سینیٹ کے متعلق کچھ بنیادی معلومات



سینیٹ کی کل 104 نشستیں ہیں۔ جس کے رکن 6 سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ البتہ الیکشن ہر تین سال بعد ہوتے ہیں اور یوں آدھے ارکان ریٹائر ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے ارکان کا انتخاب ہوتا ہے۔ سینیٹ پاکستان کی پارلیمان کا ایوان بالا ہے۔ اسے مالی و بجٹری معاملات میں قومی اسمبلی پر کچھ برتری حاصل ہوتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے اس ایوان کو ایوان وفاق بھی کہا جاتا ہے۔ نیز اس ایوان کا وزیراعظم کے انتخاب اور اسے کرسی سے اتارنے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔

قومی اسمبلی کے ہوتے ہوئے سینیٹ کا ایوان بالا محض وفاق کے تمام چھوٹے بڑے یونٹس کو برابری کی نمائندگی دینے اور وفاق کی مضبوطی کے نقطۂ نظر سے آئین سازوں نے 1973 کے آئین کے تحت قائم کیا تھا۔ یوں قومی اسمبلی کے برخلاف جہاں ہر صوبے کو اس کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی گئی ہے سینیٹ میں ہر صوبے کو مساوی نشستیں دی گئیں ہیں۔ سینیٹ اراکین کا انتخاب متعلقہ صوبائی اسمبلی کرتی ہے جبکہ اسلام آباد کی مخصوص نشستوں کے لیے ووٹنگ قومی اسمبلی کے ارکان کرتے ہیں۔

سینیٹ کے انتخابات میں عموماً سیاسی جماعتیں تین طرح کے امیدوار کھڑے کرتی ہیں۔ پہلی قسم پڑھے لکھے، تجربہ کار اور سینئر سیاست دانوں پر مشتمل ہوتی ہے جو قوانین و آئینی معاملات پر گرفت رکھتے ہوں اور سینیٹ کے معاملات چلانے اور قوانین سازی میں ماہر ہوں جیسے کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی مسلم لیگ نون میں راجہ ظفرالحق اور مشاہد اللہ وغیرہ۔ پی ٹی آئی میں فی الحال آئینی امور میں ماہر کوئی بڑا تجربہ کار سیاستدان نظر نہیں آتا۔

دوسرا گروہ عموماً پارٹی قیادت کے قریبی افراد، جو چاہے پارٹی کارکن ہوں یا پھر قیادت کے ذاتی جان پہچان والے، کرم فرما قسم کے افراد۔ جن کو نوازنا مقصد ہو جیسے کہ نواز شریف کی طرف سے مولانا ساجد میر کو ٹکٹ دینا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے فیصل واؤڈا، حفیظ شیخ، عون چوہدری وغیرہ کی نامزدگی اسی کیٹیگری میں آتی ہے۔

تیسری قسم کے امیدوار سیاسی جماعتوں کے لیے اس لحاظ سے اہم ہوتے ہیں کہ ان کی بدولت سیاسی جماعتوں کا خزانہ/ اکاؤنٹ بھرا رہتا ہے۔ اس طرح کہ سینیٹرز بنائے جانے کے عوض یہ سرمایہ دار افراد اپنی بھاری بھرکم دولت میں سے ایک حصہ اپنی پارٹیوں کو پارٹی فنڈ کے طور پر دیتے ہیں اور بعض اوقات افراد کو بھی۔ جن میں ایم پی اے اور ایم این ایز یعنی ان کے ووٹرز بھی شامل ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو پارٹی قیادت تک یہ تبرک پہنچتا ہے۔

یہ لوگ منتخب ہو کر اپنے سرمایہ دار ساتھیوں کی دولت اور کاروباری منافع کا پالیسی سازی میں خصوصی خیال رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کبھی کبھار تو چیمبرز آف کامرس والے سیٹھ  لابنگ کر کے امیدوار داخل کرواتے ہیں تاکہ ان کی نمائندگی ایوان بالا میں ہونے سے سرمایہ دار سیٹھ طبقے کے کاروباری مفادات کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

حالیہ سینیٹ کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی طرف سے بلوچستان سے عبد القادر نامی ایک دولت مند ارب پتی سیٹھ کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا جانا اس قسم کی پریکٹس کی کلاسیکل مثال ہے۔ سلیم مانڈوی والا کراچی کے کامیاب تاجر ہیں ۔ ان کا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے اہم آئینی عہدے تک پہنچنا بھی اسی تیسرے راستے کا مرہون منت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments