سفارت کاروں کا ایک اور وفد بھارتی کشمیر کے دورے پر، پاکستان کی تنقید


سفارت کاروں کے ایک گروپ نے گزشتہ سال جنوری میں بھی بھارتی کشمیر کا دورہ کیا تھا۔

نئی دہلی میں تعینات غیر ملکی سفارت کاروں کا ایک 24 رکنی وفد بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی زمینی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے دو روزہ دورے پر سرینگر پہنچ گیا ہے۔

بھارت کی جانب سے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد سفارت کاروں کا یہ تیسرا دورہ ہے۔

دورے کا اہتمام بھارت کی وزارتِ خارجہ نے کیا ہے اور اس کا مقصد بھارتی کشمیر کی تازہ ترین صورتِ حال اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے بعد بھارتی حکومت کے مطابق علاقائی سیاست میں آنے والی مثبت تبدیلیوں سے عالمی برادری کو آگاہ کرنا ہے۔

وفد کی قیادت بھارت اور بھوٹان میں یورپی یونین کے سفیر یوگو آسٹو کر رہے ہیں اور اس میں افریقی، یورپی، لاطینی امریکی اور چند ایشیائی ممالک کے سفارت کار شامل ہیں۔ وفد کے اراکین بدھ کی صبح ایک خصوصی پرواز میں نئی دہلی سے سرینگر پہنچے۔

سرینگر میں اپنے قیام کے دوراں وفد کے اراکین شہرۂ آفاق جھیل ڈل کی سیر کریں گے اور پھر بعض بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے منتخب رہنماؤں، تاجروں، شہریوں، سماجی کارکنوں اور صحافیوں سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔

جمعرات کو بھی وفد کے اراکین اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔

وفد کی سرینگر آمد سے ایک دن پہلے حکام نے شہر کے تاریخی لال چوک اور سول لائنز ایریا میں حالیہ مہینوں کے دوران قائم کی گئی سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں سے کئی بنکرز کو ہٹا دیا تھا۔ البتہ، حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام آمدورفت آسان بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔

وفد کے دورے کے پیشِ نظر وادیٴ کشمیر میں حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دیے گئے ہیں۔ سیکیورٹی عہدے داروں کے بقول عسکریت پسندوں کی طرف سے کسی بھی طرح کی شرارت کے امکان کو روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔ وفد کی آمد پر سرینگر کے کئی علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں بند رہیں۔

عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے: پاکستان

پاکستان نے نئی دہلی کی جانب سے سفارت کاروں کو جموں و کشمیر کا دورہ کرانے کو “عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی بھارت کی کوششوں” کا حصہ قرار دیا ہے۔ اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے رواں ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ اس طرح کے دورے جن کا تعین بھارتی حکومت کرتی ہے دراصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی دانستہ کوشش ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ دورے کا مقصد بھارتی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے بین الاقوامی برادری کی توجہ ہٹانا ہے اور علاقے کے بارے میں یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ وہاں حالات معمول پر آ گئے ہیں۔

اس سے پہلے جنوری 2020 میں نئی دہلی میں تعینات 16 ملکوں کے سفارت کاروں کے ایک وفد نے بھارتی کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے سرینگر اور جموں کا دورہ کیا تھا۔

وفد نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقامی کارکنوں اور تاجروں کے نمائندوں، صحافیوں کے ایک گروپ اور چند دوسرے غیر معروف افراد سے ملاقاتیں کی تھیں۔

سفارت کاروں کو دورے کے دوران عسکریت پسندوں کی کارروائیوں اور مبینہ طور پر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر پاکستانی فوج کی فائرنگ سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا گیا تھا۔ اس وفد میں نئی دہلی میں تعینات امریکی سفیر سمیت جنوبی کوریا، ویتنام، برازیل، ازبکستان، نائیجیریا، مراکش، گیانا، ارجنٹائن، فلپائن، ناروے، مالدیپ، فجی، ٹوگو اور بنگلہ دیش کے سفارت کار شامل تھے۔

گزشتہ سال بھارتی کشمیر کا دورہ کرنے والے سفارت کار ڈل جھیل کی سیر کر رہے ہیں۔
گزشتہ سال بھارتی کشمیر کا دورہ کرنے والے سفارت کار ڈل جھیل کی سیر کر رہے ہیں۔

پانچ اگست کے اقدامات کے بعد اکتوبر 2019 میں یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 23 قانون سازوں نے بھی بھارتی کشمیر کا دورہ کیا تھا۔ ناقدین نے اس دورے کو مکمل طور پر گائیڈڈ ٹور قرار دیا تھا جس میں حزبِ اختلاف کے کسی رہنما یا وادی کے باشندوں سے ان قانون سازوں کی ملاقات نہ کرانے پر بھارتی حکومت پر تنقید کی ہے۔

بھارت میں حزبِ اختلاف کی بعض جماعتیں نے بھی سفارت کاروں کو جموں و کشمیر کے دورے کرانے کی دعوت دینے بلکہ ان کا اہتمام کرنے پر نریندر مودی حکومت کو نکتہ چینی کا ہدف بنایا ہے۔

تجزیہ کار اور یونیورسٹی آف کشمیر میں شعبۂ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا نے کہا کہ “بھارت کا یہ مؤقف ہے کہ کشمیر اس کا ایک اندرونی معاملہ ہے ۔ اس لیے ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک خود مختار ملک دوسرے ملکوں کے سفارت کاروں کو یہاں کی صورتِ حال کا مشاہدہ کرنے کے لیے کیوں یہاں لاتا ہے۔

اُن کے بقول ظاہر سی بات ہے کہ ایسا اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب کسی علاقے کے بارے میں باہر کی دنیا میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہوں اور انہیں دور کرنے کے لیے ہی اس طرح کے دوروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

تاہم پروفیسر بابا کا یہ بھی کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر جو خدشات پائے جاتے ہیں انہیں گائیڈڈ دوروں سے نہیں بلکہ سفارت کاروں کو شفافیت اور بلا روک ٹوک عام شہریوں میں گھلنے ملنے سے دور کیا جا سکتا ہے۔

اُن کے بقول اب بھی وادی میں کئی پابندیاں ہیں، زندگی کے کئی شعبے مفلوج ہیں۔ ان سفارت کاروں کو منظورِ نظر لوگوں سے ملوا کر سب اچھا ہے کی رپورٹ دے دی جاتی ہے جو مناسب نہیں۔

سرینگر کے ایک شہری علی محمد کاشانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہاں کے زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں اور ان سے انحراف ممکن نہیں۔

اُن کے بقول اس طرح کے وفود کو عام لوگوں سے بلا کسی رکاوٹ کے ملنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ایسا نظر نہیں آتا۔ ایسے وفود آئیں یا نہ آئیں مجھے نہیں لگتا کہ اس سے عام لوگوں کی سوچ اور اپروچ پر کوئی اثر پڑے گا۔ کیوں کہ ماضی میں کیے گئے اس طرح کے دوروں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

تاہم ضلع بڈگام کی ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسل کے چئیرمین نذیر احمد خان نے یورپی یونین کے وفد سے ملاقات کرنے کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس طرح کے دوروں سے جموں و کشمیر کے بارے میں عالمی رائے عامہ تبدیل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ “ہم نے وفد کو یہاں کی مختلف ترقیاتی اسکیموں اور اس سلسلے میں اب تک کیے گئے اقدامات اور باقی رہ گئے کام کے بارے میں بریفنگ دی ہے۔ ایک غیر ملکی وفد کے ساتھ بات چیت کرنا اور اپنے خیالات اور احساسات ان تک پہنچانا اچھا لگا۔”

سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ “وفود آئیں گے اور جائیں گے لیکن کشمیر کی صورتِ حال اچھی نہیں ہے۔ یہاں کی سیاسی قیادت کو اکثر اپنے گھروں میں قید کیا جاتا ہے۔”

حریت کانفرنس کا ردِ عمل

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کل جماعتی حریت کانفرنس ﴿میر واعظ گروپ) نے وفد کے دورے پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ “بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں نے جموں و کشمیر کو اپنے اپنے طور پر درمیان میں تقسیم کر لیا ہے اور یہ مسئلہ اب بھی 73 سال سے حل طلب ہے۔ ”

حریت کانفرنس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں وادی کے دورے پر آئے وفد سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ “یہاں کے عوام کے دکھ اور درد کو محسوس کرتے ہوئے اس انتہائی غیر مستحکم خطے میں قیامِ امن کی خاطر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کریں۔ تاکہ بھارت، پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام کے مابین اس دیرینہ تنازع کے حل کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار ہو۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments