پنجابی زبان کو پنجابیوں کے مان کی ضرورت ہے


پنجابی ایک قدیم زبان ہے اور اس کے ثقافتی و تہذیبی رشتے اپنی دھرتی کے ساتھ بہت مضبوط اور گہرے ہیں۔ صوبہ پنجاب کا کلچر پنجابی زبان کے ارد گرد گھومتا ہے کیونکہ پنجابی زبان مختلف خیالات، جذبات اور احساسات کے اظہار کے لیے نہایت موزوں زبان ہے۔

پاکستان کی آبادی کا 48 فیصد حصہ پنجابی بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجابی پاکستان کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ محققین اور ماہرین لسانیات کے مطابق تصورات کو بہترین طریقے سے سمجھانے کے لیے بچے کی ابتدائی تعلیم و تربیت اس کی مادری زبان میں ہونی چاہیے۔ صوبہ پنجاب میں پنجابی زبان کے لیے مروجہ رسم الخط شاہ مکھی ہے اور اسے سیکھنا آسان ہے کیونکہ یہ عربی اور فارسی رسم الخط سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔

پنجابی زبان ایک مؤثر ادبی پس منظر کی مالک ہے۔ اپنی صوفیانہ شاعری کے حوالہ سے پنجابی زبان عوام کے دلوں میں بستی ہے اور ان کے دل و دماغ کو تسخیر کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ اگر پنجابی کو قومی زبانوں میں سے ایک قرار دیا جائے تو پنجابی بولنے والے عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی ۔

وارث شاہ، سلطان باہو، بلھے شاہ، شاہ حسین، خواجہ فرید، میاں محمد بخش اور بابا فرید جیسی عظیم ہستیوں نے پنجابی زبان کو اپنے جذبات کی اظہار کا ذریعہ بنایا اور آج بھی پنجابی بولنے اور سمجھنے والے دلوں پر ان کا کلام وجد و سرور کی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔

یونیسکو 1953ء سے لے کر آج تک اس بات کا متواتر پرچار کر رہا ہے کہ 100 فیصد خواندگی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے بچے کو اس کی مادری زبان میں زیور تعلیم سے آراستہ کرنا بہت ضروری ہے۔ مگر یونیسکو کا یہ پرچار پاکستانی اشرافیہ کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

انگریزوں نے جب پنجاب کو اپنی نو آبادی بنایا تو پنجابی زبان کو بھی اس غیر ملکی قبضہ کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اسی طرح کا خمیازہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بولی جانے والی زبانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔ مگر سندھ اور خیبر پختونخوا نے تو جلد یا بدیر اس زیاں کی تلافی کر لی مگر پنجاب جو آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ تھا پنجابی زبان کو اپنی دفتری زبان بنانے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہا۔ پنجاب کی تقریباً 75 فیصد آبادی پنجابی بولتی ہے۔ پنجابی پاکستان کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان کا درجہ رکھتی ہے مگر شومئی قسمت سے پنجابی کو پاکستان میں تو کیا خود صوبہ پنجاب میں بھی ابھی تک دفتری زبان کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا۔

معروف سکالر، شاعر اور کالم نگار مشتاق صوفی کے مطابق ”ایک طویل عرصہ سے پنجابی زبان کی مشکلات گوناگوں ہو چکی ہیں۔ یہ صورتحال اگرچہ بیسویں صدی میں اذیت ناک تھی تو اب اکیسویں صدی میں اور بھی قابل رحم بن چکی ہے“ ۔

صوبہ پنجاب کو پانچ دریاؤں کی سر زمین کہا جاتا ہے۔ وادی سندھ میں پنجابیوں کو آباد ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے۔ مؤرخین کے مطابق پنجابی اس علاقے میں 2500 قبل مسیح سے آباد ہیں۔ پنجاب کا علاقہ پاکستان اور ہندوستان دونوں دھرتیوں پر محیط ہے۔ اور اسی طرح پنجابی زبان بھی دونوں ملکوں میں بولی جاتی ہے اگرچہ سرحد کی دونوں جانب رسم الخط مختلف ہیں۔

تاریخی اعتبار سے پنجاب ان تمام حملہ آوروں کی گزرگاہ رہ چکا ہے جو یونان، وسطی ایشیا، ایران اور افغانستان سے ہندوستان میں آئے۔ اپنے کلیدی محل وقوع کی وجہ سے پنجاب کئی سلطنتوں کا حصہ رہ چکا ہے۔

پنجابی اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے ثقافتی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 2008ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں سات کروڑ تریسٹھ لاکھ پینتیس ہزار تین سو پنجابی بولنے والے افراد بستے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں 97.21 فی صد مسلمان ہیں جبکہ غیر مسلم اقلیتوں میں عیسائی آبادی کا 2.31 فیصد بنتے ہیں۔ دوسری اقلیتوں میں احمدی، ہندو، سکھ، پارسی اور بہائی شامل ہیں۔

رقبہ کے اعتبار سے پنجاب پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے اور 79284 مربع میل پر مشتمل ہے۔ پنجاب پاکستان کا سب سے ترقی یافتہ، سب سے زیادہ آباد اور سب سے زیادہ خوشحال صوبہ ہے۔ لاہور پنجاب کا صدر مقام ہونے کے علاوہ اس کا سب سے بڑا ثقافتی، تاریخی، انتظامی اور معاشرتی مرکز بھی ہے۔

دور حاضر میں پنجابی کی بطور زبان حالت قابل توجہ ہے۔ پنجابی زبان کو ابھی تک پاکستان کی سرکاری قومی زبانوں میں سے ایک کا درجہ نہیں مل سکا اور ابھی تک اسے پنجاب کی علاقائی زبان ہی گردانا جاتا ہے۔

مشہور دانشور ڈاکٹر منظور اعجاز کے مطابق ”پنجاب میں پنجابی کو نہ تو ابھی تک صوبہ کی سرکاری زبان بنایا گیا ہے اور نہ ہی اسے کسی بھی سطح پر ذریعہ تعلیم کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کے وسطی علاقوں میں پنجابی زبان کے صرف دو روزنامے شائع ہو رہے ہیں اور صرف چند ماہانہ جرائد پنجابی پریس میں شائع ہو رہے ہیں۔

بہت سے پنجابیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجابی زبان کی اہمیت کو پاکستان میں اسی طرح تسلیم کیا جانا چاہیے جس طرح کی اہمیت اسے ہندوستان میں حاصل ہے۔ علاوہ ازیں کاروباری دنیا، زراعت، صنعت، حکومت اور فوج میں پنجابیوں کو جو رسوخ حاصل ہے اس پر بعض اوقات پاکستان کے دوسرے ثقافتی گروہوں کو رشک آتا ہے۔

اگر پوری دنیا کی بات کی جائے تو دنیا میں آباد تقریباً 100 ملین لوگ پنجابی زبان کو اپنی پہلی اور ابتدائی زبان کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ پنجابی دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ وہ تارکین وطن جو امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور سنگاپور وغیرہ ہجرت کر چکے ہیں وہ بھی پنجابی زبان کو ذریعۂ اظہار بناتے ہیں۔ برطانیہ میں پنجابی دوسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور کینیڈا میں یہ چوتھی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔

ماں بولی کے عالمی دن کے حوالے سے پنجابیوں کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

1) پنجابی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے طریق کار وضع کرنا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پنجابی زبان کو بطور صوبائی زبان ذریعہ تعلیم کے طور پر نافذ کیا جائے تاکہ پنجابی زبان کے متعلق لوگوں میں شعور و آگہی پیدا ہو۔

2) میڈیا کے مختلف ذرائع جن میں ٹیلی وژن، ریڈیو، اخبارات اور رسائل وغیرہ شامل ہیں وہاں پر پنجابی زبان رابطے کے لیے استعمال کی جائے اور اس کے صحیح استعمال کو رائج کیا جائے۔

3) سرکاری، نیم سرکاری اور لوکل باڈیز کی سطح پر پنجابی زبان کو دفتری ریکارڈ قلم بند کرنے کی زبان کے طور پر استعمال کیا جائے اور صوبائی حکومت، نیم صوبائی حکومت، خود مختار اداروں اور میونسپل کمیٹیوں وغیرہ کے ریکارڈ کو پنجابی میں منتقل کیا جائے۔

4) پنجابی زبان کے صحیح استعمال کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ریکارڈ، نوٹیفیکیشن، ادارہ جاتی خط و کتابت اور جرائد و رسائل نیز تعلیمی کتابیں اور سرکاری کاغذات، عوامی یادگاروں، نقشہ جات، اشتہارات، سائن بورڈز، جگہوں وغیرہ کے ناموں کو لکھتے وقت پنجابی زبان کے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔

5) مقابلہ وغیرہ کے امتحانوں میں بھی پنجابی زبان کو اس کا مکمل و متوازن حق دیا جائے۔

6) مقتدرہ قومی زبان کے تعاون اور توسط سے مخصوص وفاقی حکومتی کاغذات اور تصنیفات میں بھی پنجابی زبان کے فروغ کو یقینی بنایا جائے۔

7) پنجابی زبان میں لغات، انسائیکلو پیڈیا، حوالہ جاتی کتب، سائنسی ادب اور جرائد کی اجراء و اشاعت یقینی بنائی جائے۔

8) سائنسی و ادبی موضوعات کی تکنیکی اصطلاحات کو پنجابی زبان میں ترجمہ کر کے شائع کروایا جائے۔

9) پنجابی زبان میں دور حاضر کی ایجادات مثلاً کمپیوٹر، ٹائپ رائٹنگ اور شارٹ ہینڈ وغیرہ کے بارے میں تربیتی پروگراموں کا اجراء کیا جائے۔

10) پنجابی میں لکھے گئے ادبی کارناموں کو پاکستان کی دوسری قومی زبانوں یعنی اردو، پشتو، سندھی، براہوی اور بلوچی زبانوں میں ترجمہ کروایا جائے جبکہ پاکستان کی دوسری قومی زبانوں میں ہونے والے کاموں کو پنجابی میں منتقل کروایا جائے تاکہ قومی زبان اور پاکستانی زبانیں بولنے والے طبقات کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہو۔

11) علاوہ ازیں مختلف سکالرز اور مصنفین کے ذریعے پنجابی کے علمی و ادبی کارناموں کو انگریزی زبان میں ترجمہ کروا کر بین الاقوامی سطح پر لوگوں میں پنجابی زبان کے متعلق شعور و آگہی کو بیدار کیا جائے۔

12) مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے مختلف سطحوں پر سیمینارز اور لیکچرز کا انعقاد کیا جائے۔

علاوہ ازیں ان تمام مقاصد کے حصول کے لیے پنجابی زبان میں علمی و ادبی کام کرنے والوں کے لیے انعامات اور ایوارڈ وغیرہ کا اجراء کیا جائے۔

پنجابی زبان کے فروغ کے لیے اسے بولنے اور پڑھنے میں شرمندگی محسوس کرنے کا رویہ ترک کیے بغیر ماں بولی کو سماج میں مقام نہیں دلایا جا سکتا۔ دھرتی ماں کے باسیوں کو ماں بولی کو مان دینا ہو گا۔ جس قوم کی ماں بولی کو وقار اور مان نہ ملے وہ قوم عزت مآب کیسے ہو سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments