پی ٹی وی کے ممتاز پروڈیوسر ضیاءالرحمان کی یاد میں



ابھی اس ادبی تقریب کے شروع ہونے میں کچھ وقت باقی ہے اور لوگوں کی آمد جاری ہے۔ میں جوں ہی ہال میں داخل ہوا تو حاضرین کے درمیان موجود ان پر نظر پڑی اور میں نے یہی مناسب جانا کہ اس تقریب کو اعلیٰ ذوق کے حامل، ایک سینئر کی قربت میں دیکھا اور سنا جائے۔ یوں ان کی ساتھ خالی نشست میرے حصے میں آئی اور ہم، دوسرے شرکاء کے ساتھ تقریب کی طرف متوجہ ہوئے۔ شعروشاعری کی محفل میں پیش کیے جانے والی تخلیقات شاید اس اعتبار سے زیادہ توجہ طلب ہوتی ہیں کہ ان کا فوری ردعمل اور اس کا اظہار روایت کا حصہ بن چکا ہے۔

مختلف مہمان اپنی تخلیقات پیش کر چکے ہیں اور ابھی محفل جاری ہے۔

آئیں جب تک میں آپ کا اپنے سینئر پروفیشنل سے تعارف کراتا چلوں۔ پاکستان ٹیلی وژن میں اپنے کریئر کا آغاز پشاور مرکز سے کیا اور ڈرامہ پروڈکشن میں نام کمایا۔ مطالعے کے شوق اور معیار کی طلب نے سطحی کام سے ہمیشہ دور رکھا اس لئے جو کیا پوری سنجیدگی اور خوب چھان پھٹک کے کیا۔ تجرباتی میلان کے ساتھ اپنی ہر کاوش میں کچھ ہٹ کر دکھانے کی جستجو جاری رکھی۔

ہمارے معاشرے میں عام طور پر اپنے ہم پیشہ اور ہم عصر کی تعریف کے لئے کشادہ دلی کی کمی نظر آتی ہے۔ آپ اس معاملے میں جی بھر کے فراخ دل تھے۔ جن سے شناسائی نہ بھی ہو، انہیں بھی سراہنے میں کبھی کنجوسی نہ کی، بلکہ کسی کا اچھا کام دیکھ کر ہمیشہ کوشش کی کہ کسی طور اس تک اپنے جذبات جلد از جلد پہنچا سکیں اور صرف یہی نہیں، محفلوں میں اس کی کوششوں کو اجاگر کرنے کی ذمہ داری بھی از خود سنبھال لی۔ اپنے جونیئرز اور نئے آنے والوں کی اچھی کارکردگی کی ستائش بھی اسی جذبے سے جاری رکھی۔

ضیاء الرحمان

دیانت داری ایسی کہ موقع پڑنے پر، دوستوں سے بھی رعایت نہ کی۔ جو صحیح جانا، اس کے لئے ضرور وکالت کی۔ بھلائی کا مشورہ دینے سے کبھی نہ کترائے، خواہ اس کے لئے دوستی بھی داؤ پر لگ جائے۔ اپنے گرد و نواح میں غلط سمت کا رخ اختیار کرنے والوں کی مقدور بھر رہنمائی کو اپنا فریضہ جانا۔ ایسے لوگوں کو یہ بات ضرور یاد دلاتے ”دودھ میں پانی ملاؤ، پانی میں دودھ نہ ملاؤ“ ۔

ایک صاحب ایک بڑے گھر کی بڑی سرپرستی کے زعم میں بڑے طمطراق سے ان کے دفتر میں تشریف لائے اور اپنی حکمت عملی کے پیش نظر اپنے معاملے کا اپنی پسند کے مطابق حل دیکھنے کو بے تا ب تھے ( اور اس حوالے سے یقینی طور پر بے حد پراعتماد بھی تھے) مگر جب فیصلہ ہوا تو باتوں باتوں میں ان صاحب نے ایک اور بڑے گھرجانے کا تأثر دیا۔ یہ کب کسی کے کہے پر اپنی رائے بدلنے والے تھے، بولے تب بھی وہی فیصلہ ہو گا جو پہلے ہوا تھا۔

ذاتی کام کے لئے ذاتی تعلقات کے استعمال سے ممکنہ حد تک گریز کیا خواہ اس کے سبب کتنا ہی خسارہ اٹھانے کا احتمال ہو۔ ہاں دوسروں کے معاملات کو آگے بڑھانے اور سلجھانے کے لئے، کسی بھی حد تک جانے کے لئے ہمہ وقت تیار اور روادار رہے۔

ایک دفعہ ریڈیو پر اپنی مصروفیات کے بہ وجوہ منقطع ہونے پر لمحوں کے لئے یہ خیال کیا کہ وہی کیا جائے جو اس معاشرے کا چلن ہے، مگر پھر فوراً اس خیال کو جھٹک دیا کہ اس سطح تک آنا مزاج کو گوارا نہیں اور اس خود احتسابی کے نتیجے میں نقصان کے باوجود، خود کو بے حد مطمئن پایا۔

اپنی زندگی کو مسلسل علم دوستی اور خوش لباسی سے سجائے رکھا۔ انتظامی ذمہ داریوں میں روایتی افسر کے رکھ رکھاؤ کے اظہار سے اپنے ماتحت ساتھیوں میں سخت افسر کے طور شمار کیے گئے۔ وہ منتظم کے حیثیت دفتری ماحول میں ایک خاص ترتیب کے قائل تھے اور نظم و نسق کے لئے اسے ضروری سمجھتے تھے۔ یوں ان کے دفاتر میں انہیں دور سے دیکھنے والے، ان کے ظاہری مزاج کو سخت مزاج گردانتے رہے جب کہ ان کے قرب و جوار میں رہنے والے ان کی انسان دوستی اور شفقت آمیز شخصیت کے چشم دید گواہ تھے۔

آج اس ادبی تقریب میں جو شاعری پیش کی جا رہی ہے، وہ شاید ان کو اور ان کے مزاج کی گہرائی کو سمجھنے میں زیادہ معاون ہو۔ شاعر کی طرف سے اس نظم میں اس دعا پر اصرار ہے کہ عام آدمی کی بے بسی، مایوسی اور لاچارگی کسی طرح ختم ہو۔ انسانی معاشرے میں اسے بھی عملی طور پر انسان ہونے کا درجہ میسر ہو۔

بہ ظاہر تمام حاضرین ہی شاعری کے پیغام سے متأثر دکھائی دے رہے ہیں مگر میں جو منظر دیکھ پا رہا ہوں، مجھے خود اس منظر پر اپنے دیرینہ تعلق کے باوجود یقین نہیں آ رہا۔ کسی کلام کے سننے سے یا اس میں پیش کے گئے موضوع سے حساس آدمی کا فوری تأثر لینا تو سمجھ میں آتا ہے مگر یہاں ان کی کیفیت اس سے کہیں آگے کی ہے اور یہ سب خود میرے لئے بھی نہایت تعجب خیز!

ان اشعار کو سننے کے بعد ان کی ہچکیاں رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ ایسے جیسے اس کلام میں عام آدمی کی آسودگی، فلاح اور بہتر مستقبل کے لئے مانگی گئی تمام مناجات اور سفارشات ان کے اپنے دل کی آواز ہوں۔

پاکستان ٹیلی وژن کے ایک نامور تخلیق کار اورتجربہ کار منتظم کے طور ہر ضیاء الرحمان کے بارے میں بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ، وہ ایک تخلیقی ذہن اور تعمیری طرز عمل رکھنے والے ہنر مند اور درد مند تھے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments