مقتول کے لواحقین سے’راضی نامہ‘ کا کلچر اور ریاست کی بے حسی


خبر ہے کہ جن چار پاکستانیوں کو کشمالہ طارق کی گاڑی نے حشرات الأرض کی طرح کچل دیا تھا ان کے لواحقین کے ساتھی مبینہ طور پر راضی نامہ ہو گیا ہے ۔ اب کشمالہ طارق اور اس کا بیٹا دندناتے پھریں گے اور ریاست بیچ میں سے ایسے نکل جائے گی جیسے مکھن میں سے بال۔

کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ اٹلی میں ایک پاکستانی نے اپنی گاڑی سے ایک اطالوی نوجوان کو زخمی کر دیا۔ کیس عدالت میں تھا کہ کسی سیانے پاکستانی نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ جا کر نوجوان کی فیملی سے راضی نامہ کر لیں۔ کچھ معززین اس اٹالین کے گھر گئے۔ لڑکے کے والد نے بالکونی سے ڈرائیور کو پہچان لیا۔ اس نے گھر سے بندوق نکالی اور اوپر سے ہی فائرنگ شروع کر دی ۔ سارے سیانوں نے دوڑ کر جان بچائی۔ وکیل کے پاس گئے تو اس نے کہا بے وقوفو! ہمارے ملک میں راضی نامے سے جرم ختم نہیں ہوتا۔ عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ کیا سزا دینی ہے۔

اسی طرح ایک پاکستانی فیملی اور ایک اطالوی فیملی ایک بلڈنگ میں رہتی تھیں ، دونوں کے درمیان اچھے تعلقات تھے۔ پاکستانی فیملی کا بیٹا پاکستان سے آیا تو وہ اس گہری دوستی کا کوئی اور ہی مطلب سمجھا، اس نے اطالوی فیملی کی بیٹی کو لفٹ میں اکیلی دیکھ کر بوسہ دے دیا۔ لڑکی نے اسے کچھ نہ کہا، سیدھی پولیس کے پاس گئی۔ لڑکا گرفتار ہو گیا۔ پاکستانی فیملی کو پتہ چلا کہ وہ تو لمبا ہی جیل جائے گا۔ انہوں نے اطالوی والدین کے آگے ہاتھ جوڑ دیے روتے ہوئے ان کے قدموں میں سر رکھ دیا۔ ماں نے منتیں کی کہ ہمارے بیٹے کو معاف کر دیں ، وہ پاکستان سے آیا تھا جہاں یہ جملہ مشہور ہے کہ ہنسی تو پھنسی۔ اس لئے اسے یہاں کے قانون کا نہیں پتہ تھا، وہ آپ کی بیٹی کی نرمی اور اس کی مسکراہٹ کا کوئی اور ہی مطلب سمجھا۔ اطالوی ماں کا دل پسیج گیا اور وہ دونوں فیمیلیاں پولیس آفس پہنچ گئیں۔ پولیس انسپکٹر اطالوی فیملی کو کہنے لگا آپ کیا سمجھتے ہیں وہ صرف آپ کی بیٹی تھی کہ آپ جب چاہیں کسی کو معاف کر دیں۔ ریاست کے قانون کے تحت بچے ریاست کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ اٹلی میں کسی کم عمر بچے کو چھیڑنا ریاست کے قانون کو توڑنا ہے ۔ والدین کی کوئی حیثیت نہیں کہ وہ راضی نامے کرتے پھریں۔ ریاست اپنے قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔

پاکستان میں راضی نامے کی خبریں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو برے طریقے سے بدنام کرتی ہیں۔ ہمارا مذاق اڑتا ہے کہ آپ کے ملک میں کسی کو بھی قتل کرو ، اسے کچھ رقم دو اور بعد میں راضی نامہ کر لو۔ اس سارے پراسس میں ریاست کہاں کھڑی ہوتی ہے؟ ملکی ٹریفک قوانین کو توڑنا، حد رفتار کی دھجیاں اڑانا اور چوک یا اشارے کی پروا نہ کرتے ہوئے کسی کی جان لے لینا کیا یہ صرف اس فرد کے خلاف جرم ہے یا ریاست کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

یورپ میں گاڑی میں فون سن لیں تو لائسنس سے چھ پوائنٹ ختم ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کون سی ریاست ہے جہاں چار آدمی قتل کر دیں اور راضی نامہ کر لیں اور ریاست ایک اپاہج کی طرح فریقین کا منہ دیکھتی رہے۔ کیا کوئی وکیل ، کوئی مذہبی رہنما اس بات پر روشنی ڈال سکتا ہے کہ کیوں ہر روز ہمارے ملک میں عوام مرتے رہتے ہیں اور ریاست ان کی موت کا تماشا دیکھتی اور راضی نامے پر خاموش ہو جاتی ہے۔

دنیا میں پہلی گاڑی 1886ء میں تیار کی گئی۔ بیسویں صدے کی آغاز میں انسان نے ٹریفک قوانین بنانا شروع کر دیے۔ سب سے پہلے موٹروے کا آئیڈیا جرمنی نے دیا تھا۔ اور 1921ء میں موٹروے پر کام شروع ہو گیا۔ پاکستان میں پہلا موٹر وے 1992ء میں بنا یعنی ہم باقی دنیا سے ستر سال پیچھے تھے۔ دنیا میں اس وقت جرمنی واحد ملک ہے جہاں پر موٹروے اتنے بڑے ہیں کہ ان پر گاڑی دوڑانے کی حد رفتار نہیں ہے یعنی آپ دو سوکلومیٹر فی گھنٹہ بھی جانا چاہیں، آپ کے پاس فراری، پورش، بی ایم ڈبلیو، مرسیڈیز یا کوئی بھی گاڑی ہے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ گاڑی جتنی چاہیں تیز دوڑا سکتے ہیں۔

لوگ امریکہ کینیڈا سے جرمنی صرف اس لئے آتے ہیں کہ گاڑی تیز دوڑائیں گے۔ اس کے باوجود پچھلے سال جرمنی میں حادثوں کی صورت میں صرف تین ہزار لوگ موت کا شکار ہوئے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں ہر سال تیس ہزار لوگ حادثوں کی نذر ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے پاکستان میں پچھلے بیس سال میں اگر دہشت گردوں نے اسی ہزار لوگ قتل کیے ہیں تو ٹریفک حادثوں نے چھ لاکھ لوگ قتل کر دیے ہیں اور اس خاموش دہشت گردی کی نہ تو ہمیں پروا ہے اور نہ ہی ہم اس پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہر حادثے پر ہمارے پاس ایک ہی فقرہ ہوتا ہے۔ بس جی خدا کی یہی مرضی تھی۔ یہ فقرہ سائنسی طور پر ٹھیک ثابت نہیں ہو رہا۔ کیونکہ اگر خدا اس طرح بندے مارتا ہے تو وہ جرمنی میں تیس ہزار کیوں نہیں مارتا جہاں حد رفتار ہی کوئی نہیں ہے۔

میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ اس راضی نامے کے مذاق کو ختم کرے ٹریفک حادثہ ہوں یا کوئی اور قتل اگر کوئی فیملی معاف کرنا چاہتی تو کرتی رہے۔ لیکن ہر حادثے میں جو ریاست کے قوانین توڑے جاتے ہیں ان کا حساب تو ریاست کو ہی لینا چاہیے۔ لائسنس کی منسوخی، قتل ہونے کی صورت میں جیل یا جرمانے کی سزا یہ سب باتیں تو ریاست کی ذمہ داری ہیں۔

اگر ان قوانین پر عمل نہ ہوا تو یہ ملک اب جنگل بن جائے گا۔ جہاں ہر شہر میں ایک نوٹس بورڈ لگانا پڑے گا کہ چھوٹی گاڑی والے اپنی زندگیوں کی حفاظت خود کریں کہ بڑی گاڑیوں والوں کے پاس بندے مارنے کا لائسنس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments