کرونا وائرس: کیا یورپ ‘ویکسین پاسپورٹ’ متعارف کرا سکتا ہے؟


ایسے میں جب یورپ میں ویکسین پاسپورٹ کے اجرا کے امکانات روشن ہو رہے ہیں، زیادہ تر یورپی ممالک نہ صرف سفر کرنے والوں کے لیے ویکسین لگوانے کا ثبوت پاس رکھنے کو لازمی قرار دینے کا سوچ رہے ہیں بلکہ اس پاسپورٹ کو بارز، ریستورانوں اور کنسرٹ ہالز کو بھی دوبارہ کھولنے میں مدد کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

برطانیہ کے وزیرِاعظم بورس جانسن سے جب سوال کیا گیا کہ آیا ویکسین پاسپورٹ متعارف کرائے جانے کا امکان ہے تو انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ بعض بین الاقوامی سفر کے لیے ویکسی نیشن کا ثبوت درکار ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ “صاف بات ہے کہ کچھ ممالک یہ اصرار کرنے جا رہے ہیں کہ جو مسافر ان کے ملک آ رہے ہیں، ان کے پاس ویکسی نیشن کا ثبوت موجود ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں زرد بخار یا دیگر بیماریوں کے خلاف ویکسی نیشن کا ریکارڈ مانگا جاتا تھا۔”

یورپی حکومتیں اس بارے میں تقسیم رہی ہیں کہ آیا ویکسین پاسپورٹ کا نظام رائج کیا جائے یا نہیں لیکن سیاح اور مہمان داری (ہاسپیٹیلیٹی) کے شعبے اپنے کاروبار کی بحالی کے لیے بے چین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک اور موسمِ گرما ضائع نہیں کر سکتے۔

لیکن دوسری جانب شہری آزادیوں کے ادارے اس بارے میں پریشان ہیں کہ یہ برِاعظم ‘ہیو اینڈ ہیو ناٹ یعنی جن کے پاس بہت کچھ ہے اور جن کے پاس زیادہ کچھ نہیں ہے کی ایک نئی تقسیم کا شکار نہ ہو جائے۔ اس ہفتے برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ڈومینک راب کے اس بیان نے سیاسی ردِعمل کو جنم دیا تھا جب انہوں نے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ برطانیہ کے شہریوں کو کسی بار یا گراسری اسٹور داخل ہونے کے لیے ویکسین لگنے کا ثبوت دینا پڑ سکتا ہے۔

ان کے اس بیان پر نہ صرف شہری آزادیوں کے سرگرم کارکنوں بلکہ قدامت پسند اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے بھی سخت ردِعمل سامنے آیا تھا۔

رکنِ پارلیمنٹ مارک ہارپر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ آپ کو ضرورت ہو کہ لوگ روز مرہ کے کاموں کے لیے جائیں تو ہر صورت مخصوص طبی ریکارڈ ساتھ رکھیں۔

باقی یورپ میں بھی کئی حکومتیں ویکسین پاسپورٹ متعارف کرانے کے تصور کا جائزہ لے رہی ہیں۔ کم از کم سفر کے لیے۔ ڈنمارک کے وزیرِ خزانہ نے گزشتہ ہفتے ویکسین پاسپورٹ کے اس ماہ کے آخر تک متعارف کرائے جانے کے امکانات پر بات کی تھی۔

یورپی ملک ایستونیا بھی عالمی ادارۂ صحت کے ساتھ مل کر ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے جس کا مقصد الیکٹرانک ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ تیار کرنا ہے۔ استونیا کو امید ہے کہ اس اقدام سے وہ ایک اعلی معیار قائم کر سکتا ہے اور عالمی سطح پر تعریف سمیٹ سکتا ہے۔

ایستونیا کی حکومت کے مشیر برائے ٹیکنالوجی مارٹن کیویٹس نے خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ عالمی سطح پر ایک قابل بھروسہ نظام کے لیے سب سے پہلا چیلنج اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جو کوئی بھی اس سرٹیفیکیٹ کو دیکھے، اس کو اس کے جاری کرنے والے پر بھروسہ ہو۔ استونیا زرد بخار کے لیے ماضی میں زرد کارڈ کی طرز کا ڈیجیٹل کارڈ جاری کرنے کا خیال رکھتا ہے۔

استونیا جو ٹیکنالوجی کی دنیا میں اختراع میں نام رکھتا ہے، حکومت کی ای سروسز میں بانی خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم ڈیجیٹل ویکسی نیشن پاسپورٹ پروگرام پر کام کرنے والا یہ واحد ملک نہیں ہے۔ برطانیہ، یونان، آئس لینڈ، ہنگری، لیتھوینیا اور کچھ فارماسوٹیکل کمپنیز، سب نے اس طرح کے منصوبوں کا اعلان کر رکھا ہے۔

بعض ‘کیو آر کوڈز’ یا چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کو استعمال میں لانے پر غور کر رہے ہیں۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ درپیش ہے کہ مختلف ملک میڈیکل ریکارڈ کے لیے مختلف ڈیٹا سسٹم استعمال کر رہے ہیں اور سرحدوں سے باہر وہ ایک دوسرے کو نہیں پڑھ پاتے۔ اور بہت سے ملکوں میں صحت سے متعلق ڈیجیٹل ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

یونان نے یورپی کمیشن پر زور دیا ہے کہ وہ ویکسی نیشن سرٹیفیکیٹ کی تشکیل کے لیے اتفاق رائے قائم کرے تاکہ تمام رکن ممالک میں اس کو قبول کیا جا سکے۔

اس بارے میں بھی عدم اتفاق ہے کہ ایسے مسافروں کے لیے کیا قوائد رکھے جائیں جنہوں نے ایسی ویکسین لگوا رکھی ہے جس کی منظوری یورپین میڈیسن ایجنسی ( ای ایم اے) نے نہیں دی۔

عالمی ادارۂ صحت نے سفر کے لیے ویکسین پاسپورٹ کی تجویز کو تاحال منظور نہیں کیا ہے کیوں کہ اس پر عمل درآمد سے مسائل اور تنازع سامنے آنے کا خطرہ ہے اور اس کو یہ پریشانی ہے کہ اس بارے میں کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ جن لوگوں کے پاس ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ ہو، وہ وائرس کے پھیلاؤ کا سبب نہیں بنیں گے۔

کئی بین الاقوامی ایئر لائنز کا بشمول مشرقِ وسطیٰ کی اتحاد ایئر لائن کے جو اپنے تمام آپریشنل عملے کو ویکسین دینے والی پہلی ایئرلائن بن چکی ہے، کہنا ہے کہ وہ پہلے سے یہ سوچ رہے ہیں کہ مسافروں کے لیے ویکسین لگوانے کا سرٹیفیکیٹ دکھانا لازمی قرار دیا جائے۔

بعض ایئر لائنز اپنی ایپلی کیشنز میں یہ آپشن دینے کی منصوبہ بندی کر رہے یں کہ مسافر اپنی ٹکٹ بک کرانے سے پہلے آن لائن ہی اپنی ویکسی نیشن کی تفصیل شامل کر سکیں۔

ویکسین سرٹیفیکٹ پر تنازع

لیکن دوسری جانب ریستورانوں، بار، کنسرٹ ہالز اور اسٹیڈیمز میں داخلے کے لیے ویکسین پاسپورٹ کا تقاضہ تنازع کا سبب بن رہا ہے اور انسانی حقوق اور پرائیویسی کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکن اس پر سخت ردِعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب تک ویکسین پر عالمی سطح پر لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی تب تک ایسے منصوبے خفیہ راستے سے ویکسین کو لازمی قرار دینے کا ذریعہ بنیں گے جس سے ان لوگوں کی شخصی آزادیاں متاثر ہوتی ہیں جو ویکسین نہیں لگوانا چاہتے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments