پھٹا پوسٹر نکلا گستاخ


ابھی پچھلی صدی کے وسط کی بات ہے جب ہمارے بزرگوں کو کہا گیا تھا کہ جہاں آپ رہتے ہیں وہاں اب ایک آزاد ملک پاکستان کے نام سے بن چکا ہے۔ میرے مرحوم بابا سائیں کہتے تھے کہ تب ہمارا لڑکپن تھا اور تعلیم صفر، اس لئے گھر والوں نے کام دھندے پر لگا دیا تھا۔ انہوں نے بڑھئی/ترکھان کا آبائی پیشہ اپنایا اور بقول ان کے اتنی مہارت حاصل کر لی تھی کہ اگر دو بندے صبح شروعات کرتے تو شام تک ایک پوری بیل گاڑی جوڑ لیتے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ لوکل مینوفیکچرنگ کا کام کرتے تھے۔

انہی دنوں بابا سائیں کو شوق چڑھا کہ کسی دن کام سے ناغہ کر کے نکل پڑیں اور جا کر وہ آزاد ملک پاکستان دیکھ آئیں جو کہ ان کے ہی علاقے میں کہیں بنا تھا۔ وہ جہاں رہتے تھے وہ ایک ریاست (پرنسلی اسٹیٹ) تھی ، وہاں ہزہائینیس سرکار میر صاحب کی حکومت تھی اور بقول بابا، ان کے مطابق آزاد ملک کا تصور ایک ایسی ریاست کا تھا جس کا کوئی والی نہ ہو گا اور وہاں ہر کوئی ہزہائی نس ہو گا۔ مطلب کوئی کسی کو جواب دہ نہ ہو گا۔ ہر کوئی آزاد، چاہے جو کرے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو گا۔ یہ تو جب ملک کو کئی ٹانکے لگا کر ون یونٹ کیا گیا اور باہر کے لوگ (ریاست سے باہر کے لوگ) یہاں اعلیٰ عہدوں پہ آ کر بیٹھے تب لوگوں کو پتا چلا کہ پاکستان کیا ہے اور ہم کیا؟

میں اکثر سوچتا ہوں کہ آزاد ملک کا جو تصور میرے نہ پڑھے لکھے بابا کے دماغ میں تھا (میں ان کو ان پڑھ نہیں کہتا کیونکہ انہوں نے نہ صرف اپنی بیوی (ہماری اماں) جو کہ ان سے عمر میں آدھی تھیں، ان کو پڑھنے کی اجازت دی بلکہ ان کو اپنی قابلیت کے مطابق نوکری کرنے کی بھی اجازت دی جس کی وجہ سے آج ان کی اولاد تعلیم یافتہ ہے اور اس کا کریڈٹ لینے کی انہوں چنداں کبھی کوئی کوشش نہیں کی تھی)۔ آج ویسی آزادی نگر نگر گلی گلی ایک اوباش لونڈے کی طرح دندناتی نظر آتی ہے۔ جہاں نہ کوئی کہنے والا، نہ روکنے والا اور نہ ہی کوئی کسی کو جواب دہ اور اب تو آزادی کا یہ تصور وقت گزرنے کے ساتھ اپنے اوج کمال کو جا پہنچا ہے مطلب حاکمیت کا ایسا تصور جہاں انسان، زندان در زندان، انسانیت سے میلوں دور کج فہمی، عدم برداشت اور فرسودگی میں ملبوس عقیدے اور عقیدت کا قیدی بنا دیے جانے کے بعد خود کو آزاد گرداننے پہ مجبور کیے گئے ہیں اور اب وہ اپنے آپ کو نہ صرف مطلق العنان حاکم بلکہ باقیوں کو اپنے تابع فرمان سمجھتے ہیں۔

ویسے یہ انقلاب کوئی راتوں رات نہیں آیا، بلکہ یہ ستر سال سے زیادہ عرصے کے ارتقائی نشیب و فراز اور طرز حاکمیت کے خدوخال پر کی گئی انتھک تجرباتی محنت کا ثمر ہے کہ آج ہم اپنی کج فہمی، فرسودگی اور عدم برداشت کو عقیدے اور عقیدت کا جبہ پہنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اب کسی مائی کے لال میں ہمت نہیں کہ ہماری اجتماعی کوڑمغزی پر کوئی سوال تک اٹھا سکے۔ سمجھو ادھر سوال اٹھا اور ادھر ڈنڈا اٹھا، پھر یہ دے اور وہ دے۔

اس ’دے دنا دن‘ سے ایک وبال اٹھنا شروع ہوا تو مقتدرین  نے اس سے بچنے کے لئے سوال اٹھنے پر ڈنڈا اٹھنے کا موقع دینے کے بجائے سوال اٹھانے والے بندے کو ہی اٹھا لے جانے کی حکمت عملی کو اپنانا بہتر سمجھا کہ نہ سوال اٹھے گا اور نہ ہی وبال اٹھنے کا کوئی احتمال باقی رہے گا۔ البتہ اس وبال کے پیچھے کی اصل وجوہات اور سنگین غلطیوں کے تسلسل کو ہمیشہ کی طرح دیکھا ان دیکھا کر دیا گیا کہ جیسے عوام کی اجتماعی کوڑ مغزی ہی مطلوب حاکمیت کی اصل طاقت ہو۔

اسی طرز  نے آگے جا کر ریاستی اور غیر ریاستی انتظام کے تصور کی بنیاد رکھی جہاں ریاستی انتظام پر سوال اٹھانے والا غدار اور غیر ریاستی انتظام پر سوال اٹھانے والا گستاخ ٹھہرا کیونکہ دونوں انتظامات کی بنیاد مکالمے، استدلال اور رواداری جیسی ’بری روایات‘ کا خاتمہ کر کے کج فہمی، عدم برداشت، اور فرسودگی کے ’سنہری اصولوں‘ پر رکھی گئی اور عوامی مقبولیت کے لئے اس کو عقیدت کی پرکیف چادر سے آراستہ کیا گیا۔ اب دونوں کا احترام واجب اور اس احترام سے انحراف قابل گرفت جرم قرار پایا۔

اس ساری دھما چوکڑی میں آزاد ملک کا اصل تصور جس نے بھی سمجھنے یا سمجھانے کی کوشش کی، وہ یا تو غدار ہو کر کسی عقوبت خانے میں گل سڑ گیا یا پھر گستاخ قرار دیے جانے کے بعد مار دیا گیا،  بالآخر اس دستکاریٔ عقیدت کا کیف آج رنگ لایا ہے اور اس نے اداروں کو مقدس، سیاست دانوں کو پیر اور پیروں کو کم و بیش خدا بنا دیا ہے۔ نتیجتاً اب اگر کوئی کسی طاقتور ادارے (جو کہ اب خیر سے ایک سے زیادہ ہو چکے ہیں) کی کارکردگی اور کردار میں تجاوز پر سوال اٹھائے تو یہ ادارے کے تقدس کی پامالی سمجھی جائے گی اور سوال اٹھانے والا سند یافتہ غدار۔

اور اگر کسی سیاسی پارٹی یا مذہبی گروہ کا کوئی اشتہاری پوسٹر، وال چاکنگ یا بینر کہیں چسپاں ہو، تو چاہے اس کی مدت پوری ہی کیوں نہ ہو چکی ہو، اس کو اکھاڑنے یا مٹانے والا گستاخ قرار پائے گا اور جو ایک بار گستاخ قرار پا جائے تو پھر سمجھو اس کی موت بالآخر ایک گستاخ کے طور پر لکھی جا چکی ہوتی ہے۔

ہمارے ہر دلعزیز محترم وسعت اللہ خان صاحب نے اپنے کسی کالم میں لکھا تھا کہ ”ڈرنے کی بات یہ نہیں کہ آخر یہ سب کب ٹھیک ہو گا، اصل ڈرنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمیشہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا؟“ کتابوں میں پڑھا تھا کہ قومیں اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہے۔ ہمارے یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوا، فرسودگی اور عدم برداشت کے اطلاق میں جو کجی رہ گئی تھی اس کی نوک پلک ٹھیک کر کے ہم کو باور کروایا گیا کہ سارا بگاڑ اس وفاق کے ڈھکوسلے کا پیدا کیا ہوا ہے۔ آخر کیسے پانچ ثقافتوں کی پہچان الگ علاقائی اکائیوں پر مبنی انتظام کے ساتھ کوئی ایک قوم بن سکتا ہے۔ اس لیے خالص حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے کبھی سارے ملک کا انضمام (صوبائی اکائیوں کو پس پشت ڈال کر) ون یونٹ کے طور پر پلیٹ میں رکھا گیا، تو کبھی پارلیمان کو ایندھن بنا کر صدارتی نظام کی ہنڈیا پکائی گئی۔

سال 2001 سے پہلے ریاست کا چغل خور ستون ابلاغ عامہ، خاص طور پہ ”الیکٹرانک میڈیا“ کیونکہ ریاست کی انتظامی گرفت میں تھا، اس لئے عوام کی اکثریت کی رسائی محض پیش نظر انتظامی رعنائیوں تک محدود تھی۔ گو کہ اس وقت پرنٹ میڈیا انتظامی حد تک آزاد اور پیشہ ورانہ طور پہ قدرے غیرمقید تھا، اس لیے ریاست و سیاست کی تاریک راہوں کا قصہ کھول بیٹھتا تھا، جس کی قیمت اس کے وابستگان کو غداروں اور گستاخوں کی فہرست میں اندراج، عقوبت خانوں کی زیارت اور موت کو گلے لگا کے ادا کرنی پڑی۔

لیکن اب میڈیا مکمل آزاد ہے وہ بھی بالکل میرے غیر پڑھے لکھے بابا سائیں کے تصور آزادی کے عین مطابق۔ سب اچھا چل رہا ہے کیونکہ جن چند صحافیوں کو پیشہ ورانہ ذمہ داری، مکالمے، استدلال اور رواداری جیسی بری روایات کا پرچار کرنے کی علت لگی ہوئی تھی ان کو میڈیا گروپس کے مالکان نے نکال باہر کیا اور اب عقیدے اور عقیدت میں ملبوس فرسودگی کی پرچار کو ایک وسیع زمین دستیاب ہے۔ اس ضمن میں اب آگے ہمارا مزید کیا حال ہو گا یہ یا تو خدا جانتا ہے یا پھر وہ جن کے ہاتھ اس آزاد ملک میں رائج حاکمیت کا ہنٹر ہے۔

یہاں میرے معزز قارئین یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ میاں ناامیدی کا اتنا گند پھیلانے کے بعد کوئی ایک امید تو دلاؤ، کوئی حل بھی تو بتاؤ۔ تو حضرات گرامی قدریہاں معاملہ امید کی کرن کے نہ ہونے یا حل کی ناپیدگی کا نہیں بلکہ حاکموں کی طرف سے مسائل کے حل کے لئے آمادگی کے نہ ہونے کا ہے۔ اس عالم میں یہ ناچیز کوئی حل کیا بتائے؟ اور یہ جسارت کرنے سے میں اس لئے بھی قاصر ہوں کہ مجھ میں ابھی ہماری عقلوں پر چسپاں عقیدت میں ملبوس فرسودگی، کج فہمی اور عدم برداشت کا پوسٹر پھاڑ کے غداروں اور گستاخوں کی فہرست میں اندراج کروانے کی ذرا برابر ہمت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments