شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ قید سی آئی ڈی کے جاسوس راجہ انار خان کی یادداشتیں


پہلی تقرری گجرات میں ہوئی

گیارہ مارچ 1960 میری تقرری کا پہلا دن تھا جب میں سرگودھا سے بس میں سوار ہو کر ضلع گجرات میں اپنی جائننگ رپورٹ دینے کے لیے پہنچا۔ گجرات کے تھانہ صدر سے عبداللہ نام کے ایک اے۔ ایس۔ آئی ان دنوں ریٹائر ہوئے تھے۔ ان کی خالی ہونے والی پوسٹ پر مجھے رپورٹ کرنا تھی۔ رپورٹ کرنے کے بعد ایک ہفتہ تک پولیس لائن میں قیام رہا۔ گجرات میں ان دنوں ایم۔ وائی اورکزئی بطور ایس پی تعینات تھے۔ میری سروس کا باقاعدہ آغاز تھانہ صدر گجرات سے ہی ہوا۔ پھر کچھ عرصے بعد ایک سال کی تربیت کے لیے پولیس ٹریننگ سینٹر سہالہ ضلع راولپنڈی بھیج دیا گیا۔

سہالہ میں ٹریننگ انسٹرکٹر کو پانی کا جگ دے مارا

اپنے شاید خاندانی بیک گراؤنڈ یا تعلیم کا اثر تھا کہ غلط بات خواہ کونی بھی کرے اس پر خاموش رہنا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ اے ایس آئی کی تربیت کے لیے نئے نئے پولیس ٹریننگ سہالہ داخل ہوئے تھے۔ جب ایک دن رات کا کھانا کھانے میس میں گیا۔ تو وہاں ہمارے سرگودھا دو ایک اور دوستوں کے پاس بیٹھ کر میں بھی کھانے میں شریک ہو گیا۔ پولیس ٹریننگ سینٹر سہالہ کے سخت ڈسپلن اور پروٹوکولز میں یہ بات بھی شامل تھی کہ پراپر ڈریس اور جوتوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہوا جائے۔

ہمارا ایک سرگودھا کا کولیگ ایسے ہی عام سے سلیپر پہن کر کھانا کھا رہا تھا جس پر ہمارے ایک انسٹرکٹر کی نظر پڑ گئی۔ بجائے اسے وارننگ دینے یا اس کی شکایت کرنے وہ انسٹرکٹر صاحب ہم سب کو مخاطب کرتے ہوئے الٹی سیدھی اور ٹیڑھی باتیں کرنے لگے کہ ”پتہ نہیں کہاں کہاں سے بھوکے ننگے آٹھ کر یہاں آ جاتے ہیں۔ کھانا کھانے کی تمیز نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔

باقی لڑکے تو چپ رہے مگر مجھ سے رہا نہیں گیا۔ احترام سے اسے بتایا کہ ہم سب اچھے گھرانوں اور کھاتی پیتی فیملیوں سے ہیں آپ ایسی باتیں نہ کریں جو دوسروں کی عزت نفس کو مجروح کریں۔ انسٹرکٹر صاحب جن کی وجۂ شہرت اپنی انسٹرکٹر برادری میں اور ہم انڈر ٹرینیز میں زیادہ اچھی نہیں تھی۔ مزید بھڑک اٹھے۔ اور مسلسل سخت سے سخت بولتے چلے گئے۔ ان کے اس رویے سے میرا بھی میٹر گھوم گیا اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر سامنے پڑا پانی کا جگ انہیں دے مارا۔ نہ صرف میس بلکہ پورے سینٹر میں پیش آنے والے اس ناخوشگوار واقعے سے تھرتھلی مچ گئی۔ عام حالات میں اس قسم کی حرکت سیدھی سیدھی نہ صرف ٹریننگ سینٹر بلکہ ملازمت سے بھی بے دخلی تھی۔

واقعہ کمانڈنٹ کو رپورٹ ہوا۔ تفصیلی انکوائری ہوئی۔ ہمارے باقی سارے انسٹرکٹرز اور کولیگز نے میرے حق اور مذکورہ انسٹرکٹر کے ناروا اور مشتعل کر دینے والے رویے کے خلاف گواہی دی۔ نتیجتاً مجھے محض وارننگ دے کر معاملہ داخل دفتر ہو گیا۔

جب میں چوہدری ظہور الٰہی کے بھتیجے چوہدری تجمل حسین کو پکڑ کر تھانے لے آیا

پولیس ٹریننگ سنٹر سہالہ میں ایک سال تربیت مکمل کرنے کے بعد میری تقرری پھر تھانہ صدر گجرات میں ہو گئی۔ اور مجھے معاون تفتیش کار مقرر کیا گیا۔ ہوا یوں کہ گجرات شہر کے محلہ نور پور کے آرائیوں نے ایک شخص کو قتل کر دیا۔ تفتیش کے لئے ایس ایچ او نے مجھے اور میرے ساتھ ایک اور پولیس افسر کو روانہ کیا۔ موقع پر پہنچ کر مقتول فیملی سے معلوم ہوا کہ جن پر قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے وہ چوہدری ظہور الٰہی کی کوٹھی میں موجود ہیں۔ ہم ان کی تلاش میں کوٹھی پہنچ گئے۔ چوہدری ظہور الٰہی تو وہاں موجود نہیں تھے۔ تاہم ان کے بھتیجے چوہدری تجمل حسین (سابق ایم این اے ) مل گئے۔ ان سے ملزمان کی بابت دریافت کیا تو انہوں نے ہر طرح سے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔

کی اس پر میں نے انہیں کہا کہ وہ ہمارے ساتھ تھانے چلیں اور ایس ایچ او سے خود چل کر اپنی پوزیشن واضح کریں۔ ہم چوہدری تجمل حسین کو تانگے پر بٹھا کر تھانے میں لے آئے۔ ایس ایچ او انہیں ہمارے ساتھ دیکھ کر تھوڑا گھبرا گیا۔ اور تھوڑی دیر پوچھ گچھ کے بعد انہیں جانے کی اجازت دے دی۔ ان کے جانے کے بعد ایس ایچ او ہمیں کہنے لگا کہ آپ کو ملزمان کے پیچھے بھیجا تھا اور آپ الٹا چوہدری ظہور الٰہی کے بھتیجے کو پکڑ کر تھانے لے آئے ہیں۔

بطور سب انسپکٹر ترقی

سروس کے چار سال بعد محکمے میں اچھی شہرت اور بہتر کارکردگی کی بنیاد پر 1964 میں میری بطور سب انسپکٹر ترقی ہو گئی۔ میں اس وقت 28 سال کی عمر کا پورے پنجاب میں سب سے کم عمر ترین سب انسپکٹر تھا۔ اس دوران مختلف اوقات میں گجرات کے تھانہ کٹھالہ شیخاں، تھانہ میانہ گوندل موجودہ ( ضلع منڈی بہاؤ الدین) تھانہ کھاریاں کینٹ، تھانہ لالہ موسیٰ، تھانہ ککرالی میں ایس ایچ او تعینات رہا۔

ان دنوں منڈی بہاؤ الدین کے علاقے ہیڈ فقیریاں (تھانہ میانہ گوندل) کی حدود میں چاول کی سمگلنگ بڑے زوروں پر تھی۔ جس میں خوشاب کا حاجی دوسا اور اس کے کارندے ملوث تھے۔ گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خاں نواب آف کالا باغ کے سخت احکامات تھے کہ اس سمگلنگ کو فوری طور پر روکا جائے۔ مجھے اس کی سپیشل اسائنمنٹ دے کر تھانہ میانہ گوندل میں ایس ایچ او تعینات کیا گیا۔ میں نے تین چار ماہ کے عرصے میں چاول کی سمگلنگ کے اس کاروبار کو ختم کروا دیا۔ دیگر اور بہت سے خطرناک مشن سرانجام دیے۔ قابل ذکر اس دوران ککرالی چوکی کی حدود میں چالیس کے قریب خطرناک اشتہاری ڈاکوؤں کے گروہ کا خاتمہ شامل تھا۔ جن کریما کلاچوری اور عنایت پونچھ وغیرہ نامی گرامی اشتہاری بھی شامل تھے۔

مونگی دی دال والا تھانیدار

راجہ انار خاں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ وہ گھر سے باہر کھانا کم ہی کھاتے تھے۔ خصوصاً جب کسی مقدمے کی تفتیش پر جاتے تھے تو کسی رشوت لینا تو درکنار وہاں کسی مدعی یا ملزم پارٹی کی طرف سے پیش کی گئی چائے یا کھانا تو بالکل بھی نہیں کھاتے تھے۔ البتہ ساتھ گئے دوسرے سٹاف کے لوگوں کو میری طرف سے اجازت ہوتی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو پیش کیا گیا کھانا کھا سکتے ہیں۔ میں چونکہ کھانے کا اپنا ٹفن گھر سے ساتھ لے کر جاتا تھا۔ میری اس عادت کی علاقے بھر میں شہرت تھی۔ مجھے چونکہ مونگ کی دال بہت پسند تھی۔ اس لیے میری اہلیہ اکثر ٹفن میں کھانے کے ساتھ مونگ کی دال پکا کر مجھے ساتھ دے دیا کرتی تھیں۔

ضلع گجرات کے سبھی تھانوں میں مونگ کی دال زیادہ کھانے کی میری اس عادت کا خوب چرچا تھا۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اکثر لوگ میری عدم موجودگی میں بعض اوقات میرے اپنے نام کی بجائے مجھے ”مونگی دی دال والا تھانیدار“ کے طور پر بھی یاد کیا کرتے تھے۔

جنرل بختیار کے قہقہے

1965 میں جب میری تعیناتی بطور ایس ایچ او کھاریاں کینٹ تھانہ میں تھی۔ تو چارج سنبھالنے اور دیگر ضروری امور کی انجام دہی کے بعد روایت کے مطابق ہر ایس ایچ او تھانہ کینٹ کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل تھی کہ کینٹ کے انچارج جنرل اور کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام سے ملاقات کی جائے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ ان دنوں فرسٹ ڈویژن کے انچارج جنرل رانا بختیار کے سٹاف افسر سے طے شدہ وقت مقررہ پر جب میں کینٹ پہنچا تو ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔

ہوا یوں کہ اپنے نام ”راجہ انار خاں“ کی چٹ بھجوانے کے بعد جب میں جنرل صاحب کے سٹاف افسر کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ مجھے دیکھ کر ہنسنے لگے۔ میں حیران ہوا کہ ایسا کیا ہو گیا ہے کہ سلام دعا سے پہلے ہی ہنسی سے میرا استقبال ہو رہا ہے۔ میں نے ہاتھ ملاتے ہوئے دوبارہ اپنا نام دہرایا تو انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ ”آپ ہی راجہ انار خاں ہیں؟“ ۔ میں نے اثبات میں جواب دیا تو سٹاف افسر کہنے لگا کہ ”میں تو سمجھ رہا تھا کہ کوئی بڑی عمر کا شخص ہو گا۔ آپ تو اس کے برعکس نکلے“ ۔

تھوڑی دیر بعد سٹاف افسر آٹھ کر جنرل صاحب کے کمرے میں چلا گیا۔ اور چند منٹ کے بعد باہر آ کر مجھے جنرل صاحب کے کمرے میں جانے کے لیے کہا۔

جنرل صاحب کے کمرے میں پہنچ کر بھی جنرل بختیار کی طرف سے میرا استقبال ان کے زوردار قہقہے نے کیا۔ اپنی کرسی سے اٹھ کر گرمجوشی سے میرا استقبال کیا۔ اور ساتھ ہی ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ ”کل جب آپ نے ملاقات کے لیے میرے سٹاف افسر سے وقت مانگا تھا تو آپ کے نام“ راجہ انار خاں ”کی مناسبت سے میرا اور میرے سٹاف افسر کا اندازہ یہ تھا کہ“ راجہ انار خاں ”نام کا نیا آنے والا ایس ایچ او بڑھے ہوئے پیٹ اور بالوں کو سرخ مہندی سے رنگے ہونے کے ساتھ ساتھ ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچا ہوا کوئی بوڑھا شخص ہو گا۔ مگر آپ تو نہ صرف جوان بلکہ نوجوان نکلے۔ یہاں نام کے حساب کتاب سے اندازہ لگانے میں ہم دونوں مار کھا گئے“ ۔ یہ کہتے ہوئے جنرل صاحب پھر ہنسنے لگے۔

خوشگوار ماحول میں بڑی اچھی باتیں ہوئیں۔ جنرل صاحب مجھے چھوٹا ہونے کے ناتے بیٹا کہہ کر بلاتے رہے۔ انہوں ملاقات کے اختتام پر اٹھتے ہوئے مجھے کہا کہ ”آپ اپنے نام کی طرح واقعی دلچسپ آدمی ہیں۔ اچھا وقت گزرے گا آپ کے ساتھ۔ کوئی بھی مسئلہ ہو آپ مجھے جب چاہیں مل سکتے ہیں“ ۔

تھانہ کھاریاں کینٹ، چھاؤنی سے کافی باہر نصیرہ گاؤں سے آگے واقع تھا۔ میں نے اپنی تعیناتی کے دوران جنرل صاحب سے خصوصی طور پر کہہ کر مین کینٹ کے اندر تھانے کے لیے زمین منظور کروائی اور بعد ازاں تھانہ کینٹ کی موجودہ جگہ پر تعمیر عمل میں لائی گئی۔

چوہدری فضل الہی کے بھتیجے کی گرفتاری

1965 ء میں جن دنوں میں ایس ایچ او تھانہ کھاریاں کینٹ تھا اس وقت چوہدری فضل الہی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر تھے۔ جو بعد ازاں سپیکر اور صدر پاکستان بنے۔ چوہدری فضل الہی کے بشیر نام کے ایک بھتیجے کی کھاریاں کینٹ کی حدود میں سملر اینڈ سملر کے نام سے شراب کی ایک دکان تھی۔ جو لائسنس کے ساتھ قائم کی گئی تھی۔

تاہم ہمیں ایک رات اطلاع ملی کہ شراب کی دکان میں رات گئے لڑکیاں لائی گئی ہیں۔ اور شراب و کباب کی محفل عروج پر ہے۔ میں نے پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ دکان پر ریڈ کیا۔ ہم چھت پر جانے کے لیے ساتھ سیڑھی لے کر گئے تھے۔ سارا سٹور اور چھت بھی دیکھ لی۔ بغیر پرمٹ کے شراب پیتے ہوئے تین مے خور پکڑ لیے گئے البتہ لڑکیاں ہمیں کہیں نظر نہ آئیں۔ سٹور میں ایک سائیڈ پر گتے کے باکس پڑے ہوئے تھے۔ ہم نے انہیں محض ڈبے خیال کرتے ہوئے زیادہ چیک نہ کیا بعد میں پکڑے جانے والے افراد سے جب تفتیش کی گئی تو انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ چھاپہ پڑنے پر لڑکیوں کو ان باکس کے پیچھے چھپا دیا گیا تھا۔

بغیر پرمٹ شراب بیچنے اور پینے کے الزام میں ڈپٹی اسپیکر چوہدری فضل الہی کے بھتیجے بشیر اور اس کے تین ساتھیوں کو گرفتار کر کے ہم نے ان کا طبی معائنہ کرایا تو بشیر کے علاوہ باقی تین افراد میں شراب نوشی ثابت ہو گئی جس پر میں نے پرچہ کاٹ کر ملزمان کو حوالات میں بند کر دیا۔ بعد ازاں مقدمہ چلا۔ بشیر کو شاید پانچ سو روپے جرمانہ اور باقی تین افراد کو بغیر پرمٹ کے شراب نوشی کے جرم میں تین تین ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس واقعے کا سارے علاقے میں خوب چرچا ہوا تھا۔

چوہدری فضل الہی ( بعد میں سپیکر قومی اسمبلی اور صدر پاکستان بھی رہے ) نے اسے اپنی سبکی خیال کرتے ہوئے آئی جی پنجاب پولیس کو فون کر کے میرا فوری طور پر تبادلہ کروا دیا۔ میں نے اس نیت سے نہیں کہ میرا تبادلہ منسوخ ہو محض روٹین میں اپنا چارج چھوڑ کر جانے کی اطلاع کینٹ میں میجر چوہدری محمد حسین (میجر ڈویژن ہیڈ کوارٹر) کو دے دی۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو میں نے بشیر کی شراب کی دکان پر چھاپہ مارنے اور پرچہ کاٹنے کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ غالباً چوہدری فضل الہی نے اسے اپنی بے عزتی خیال کرتے ہوئے آئی جی سے کہہ کر میرا تبادلہ کروا دیا ہے ”۔ میجر چوہدری محمد حسین نے مجھے کہا کہ میں ابھی چارج نہ چھوڑوں وہ تھوڑی دیر بعد کال کرتے ہیں۔

ایک گھنٹے کے بعد میجر محمد حسین کی کال آ گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ”جنرل صاحب کی آئی جی پولیس سے بات ہو گئی ہے اور آپ کا ہوا تبادلہ منسوخ ہو جائے گا۔ اور جنرل صاحب نے آئی جی پولیس سے کہا ہے کہ راجہ انار خاں کے تبادلے کے آرڈر کینسل کریں۔ تو جواب میں آئی جی نے وضاحت کی کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی چوہدری فضل الہی نے انہیں ذاتی طور پر یہ تبادلہ کرنے کا کہا ہے۔ اس کے جواب میں جنرل رانا بختیار نے آئی جی سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ تھانہ کینٹ میں راجہ انار خاں ہی ایس ایچ او رہے گا۔ اور ضرورت پڑی تو وہ خود اس ضمن میں چوہدری فضل الہی سے بات کر لیں گے“ ۔

اب ایسی صورت حال ایک تجربہ کار اور دوراندیش آئی جی کو بخوبی پتہ ہوتا ہے کہ اسے اقتدار کے ترازو کے کس پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا ہے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ میں چوہدری فضل الہی کی منشا کے برخلاف بدستور ایس ایچ او اپنے فرائض سرانجام دیتا رہا۔

1965 ء کی جنگ میں میرا حصہ 

راجہ انار خاں نے بتایا کہ ستمبر 1965 ء میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے بطور ایس ایچ او تھانہ کھاریاں کینٹ اور ان کے عملے نے بھی عملی طور پر جنگ حصہ لیا تھا۔ وہ اپنی فوج کے لیے اضافی کمک کے طور پر اپنی تھانے کی گاڑی اور دیگر پرائیویٹ گاڑیوں میں باڈر پر اسلحہ اور دیگر جنگی ساز و و سامان پہنچا کر آتے تھے۔ اس طرح رات کو جو توپیں فائرنگ کی غرض سے بارڈر پر لے جائی جاتی تھیں صبح منہ اندھیرے جب وہ واپس لائی جاتیں تو ہم ہم انہیں کینٹ سے باہر تھانے سے ملحقہ درختوں کے ایک جھنڈ میں لے جا کر صفائی کے بعد انہیں درختوں کے جھنڈ میں چھپا دیتے تھے۔ کیونکہ دن کے اوقات میں اکثر اقوام متحدہ کے آبزرورز معائنے کے لیے آتے رہتے تھے۔ اور فائرنگ کے بعد صاف شدہ درختوں کے جھنڈ میں چھپائی گئی توپوں کی طرف ان کا دھیان نہیں جاتا تھا۔

اس طرح بارڈر پر زخمی ہو کر سی ایم ایچ ہسپتال کھاریاں واپس آنے والے زخمیوں کے لیے بلڈ اکٹھا کرنے کا ایک مربوط نظام میں نے بنا رکھا تھا۔ کھاریاں سمیت ارد گرد کے درجنوں دیہات کے تمام بلڈ گروپس کے حامل ہزاروں کی تعداد میں سویلین رضاکارانہ خون دینے والے جوانوں کا ڈیٹا ہمارے پاس رجسٹر میں درج تھا۔

جب بھی اور جس گروپ کا بھی خوں مہیا کرنے کے متعلق ہمیں کہا جاتا ہم فوری طور پر اپنی گاڑیاں بھیج کر مطلقہ بلڈ گروپ کے لڑکوں کو سی ایم ایچ پہنچا دیتے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی کر رکھا ہوتا تھا۔ گجرات شہر میں میرے سسرالی رشتے داروں جن کا گجرات میں نشیمن ہوٹل اور اپنی ٹرانسپورٹ کمپنی تھی۔ ان سے ایک 26 سیٹر بیڈ فورڈ بس ہم نے فری میں اس مقصد کے لیے لے رکھی تھی۔ قومی جذبے کے تحت ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔

راجہ انار خاں نے بتایا کہ جنگ کے دوران گجرات سے ملحقہ چھمب جوڑیاں کے محاذ پر کئی بار ان کا جانا ہوا۔ ایک دن جب وہ اضافی نفری کے طور پر کچھ سامان پہنچانے محاذ پر گئے ہوئے تھے۔ اسی دوران وہاں بھارتی فوجیوں کی جانب سے شدید شیلنگ شروع ہو گئی۔ چند گولیاں جب ان کے تھوڑے قریب گریں تو موقع پر موجود ہمارے جوانوں نے مجھے فوراً قریبی مورچے میں جانے کو کہا۔ مورچے موجود ہمارے دو جوان بڑھ چڑھ کر پٹے والی گن سے دشمن پر فائرنگ کر رہے تھے۔ ان کے پاس ہی ایک سٹین گن پڑی تھی۔ سہالہ پولیس ٹریننگ کالج میں ہمیں دی گئی فائرنگ کی ٹریننگ یہاں کام آئی۔ اس کی بدولت میں نے بھی سٹین گن اٹھا کر دشمن کی جانب فائرنگ شروع کر دی۔

چھمب جوڑیاں کے محاذ پر کارروائی کرتے ہوئے پاک فوج نے بھارت کا ایک دیوہیکل ٹینک، جس کا نام ”شرمن ٹینک“ تھا، پکڑ لیا تھا۔ راجہ انار خاں کے بقول اس ٹینک کو کھاریاں کینٹ بحفاظت واپس لانے کی ذمہ داری میں انہیں بھی شریک کیا گیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments