے پیار کرنے والا زاہد ڈار


رات کا آخری پہر تھا جب آنکھ کھل گئی۔ ہم بڈھے لوگ بھی اب کچھ دعائیں پڑھنے کی بجائے موبائل کو ہاتھ مارنے لگتے ہیں۔ زاہد ڈار کی تصویر تھی۔ نیچے اس کی ایک نظم۔ ”یا اللہ خیر“ بے اختیار ہونٹوں سے نکلا۔ تاہم کوئی خبر نہیں تھی۔ سوچا کسی چاہنے والے  نے یہ پوسٹ لگائی ہو گی۔ دن میں موبائل سے کھیلنے کا موقع کم ہی ملتا ہے۔ سو رات کو یہ خبر مل گئی کہ شہر ادب کا سب سے زیادہ ادب پڑھنے والا کوچ کر گیا ہے۔ پہلا جملہ جو یاد آیا وہ آمنہ مفتی کا تھا جو عرصہ ہوا میری ذہنی دیواروں سے چپک سا گیا تھا۔ انتظار حسین کی وفات پر پاک ٹی ہاؤس میں ان پر جو تحریر اس نے پڑھی اس کا عنوان ہی یہی تھا۔

”زاہد ڈار کا اب کیا ہو گا۔“
لیجیے جو ہونا تھا ہو گیا؟ راہی منزل پر پہنچ گیا۔

پھر پتہ نہیں کیا ہوا؟ اپنا انجام یاد آ گیا یا زاہد ڈار سے محبت نے جوش مارا کہ آنسو بہنے لگے۔ اتنے بہے کہ آخر کار مجھے انہیں ڈانٹنا پڑا۔ ”کمبختو بس کرو اب۔ آنکھیں تو پہلے ہی مریض بنی ہوئی ہیں۔“

پتہ نہیں کشور ناہید کے بچے کیوں یاد آئے؟ کیا دور دیسوں میں بسنے والوں نے اس کی موت پر اپنی مصروف زندگی میں سے چند لمحے نکال کر اس شخص بارے سوچا ہو گا جو ان سے بہت پیار کرتا تھا۔ کشور ایک منظم اور سخت گیر ماں تھی۔ بچوں کو شام کو باقاعدگی سے خود ہوم ورک کرواتی اور پڑھاتی تھی۔ پڑھائی کے چنگل میں پھنسے بچوں کے لیے زاہد ڈار کی آمد جیسے حبس زدہ موسم میں خوشگوار جھونکے کی سی ہوتی۔ اب کشور لاکھ چیخے چلائے کہ ہوم ورک تو پورا کر لو ،بچے اس کی کہاں سنتے؟ کہاں کا ہوم ورک؟ ان کا محبوب انکل ان سے کھیلنے آ گیا تھا۔

ایک یاد اور آنکھوں کو گیلا کر گئی ہے۔

ایک شام کی بات ہے۔ میں گھر کا سودا سلف لینے سٹیڈیم کے ہاپئر سٹار میں گئی ہوئی تھی جب موبائل کی گھنٹی بجی۔ انتظار صاحب تھے۔ ”ارے بھئی کہاں ہو تم؟“

”حکم کریں۔ جناب“

”بھئی میں نے مسعود اشعر کی طرف جانا تھا۔ اب عین وقت پر ڈرائیور کا فون آ گیا کہ وہ نہیں آ سکتا۔ اب تمہیں فون کر رہا ہوں۔“ ”پریشان نہ ہوں۔ میں آ رہی ہوں۔“ شاپنگ کینسل کی اور بھاگی۔ انتظار صاحب کے گھر پہنچی تو ان کے ساتھ زاہد ڈار بھی تھے۔ دونوں کو پیچھے بٹھایا اور اپنے گھر آئی۔ گاڑی چھوٹی تھی۔ انہیں بٹھاتے ہوئے مجھے احساس ہوا تھا کہ انتظار صاحب اپنے گوڈوں کو اچھی طرح ہلا جلا نہیں سکیں گے۔ سوچا کہ بڑی گاڑی ٹھیک رہے گی۔ اب جب ڈرائیور  نے گاڑی نکالی اور میں نے انہیں اس میں بیٹھنے کو کہا تو وہ بڑے جزبز ہوئے اور اپنے مخصوص انداز میں بولے۔

”بھئی ہم تو اس میں ٹھیک ہیں۔ اب تم دیر کروا رہی ہو۔ وہاں میرا انتظار ہو رہا ہو گا۔“

”اس ٹھیک اور صحیح کو تو چھوڑئیے اور آپ نے کون سا وہاں کسی ایسی میٹنگ میں جانا ہے جہاں وقت کی پابندی بہت ضرور ی ہے۔ رہا آپ کا انتظار تو وہاں آپ کے چاہنے والے ہی تو ہوں گے آپ کا بیٹا ایرج اور آپ کے جگری یار۔

میری اور ان کی اس بحث مباحثے میں زاہد ڈار ایک لفظ نہیں بولے ، میں اس جانب کے شیشے سے چہرہ اندر کیے اس مکالمہ بازی میں الجھی ہوئی تھی جس طرف زاہد ڈار بیٹھے تھے۔ دفعتاً مجھے احساس ہوا زاہد ڈار کا پاجامہ ملگجا سا ہے۔ چہرہ دیکھا۔ خوبصورت آنکھوں میں جیسے سناٹا تھا اور ہونٹوں پر ایک جامد خاموشی۔

دل کو کچھ ہونے لگا تھا۔ جی چاہا ابھی زاہد ڈارکا ہاتھ پکڑ کر اتار لوں۔ گھر میں سفید کلف لگے استری شدہ دو تین پاجامے تھے۔ قمیض بھی تھیں۔ بڑے بیٹے کا سائز اتنا ہی تھا۔ کپڑے بدلوا دوں۔ مگر میں کچھ کہہ نہ سکی، کچھ کر نہ کر سکی۔ ڈرائیور  نے گاڑی چلا دی۔ گیٹ پر کھڑی آنکھوں میں گھس آنے والی نمی کو ہی صاف کرتی رہی۔

انتظار صاحب کا گھر چھٹا تو ریڈنگز ٹھکانہ بن گیا۔ ڈاکٹر شہریار کی بھی عملے کو خصوصی تاکید تھی کہ زاہد ڈار کے کھانے پینے اور چائے کا خصوصی خیال رکھیں۔ ریڈنگز پر جانا تو ہوتا ہی تھا۔ وقت ہوتا تو میں زاہد ڈار سے ملتے چلی جاتی۔ ایسی ہی ایک ملاقات میں مجھے محسوس ہوا ان کی طبیعت بہت خراب ہے۔ موشنز لگے ہوئے ہیں۔ پیٹ تو ان کا سدا کا گڑبڑی کرتا رہتا تھا۔ دوائیاں پھانکتے رہتے تھے۔ میرے ساتھ ہی وہ اٹھ کر باہر آ گئے۔ اب میں کھڑی ان کی منتیں کر رہی ہوں کہ میں آپ کو ڈراپ کر دیتی ہوں مگر وہ ہیں کہ مسلسل انکار کر رہے ہیں۔ اب سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انہیں اٹھا کر گاڑی میں ڈال لوں۔ مگر نہ گاڑی میں ڈال سکی اور نہ انہیں یہ کہہ سکی کہ جوانی میں اتنے خوبصورت تھے شادی ہی کر لیتے۔

انتظار صاحب کے گھر جاتی تو انہیں کونے میں کتاب میں گم بیٹھے دیکھتی۔ ڈرائنگ روم سے آگے انتظار صاحب کا کمرہ تھا۔ کتابوں کی الماریوں میں گھرا ہوا ان کا بیڈ۔ کھڑکی کی جانب ایک صوفہ اور دوسری اہم چیز کتاب پڑھتے ہوئے زاہد ڈار۔

رات کو ایرج مبارک کا فون تھا۔ گلوگیر سی آواز میں انہوں نے کہا تھا۔ آپا زاہد ڈار بھی چلا گیا ہے۔ اب میرے درد کو بھی ایرج جیسے دانشور، مخلص اور پیاری ہستی کا سہارا ملا تو بولنے لگی۔ کتنی دیر ہم باتیں کرتے رہے۔

میں سوچتی رہی ہم کیسے لوگ ہیں؟ ہم کیسی قوم ہیں؟ کاش ہم  نے انتظار صاحب کے گھر کو میوزیم بنایا ہوتا اور وہاں کے ایک گوشے کو زاہد ڈار کے نام سے مخصوص کیا ہوتا تو ہم جیسے پاگل جنونی اور محبت والے لوگ وہاں اکٹھے ہوتے، تھوڑی باتیں کرتے، خوش ہوتے۔ اس صاحب علم ہستی کی خوشبو بسی فضا میں سانس لیتے اور کہتے۔ ہم نے زاہد ڈار کی قربت کو محسوس کیا ہے۔

”داستان سرائے“ بھی بک گیا ہے۔ شاید صدیقہ جاوید کی بیٹی سویلا نے خریدا ہے۔ اپنے بچوں کے لیے کہ ان کے دادا دادی کا محنت سے بنایا گھر ہے۔ اثیر بھی وہاں سے چلا گیا ہے۔ وہ گھر اور اس کے مکین کاش ہم ان بڑے لوگوں کی عظمتوں کو پہچان سکتے۔ ہم جیسے چھوٹے لوگ اور چھوٹے لکھنے والے جب کبھی ان سے ملنے گئے تویہ ممکن ہی نہ تھا کہ اگر کھانے کا وقت ہوتا تو وہ ہاتھ تھام کر محبت سے کھانے کی میز پر نہ لاتے۔ بانو آپا اگر بڑے ادیبوں کے ساتھ کوئی محفل سجا رہی ہیں تو ہم چھوٹے لوگوں کو بلانا نہ بھولتیں۔ کاش! ان کا گھر میوزیم بن جاتا۔ کاش منٹو کے گھر کو بھی اسی صف میں کھڑا کر دیتے۔ لاہور تب کتنا امیر ہو جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments