یوسف رضا گیلانی کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض: حکومت سیاسی دھچکے کی تیاری کرے


قوم کو ’گھبرانا نہیں ہے‘ کا سبق یاد کروانے والے ملک کے شیر دل وزیر اعظم سینیٹ انتخاب سے بہت گھبرائے ہوئے ہیں۔ اسی گھبراہٹ میں انہوں نے ایک آئینی معاملہ کو ’ماورائے آئین‘ طریقے سے حل کروانے کی خواہش میں سپریم کورٹ کو صدارتی ریفرنس بھجوایا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا پانچ رکنی بنچ اب اس ریفرنس کی سماعت کررہا ہے اور وزیر اعظم کی طاری کی ہوئی گھبراہٹ کو چیف الیکشن کمشنر پر غصہ نکال کر کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سپریم کورٹ کے بنچ نے گزشتہ روز کی سماعت میں الیکشن کمشنر اور سب ارکان کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ آج متعدد سوالوں کے جوابات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر کو حکم دیا ہے کہ وہ بدھ تک تحریری طور سے عدالت کو مطمئن کریں کہ سینیٹ الیکشن شفاف ہوں گے۔ سپریم کورٹ ایسا منصوبہ دیکھنا چاہتی ہے جس میں اس بات کی یقین دہانی کروائی جائے کہ کوئی رکن اسمبلی سینیٹ کے لئے ووٹ دیتے ہوئے کسی مالی بے ضابطگی میں ملوث نہیں ہوگا۔ آج ہونے والی سماعت سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ سپریم کورٹ کسی طرح اس مشکل مسئلہ سے نکلنا چاہتی ہے اور اس مقصد کے لئے الیکشن کمیشن کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو بار بار بتایا کہ وہ ایک سادہ سوال سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے کہ الیکشن کمیشن کیسے انتخابی بدعنوانی روکے گا۔

ہو سکتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو واقعی چیف جسٹس کا سوال سمجھ نہ آیا ہو یا چیف جسٹس سوال کے درپردہ جو بیان کرنے کی کوشش کررہے تھے، چیف الیکشن کمشنر اسے سمجھنے سے گریز کر رہے ہوں۔ ورنہ صدارتی ریفرنس اور الیکشن کمیشن کی طرف سے کسی بھی انتخاب کو شفاف بنانا دو علیحدہ معاملات ہیں۔ انتظامی معاملات اور قانونی حساسیات کو سمجھنے والا کوئی بھی شخص یہ جان سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور انتخابات کے حوالے سے اپنے فرائض ادا کرنے میں وہ صرف اپنے ضمیر کی عدالت کو جوابدہ ہے۔ فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی صورت میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں ملک کا عدالتی نظام اصلاح کرنے اور غلطی کرنے والوں کو سزا دینے کا اہتمام کر سکتا ہے۔ تاہم ملک میں ہر انتخاب کے بعد اگر دھاندلی کا شور مچتا ہے اور درپردہ مداخلت کرنے اور انتخابی نتائج تبدیل کرنے کے سنگین الزامات عائد کئے جاتے ہیں تو موجودہ حالات میں اس کی ذمہ داری صرف الیکشن کمیشن پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ ملکی عدالتوں کو بھی بتانا پڑے گا کہ دھاندلی کی شکایات کا ازالہ کرنے اور مستقبل میں انتخابات کو شفاف اور کسی اثر و رسوخ سے پاک رکھنے کے لئے اعلیٰ عدلیہ نے کیا کردار ادا کیا ہے۔

آئین کی شق 226 کی شرط کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے سینیٹ میں ووٹ دینے کے طریقہ کو تبدیل کرنے کی حکومتی خواہش کی تکمیل صرف سپریم کورٹ کی ایک ہاں سے ہی ممکن ہے۔ عدالت عظمیٰ کو صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا حکومت کا مؤقف قانونی طور سے درست ہے اور کیا خفیہ ووٹنگ کے لئے مقررہ آئینی طریقہ نظر انداز کرنے کے لئے ایک آرڈی ننس اور سپریم کورٹ کی خاموشی کافی ہوگی۔ اس معاملہ میں الیکشن کمیشن کی رائے سپریم کورٹ میں پیش کی جاچکی ہے۔ اب اس بات پر اصرار غیر متعلقہ ہے کہ الیکشن کمیشن کس طرح سینیٹ انتخاب میں روپوں کے لین دین کا تدارک کرے گا۔ یہ سوال بھی غیر ضروری ہے کہ 2018 میں سینیٹ انتخاب میں روپوں کی وصولی کے بارے میں جاری کی گئی ایک ویڈیو پر کیا کارروائی کی گئی ہے۔ اس کا زیر غور معاملہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی سپریم کورٹ کی طرح ایک خود مختار اور آئینی ادارہ ہے۔ ججوں کا یہ تصور کر لینا درست نہیں کہ چیف الیکشن کمیشن اور اس کے ارکان کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں کی ہدایات و مشورہ کی ضرورت ہے۔ یہ طریقہ دراصل ایک آئینی ادارے پر کسی بنیاد کے بغیر شک و شبہ کا اظہار بھی ہے اور اس کے کام میں غیر ضروری مداخلت بھی۔ سپریم کورٹ کا بنچ کسی ایسے مقدمہ پر غور نہیں کر رہا جس میں الیکشن کمیشن کو براہ راست فریق بنایا گیا ہو۔ سپریم کورٹ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کے لئے اگر الیکشن کمیشن کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی کوشش کرے گی تو یہ کوئی قابل تعریف عدالتی نظیر نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ کو ایک اصولی آئینی معاملہ پر رائے دینا ہے جس کے لئے فاضل ججوں کو خود مختار اداروں کے اعلیٰ افسروں و ارکان کو حاضر ہونے کا حکم دینا اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا ضروری نہیں۔

انتخابات میں دھاندلی اور بے جا مداخلت ہی اگر سپریم کورٹ کا حقیقی مسئلہ ہے تو اس تشویش کو صرف سینیٹ کے متوقع انتخابات تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ اصولی طور پر کوئی بھی عدالت کسی وقوعہ کے بعد ہونے والی کسی غلطی کی نشاندہی یا جرم کے ارتکاب پر ہی کارروائی کرتی ہے اور قصور واروں کا تعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی جرم کے ارتکاب سے پہلے اس کے بارےمیں فیصلہ کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی اس کا کوئی قانونی جواز ہے۔ کسی معاملہ میں پیش بندی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی متعلقہ اداروں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج اگر دیگر شعبوں میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور ان کی اصلاح کے بارے میں بھی سینیٹ انتخابات کی شفافیت پر بے چینی کی طرح پریشان ہوں گے تو وہ اپنے زیر سماعت معاملات طے کرنے سے قاصر رہیں گے۔

یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ سینیٹ انتخاب میں دھاندلی کا معاملہ حکومت کی طرف سے سامنے لایا گیا ہے اور حکمران جماعت نے ہی اپنا مؤقف ثابت کرنے کے لئے چند روز پہلے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں تحریک انصاف ہی کے کچھ ارکان روپے وصول کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک آئینی ریفرنس پر غور کرتے ہوئے اس ویڈیو کا حوالہ دینا اور یہ قیاس کرنا کہ الیکشن کمیشن ناکارہ ہے اور اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام ہے، درست رویہ نہیں۔ اگر چیف جسٹس اور اس بنچ میں شامل دیگر جج حضرات ملک میں انتخابی دھاندلی کے معاملہ پر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس حقیقت سے بھی آگاہ ہونا چاہئے کہ ملک کی تمام اہم اپوزیشن پارٹیاں ایک ہی نکتے پر متفق ہیں اور احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں کہ 2018 کا انتخاب چوری کیا گیا تھا۔

گوجرانوالہ کے جلسہ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے نام لے کر بتایا تھا کہ ان کے نزدیک کون لوگ اس دھاندلی کے ذمہ دار تھے۔ سپریم کورٹ اگر عام انتخابات میں دھاندلی پر متحدہ اپوزیشن کےمتفقہ مطالبے کی شنوائی کا حوصلہ نہیں کرتی تو اسے غیر متعلقہ طور سے سینیٹ انتخاب پر ایک پارٹی کی پریشانی میں حصہ دار بننے کی ضرورت بھی نہیں ہونی چاہئے۔ عدالت اس معاملہ میں فریق بننے کی بجائے آئینی سوال پر رائے دے کر فارغ ہو۔ یہ رائے حکومتی مؤقف کو مسترد کرسکتی ہے یا اس کی تائید کرسکتی ہے۔ تاہم بنچ میں شامل ججوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ان کا غلط فیصلہ انہیں تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔

یہ بات ناقابل فہم ہے کہ سپریم کورٹ کو سینیٹ ووٹنگ کے طریقہ کار کے بارے میں کسی نتیجہ پر پہنچنے کی عجلت کیوں ہے؟ تحریک انصاف اور حکومت کی بے چینی قابل فہم ہے۔ یہ انتخاب اس کی پوزیشن کو مستحکم کرسکتا ہے یا سیاسی معاملات پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ سکتی ہے۔ تاہم یہ سپریم کورٹ کا درد سر نہیں ہے۔ اسے اس ریفرنس پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے اور یہ تاثر دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے کہ کسی بھی طرح 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخاب سے پہلے کوئی فیصلہ دیا جائے۔ اس کے لئے انتخابات کے بعد بھی کوئی رائے سامنے آ سکتی ہے جس کا اطلاق بعد میں ہونے والے انتخابات پر ہوسکتا ہے۔ ماضی میں درجنوں انتخابات ہو چکے ہیں۔ اگر قوم ان میں ہونے والی مداخلت اور دھاندلی کو برداشت کرکے آگے بڑھ چکی ہے تو 3 مارچ کو سینیٹ کے نصف ارکان کے انتخاب سے بھی کوئی قیامت بپا نہیں ہوگی کہ اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جائے۔ البتہ اگر سپریم کورٹ اس حوالے سے کوئی غیر معمولی رویہ اختیار کرے گی یا کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے گا جو آئین پاکستان کے واضح حکم کی ناقابل قبول توضیح پر مبنی ہوگا تو ملکی انتخاب اور عدالتی نظام پر دوررس اور نقصان دہ اثرات مرتب ہوں گے۔ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کی غیر جانبداری اور مستقل مزاجی غیرمعمولی طور سے اہمیت کی حامل ہے۔

البتہ تحریک انصاف یا حکومت سے اس تحمل و بردباری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ سینیٹ کے لئے اس کے امیدواروں کے نام پر تقریباً ہر صوبے میں شدید اختلافات ہیں اور عمران خان کو خدشہ ہے کہ خفیہ ووٹنگ کے موجودہ طریقہ کے ہوتے تحریک انصاف کے متعدد ارکان پارٹی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے۔ جسٹس عطا بندیال نے آج کی سماعت میں یہ اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ اگر کوئی رکن پارٹی لائن کے برعکس ووٹ دے تو کیا اسے بھی غیر قانونی کہا جائے گا؟ سینیٹ کے لئے ارکان چننے کا معاملہ کسی پارٹی کی قیادت کی صوابدید کی بجائے ارکان اسمبلی کے ضمیر کے مطابق طے ہونا چاہئے۔ سینیٹ انتخاب میں پارٹی فیصلہ کے خلاف ووٹ دینے کو ویسی دھاندلی نہیں کہا جا سکتا جس کا ارتکاب عام انتخابات میں بیلٹ بکسوں کی چوری اور ووٹنگ سسٹم کو کرپٹ کرکے کیا جاتا ہے۔ حکمران پارٹی کی مجبوری قابل فہم ہے لیکن سپریم کورٹ کو اس مجبوری کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہئے۔

حکومت کی مجبوری بلوچستان میں امیدوار کے انتخاب، خیبر پختون خوا میں پارٹی ارکان کو باندھے رکھنے کی حکمت عملی اور پنجاب میں نمائندگی کے مطابق سینیٹ کی سیٹیں جیتنے کے گٹھ جوڑ سے ہوتی ہوئی اب اسلام آباد میں یوسف رضا گیلانی کی امیدواری پر مرکوز ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کے ایک لیڈر نے پی ڈی ایم کے مشترکہ امید وار کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض کیا ہے کہ وہ آئین کی شق 62 کے مطابق ’اچھی شہرت ‘ کے حامل نہیں ہیں۔ دلیل یہ دی گئی ہے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کو2012 میں توہین عدالت کے الزام میں ایک منٹ کی سزا کے بارے میں مطلع نہیں کیا۔ یہ اعتراض عمران خان کی اس شدید پریشانی کا نقطہ عروج کہا جا سکتا ہے جو انہیں سینیٹ انتخاب میں کسی انہونی سے خوفزدہ کئے ہوئے ہے۔

بدقسمتی سے کوئی عمران خان سے یہ بھی نہیں کہتا کہ ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘۔ سینیٹ کے لئے یوسف رضا گیلانی کا انتخاب عمران خان کے خلاف سنگین سیاسی دھچکہ ہوگا۔ اس دھچکہ سے بچنے کے لئے انہیں سپریم کورٹ کے علاوہ بھی کوئی متبادل سوچ لینا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments