شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ قید سی آئی ڈی کے جاسوس راجہ انار خان کی یادداشتیں


راجہ انار خاں ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، سپیشل برانچ پنجاب پولیس پاکستان کی بنتی بگڑتی سیاسی تاریخ کے چشم دید گواہ ہیں۔ انہوں بہت اہم جگہوں پر تعینات رہ کر اپنے فرائض سرانجام دیے۔ جتنا عرصہ شیخ مجیب الرحمٰن مغربی پاکستان کی جیلوں میں قید رہ کر اپنے خلاف غداری کے مقدمے کا سامنا کرتے رہے، اس دوران راجہ انار خاں بطور انٹیلی جنس افسر ایک مشقتی کے روپ تمام عرصہ جیل میں ان کے ساتھ رہے۔

راجہ انار خاں پاکستان کا ایک تاریخی کردار ہے۔ وہ پاکستان پولیس میں 1960 ء میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر بھرتی ہوئے اور 1999 ء میں ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اپنی اصول پسندی کی وجہ سے پولیس سروس میں رہتے ہوئے کسی سے رشوت نہ لینے اور نہ ہی کسی کو دینے کے فارمولے پر عمل پیرا رہے۔ سہالہ پولیس ٹریننگ گئے تو بے اصولی پر اپنے ہی ٹریننگ انسٹرکٹر کو پانی کا جگ دے مارا۔ ایک تھانے میں ایس ایچ او تعینات تھے۔ ان کے ایس پی تھانے کے معائنے پر آئے تو ان سے گرمی سردی ہو گئی۔ ایس پی کے ہاتھوں اپنی بے عزتی برداشت نہ کر سکے۔ ان کے راجپوت خون نے اتنا جوش مارا اور طیش میں آ کر اپنے ایس پی کے منہ پر تھپڑ مار دیا۔ وہ الگ بات ہے کہ اس کا خمیازہ انہیں پولیس سے سپیشل برانچ بدری کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

راجہ انار خاں نے بہت اہم مواقع پر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کی خدمت کی۔ 1965 ء کی جنگ کے دوران بطور ایس ایچ او تھانہ کھاریاں کینٹ پاک افواج کے شانہ بشانہ چھمب جوڑیاں کے محاذ پر گاڑیوں میں اسلحہ کی سپلائی بہم پہنچانے میں پاک فوج کے شریک کار رہے۔

محاذ جنگ سے آنے والے زخمیوں کو خون مہیا کرنے کے لیے سویلین لوگوں کو اکٹھا کر کے سی ایم ایچ ہسپتال کھاریاں پہنچانے کا بندوبست کرتے رہے۔ چھمب جوڑیاں کے محاذ پر پاک فوج کی جانب سے دشمن سے چھینا گیا ایک بڑا ٹینک (شرمن) ایک ٹرالے میں لدوا کر کھاریاں کینٹ لائے۔ اسے لاتے ہوئے ٹینک کے وزن کی وجہ سے کئی جگہ ٹرالے کے ٹائر پھٹے۔ ایک صبر آزما مشقت کے بعد وہ مذکورہ ٹینک کھاریاں پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔

جب شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کر کے پنجاب کی لائل پور جیل میں لایا گیا تو راجہ انار خاں سپیشل برانچ میں سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہیں محکمے کی جانب سے یہ مشن سونپا گیا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر جیل میں شیخ مجیب الرحمٰن کے مشقتی اور سیکورٹی انچارج کے طور پر جیل میں اس کے ساتھ رہیں گے۔ انہوں نے پہلے لائل پور بعد ازاں میانوالی جیل میں یہ ڈیوٹی کمال خوبی کے ساتھ نبھائی۔

شیخ مجیب الرحمٰن آخری وقت یہ نہیں جان سکے تھے کہ دراصل راجہ انار خاں ایک مشقتی قیدی نہیں بلکہ انہیں ان کی حرکات و سکنات اور حفاظت کے لیے مامور کیا گیا ہے۔ اور وہ پولیس کی سپیشل برانچ کا ایک سب انسپکٹر ہے.

راجہ انار خاں نے پاک فوج کے شعبہ فیلڈ انٹیلی جنس یونٹ (ایف آئی یو) کے ساتھ مل کر جاسوسی کی غرض سے پاکستان آنے والے ساڑھے چار سو کے قریب بھارتی جاسوسوں کو گرفتار کروانے میں معاونت کی۔ شاہی قلعہ لاہور میں پکڑے جانے والے ایسے جاسوسوں کے خلاف تحقیقات کیں۔ ان میں سے بہت سوں کے کیس عدالتوں میں لے کر گئے۔ اور انہیں لمبی لمبی سزائیں دلوائیں۔

پنجاب کی سپیشل برانچ پولیس میں راجہ انار خاں جاسوسوں کے خلاف سخت تحقیقات کے حوالے ماہر تفتیش کار یعنی ”جاسوس سپیشلسٹ“ سمجھے جاتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ان کی خاص شہرت تھی۔

ایک بھارتی جاسوس موہن لال بھاسکر جو شاہی قلعہ لاہور میں ان کے زیر تفتیش رہا، عدالت سے اس نے سزا پائی۔ 1967 سے 1974 کے دوران وہ پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید رہا۔ جب اپنی سزا بھگت کر واپس بھارت گیا تو اس نے ”پاکستان کی جیلوں میں گزرے میرے سال“ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے راجہ انار خاں کے طریقہ تفتیش، ان کی شخصیت اور اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے حوالے سے ایک باب بعنوان ”اعلیٰ راجپوت نسل سوریا ونشی کا راجہ انار خاں“ بھی لکھا۔

راجہ گل انار خاں کی ساری زندگی مسلسل محنت اور ایمانداری سے عبارت رہی ہے۔ ان کی زندگی کی حقیقی کہانی میں بہت سے اتار چڑھاؤ بھی آئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وہ مشہور زمانہ ”کمالیہ نکیل کیس“ میں بہت سالوں تک زیر عتاب بھی رہے۔

سیشن کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک ان کا کیس چلا۔ ان کی سروس تو ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ تاہم اس وجہ سے ان کی محکمانہ سنیارٹی متاثر ہوئی۔ ان کے ساتھ بھرتی ہونے والے ڈی آئی جی بن کر ریٹائرمنٹ کو پہنچے۔

محکمے میں اپنی ایمانداری کی بدولت رشوت نہ خود لینے اور نہ کسی کو دینے کے فارمولے پر عمل پیرا رہے۔ جس کا انہوں نے نقصان بھی بہت اٹھایا۔ کہنے لگے کہ ”فائل میں سارے لوازمات پورے ہونے کے باوجود وہ کئی سال ڈی ایس پی سے ایس پی پرموٹ محض اس لیے نہ ہو سکے کہ اس وقت کا ڈی آئی جی (ہیڈ کوارٹر ) صلاح الدین نیازی تین لاکھ روپے رشوت مانگتا تھا“ ۔

جب میں ڈی آئی جی کے کمرے سے ملاقات کر کے باہر نکلا تو اس کے پی اے نے مجھے اپنے پاس بلایا اور رازداری سے کہنے لگا کہ ”راجہ صاحب! آپ کے بیچ کے ہی فلاں فلاں دو ڈی ایس پی تین تین لاکھ روپے دے کر ایس پی کی پروموشن لے چکے ہیں۔ آپ بھی مال لگائیں اور ترقی پائیں۔ میں جس نے خود حرام کا پیسہ نہیں کمایا تھا۔ پروموشن کے لیے پیسے کہاں سے لا کر دیتا۔ اس طرح میرٹ پر ہونے کے باوجود محکمانہ مخاصمت اور رشوت نہ دینے کے باعث بروقت میری ترقی نہ ہونے دی گئی“ ۔

1970 ء کی دہائی میں راجہ انار خاں اپنے خلاف سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے کیس کی وجہ سے صرف ایس پی کے عہدے تک ہی پہنچ پائے۔

انہوں نے پولیس کے محکمے میں رہتے ہوئے ایک نہایت ایماندار پولیس افسر کی شہرت پائی۔ یہ نہیں کہ پیسے کمانے کے مواقع انہیں نہیں ملے۔ بہت دفعہ ایسے مواقع ملنے کے باوجود بھی وہ ثابت قدم رہے۔ اور پولیس کے محکمے میں رہتے ہوئے اچھی شہرت کے مرتبے پر پہنچے۔ آئیے راجہ انار خاں کی آب بیتی انہی کی زبانی سنتے ہیں۔

راجہ انار خاں ضلع جہلم (بعد ازاں ضلع چکوال) کے گاؤں درہروگئی میں 15 مئی 1935 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد حاجی اللہ دتہ خاں بھی محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ ان کے والد کے مختلف جگہوں پر تبادلے ہوتے رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے راجہ انار خاں کی تعلیم بھی مختلف علاقوں کے سکولوں میں ہوتی رہی۔ جن میں ضلع جہلم، خوشاب اور سرگودھا شامل ہیں۔

راجہ انار خاں نے میٹرک کا امتحان 1953 میں گورنمنٹ ہائی سکول مٹھا ٹوانہ ضلع سرگودھا سے پاس کیا۔ جب گورنمنٹ کالج سرگودھا میں فرسٹ ائر میں داخل ہوئے تو پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران مقامی ٹیکسٹائل مل میں ٹائم کیپر کی ملازمت کر کے نہ صرف اپنے اخراجات پورے کرتے رہے بلکہ کافی پیسے بچا بھی لیتے تھے۔

بی اے کرنے کے دوران انہیں سرگودھا کے مقامی دفتر روزگار میں پارٹ ٹائم کے طور پر سروے کرنے کی ایک ملازمت مل گئی تھی۔ اس طرح اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں محنت سے کام کرنے کی عادت بھی پڑ گئی تھی۔ جو آگے چل کر ان کے بہت کام آئی۔

1958 ء میں راجہ انار خاں نے بی اے کا امتحان امتیازی حیثیت پاس کر لیا۔ بی اے کرنے کے بعد آگے ان کا ارادہ لاہور جا کر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے ایل ایل بی پروگرام میں داخلہ لینا تھا۔ تاہم داخلے کھلنے میں ابھی کافی ماہ پڑے تھے۔ اس فارغ وقت کا مصرف انہوں ایسے کیا کہ ان دنوں سرگودھا کی کیرانہ پہاڑی میں یو ایس ایڈ کے تعاون سے ایک ریڈار نصب تھا جس کو پاکستانی عملے کے ساتھ ساتھ امریکی انجنیئر چلا رہے تھے۔ وہاں اتفاق سے خالی ہونے والی اسسٹنٹ کی ایک آسامی پر راجہ انار خاں کو ملازمت مل گئی۔ چھ سات سو روپے ماہوار تنخواہ تھی۔ دس ماہ تک چلنے والی یو۔ ایس ایڈ کی اس ملازمت سے ان کے پاس اچھے خاصے پیسے جمع ہو گئے۔

1959 میں جب یونیورسٹی میں داخلے کھلے تو کسی وجہ سے ایل ایل بی میں تو ان کا داخلہ نہ ہو سکا۔ تاہم پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں ایم اے ہسٹری میں انہیں داخلہ مل گیا۔

ایم اے کے دوران ہی راجہ انار خاں نے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں تعینات اپنے والد کی خواہش پر محکمہ پولیس میں نکلنے والی اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی آسامیوں پر درخواست بھی جمع کروا رکھی تھی۔ راجہ انار خاں کے بقول ”ایک دن میں لاہور سے سرگودھا گیا ہوا تھا اور گھر میں بننے والے نئے باتھ روم کی تعمیر میں مصروف تھا کہ ایک شخص کے ذریعے والد صاحب کا پیغام ملا کہ میں فوراً سب کام چھوڑ کر سرگودھا پولیس لائن پہنچوں جہاں اے ایس آئی کی آسامیوں کے لیے درخواست گزاروں کے ٹیسٹ انٹرویو ہو رہے ہیں۔

مجھے یہ سن کر سخت حیرت ہوئی کہ مجھے اس سلسلے میں ابھی تک محکمے کی طرف باقاعدہ کوئی لیٹر نہیں ملا تھا۔ خیر مزید وقت ضائع کیے بغیر میں نہا دھو کر تیار ہوا اور ”پک اینڈ پک“ کمپنی کا بنا ہوا اپنا پسندیدہ تھری پیس سوٹ پہن کر پولیس لائن سرگودھا پہنچ گیا۔

امیدواران کی لسٹ میں سے میرا نام پہلے ہی پکارا جا چکا تھا اور میری عدم حاضری کی بنا پر دوسرے امیدواروں کے ابتدائی ٹسٹ اور انٹرویوز چل رہے تھے۔ ایک والد صاحب کے محکمے میں ہونے اور دوسرے کال لیٹر نہ ملنے کے معقول جواز کی وجہ سے مجھے ابتدائی تحریری امتحان اور انٹرویو میں بیٹھنے کا موقع مل گیا۔

میں ابتدائی سارے مرحلے پاس کر گیا۔ انٹرویو میں میری کارکردگی دیکھ کر ضلع سرگودھا کے ایس ایس پی نے جو ضلعی ریکروٹ کمیٹی کے انچارج بھی تھے نے مجھے زبانی یقین دہانی کروا دی کہ اگلے مرحلے کے لیے وہ بھرپور طریقے سے میری سفارش کریں گے۔ انٹرویوز کا اگلا مرحلہ راولپنڈی میں ہونا تھا۔

کوئی مہینے ڈیڑھ مہینے بعد اب راولپنڈی سے انٹرویو کی کال چھٹی کی صورت میں آ گئی۔ انٹرویو والے دن سلیکشن کمیٹی کے سامنے پیش ہوا۔ کمیٹی میں ڈی آئی جی راولپنڈی ایک ایڈیشنل آئی جی جو بنگالی تھے کے علاوہ تین اور ڈی آئی جی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔

پہلے مرحلے میں کل دو سو امیدواروں میں سے اکیس لڑکے منتخب کیے گئے۔

مجھے اب تک یاد ہے کہ انٹرویو کے لیے سب سے پہلے میرا نام ہی پکارا گیا تھا۔ بڑا ٹف انٹرویو ہوا تھا۔ انگریزی زبان میں کیے گئے انٹرویو میں ہر قسم کے سوالات پوچھے گئے۔ بی اے کرنے کے بعد سرگودھا میں یو۔ ایس۔ ایڈ کی میری ملازمت نے میری انگریزی نکھارنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ دوسرا ایم اے ہسٹری میں جاری میری تعلیم کو دیکھتے ہوئے زیادہ تر سوالات مجھ سے تاریخ سے متعلق پوچھے گئے۔ انٹرویو میں میری کامیابی میں تاریخ سے متعلق معلومات کے علاوہ شاید اعتماد سے بولی گئی انگریزی میں مہارت بھی ایک بنیادی وجہ بنی۔ اس انٹرویو میں کامیابی کے علاوہ ایک اور فائنل انٹرویو بھی ہوا جس میں بھی مجھے کامیابی حاصل ہوئی۔

میرے ساتھ اے ایس آئی منتخب ہونے والے دیگر لڑکوں میں یوسف باجوہ (کبڈی کے معروف قومی کھلاڑی نذیر باجوہ کا بھائی) اختر علی شگری (سابق آئی جی سندھ پولیس افضل شگری کا بھائی) ریاض شاہ (چکوال) چوہدری ہدایت (گجرات) اور نسیم قریشی (سرگودھا) وغیرہ شامل تھے۔

”تھانیداری“ ملنے پر میں رو رہا تھا

راجہ انار خاں نے بتایا کہ ”جب فائنل انٹرویو کے بعد انہیں پتہ چل گیا کہ ان کی بطور اے۔ ایس۔ آئی سلیکشن ہو گئی ہے۔ تو انٹرویو میں ساتھ گئے ان کے والد بہت خوش ہوئے، مگر مجھے کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی۔ راولپنڈی سے سرگودھا آنے کے لیے ہم پولیس لائن سے بسوں کے اڈے پر آنے کے لیے تانگے پر سوار ہوئے۔ والد صاحب تانگے کے آگے بیٹھ گئے اور میں پیچھے۔ اب تانگے کے پیچھے بیٹھے بیٹھے مختلف سوچوں نے آ گھیرا۔ میری خواہش تو تھی کہ میں ایم اے کے بعد کسی کالج میں پروفیسر لگ کر پڑھانا شروع کروں گا۔ پولیس میں اے۔ ایس۔ آئی بن کر کیا میری خواہشات اندر ہی اندر دب جائیں گی۔ افسردگی سے یہ سوچتے ہوئے بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بسوں کے اڈے پر پہنچنے تک میں مسلسل روتا رہا۔

والد صاحب کی سخت گیر طبیعت کی وجہ سے اپنے دل کی بات ان سے کہنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ کیونکہ والد صاحب خود پولیس میں تھے۔ اور وہ چھوٹے رینک سے ترقی کرتے اوپر گئے تھے۔ اس لیے یہ ان کے لیے قابل فخر بات تھی کہ ان کا بیٹا ڈائریکٹ اسسٹنٹ سب انسپکٹر بن گیا ہے ”۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments