سینیٹ انتخاب میں ووٹوں کی خریداری اور متناسب نمائندگی


سپریم کورٹ میں صدر عارف علوی کے اس ریفرنس پر غور ہورہا ہے کہ سینیٹ انتخاب میں خفیہ ووٹنگ کے موجودہ آئینی طریقہ کی بجائے، اوپن بیلیٹ یا ہاتھ کھڑا کرکے ووٹ دینے کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ الیکشن کمیشن سے انتخابات کو شفاف بنانے کا تقاضہ کر رہا ہے۔

الیکشن کمیشن کا اصرار ہے کہ آئین کی شق 226 کے تحت سینیٹ انتخاب خفیہ رائے دہی سے ہی ہوسکتا ہے۔ اس انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کے بارے میں کبھی کسی کو کوئی معلومات فراہم نہیں ہو سکتیں اور ووٹ کا اخفا ہمیشہ کے لئے یقینی بنایا جائے گا۔ تاہم جسٹس اعجاز الاحسن کا خیال تھا کہ قانون میں کہیں یہ تحریر نہیں ہے کہ سینیٹ انتخاب میں ڈالے گئے ووٹ تاقیامت خفیہ ہی رہیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے کسی بھی معلومات کا سراغ لگانا ناممکن نہیں رہا۔ البتہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے موجودہ آئینی صورت حال میں خفیہ ووٹنگ اور اسے ہمیشہ کے لئے خفیہ رکھنے پر اصرار کیا۔ اٹارنی جنرل کا خیال ہے کہ الیکشن میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے ووٹوں پر سیریل نمبر لگائے جا سکتے ہیں یا ان کی مارکنگ ہو سکتی ہے تاکہ بعد میں الیکشن کمیشن یہ پڑتال کر سکے کہ ووٹ کا غلط استعمال نہیں ہؤا۔

آج کی سماعت میں بھی گزشتہ روز کی طرح ججوں کا زور اسی ایک نکتہ پر تھا کہ الیکشن کمیشن ووٹوں کی خرید و فروخت کی روک تھام کرے۔ سینیٹ انتخاب میں ووٹوں کی خرید کا معاملہ ایک سیاسی مؤقف ہے لیکن سپریم کورٹ کے جج کسی جان پڑتال کے بغیر بظاہر اس مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس طریقہ کو کیسے ناکام بنایا جائے گا۔ 2018 میں بننے والی ایک ویڈیو کا ذکر ایک بار پھر مثال کے طور پر سننے میں آیا جس میں پی ٹی آئی کے کچھ ارکان اسمبلی مبینہ طور پر ووٹ دینے کے لئے نوٹ وصول کررہے ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ 2018 میں ووٹ بیچنے میں ملوث ہونے پر متعدد ارکان اسمبلی کو پارٹی سے نکالا جاچکا ہے۔ تاہم اس اسکینڈل میں ملوث کسی شخص کو کسی قانون شکنی پر سزا نہیں دلوائی گئی۔

عمران خان نے گزشتہ چند ہفتوں سے ووٹوں کی خرید و فروخت کا شور مچاتے ہوئے سینیٹ الیکشن میں شفافیت کی ضرورت پر زور ضرور دیا لیکن اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ اس بیان بازی سے حکومت دراصل اپوزیشن کو مورد الزام ٹھہرا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔ آئینی ترمیم کے لئے مشاورت اور اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کا مسلمہ طریقہ اختیار کرنے کی بجائے، الزام تراشی اور دھونس زبردستی کا طریقہ اپنایا گیا۔ پہلے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا گیا پھر قومی اسمبلی میں اوپن ووٹنگ کے لئے آئینی ترمیم پیش کردی گئی۔ اپوزیشن کے احتجاج پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برملا کہا کہ ’حکومت کو تو آئینی ترمیم کےلئے دو تہائی اکثریت ہی حاصل نہیں ہے، ہم تو اپوزیشن کی اصلیت سامنے لانا چاہتے تھے‘۔ جب اپوزیشن نے اس دھونس میں آنے سے انکار کر دیا تو صدارتی حکم پر اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر کے، ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے سینیٹ کے انتخاب اوپن بیلیٹ سے کروانے کا حکم جاری ہؤا۔ سپریم کورٹ سے گرین سگنل ملنے پر یہ آرڈی ننس مؤثر ہو جائے گا۔

سپریم کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر اس معاملہ کی سماعت ہو رہی ہے لیکن عدالت عظمی نے حکومت کی نیت اور ضرورت پر سوال نہیں اٹھایا۔ تاہم بنچ میں شامل جج آبزرویشنز کے ذریعے یہ نکتہ سامنے لارہے ہیں کہ سینیٹ کے انتخاب میں روپے کا لین دین ہوتا ہے۔ یہ سرکاری مؤقف ہے اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اسی مؤقف کو ثابت کرنے کے لئے دلائل دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے بنچ میں شامل بعض فاضل ججوں کے تواتر سے سامنے آنے والی آبزرویشنز اور آرا سرکاری مؤقف کے عین مطابق ہیں۔ گو کہ عدالتی فیصلہ سامنے آنے سے پہلے جج کی رائے یا آبزرویشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی آبزرویشن قانونی استفسار کی بجائے واقعاتی اصرار پر استوار ہو جیسا کہ چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجازالاحسن کی آبزرویشنز سے تاثر مل رہا ہے تو اس سے عدالت کی غیر جانبداری پر سوال اٹھانا آسان ہو جاتا ہے۔

سینیٹ انتخابات میں ووٹ خریدنے کے معاملہ پر صرف اسی صورت میں سنجیدہ گفتگو ہوسکتی ہے اگر اسے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے علیحدہ کرکے بدعنوانی کا امکان ختم کرنے کے نقطہ نظر سے مناسب فورمز پر اٹھایا جائے۔ یہ تو درست ہے کہ عمران خان نے 2018 میں مبینہ طور پر روپے لے کر ووٹ دینے والے خیبر پختون خوا اسمبلی کے متعدد ارکان کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ گزشتہ چند ہفتوں کےدوران وہ یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ انہیں بھی ماضی میں متعدد بار ووٹ کے لئے روپوں کی پیشکش ہوئی تھی۔ تاہم یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ تحریک انصاف نے سینیٹ کے موجودہ انتخاب قریب آنے سے پہلے ووٹنگ طریقہ کو بدلنے کے لئے کوئی تجویز پارلیمنٹ میں پیش نہیں کی تھی۔ اس بار بھی آئینی ترمیم کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ پارلیمانی بزنس سے زیادہ سیاسی ہتھکنڈا تھا۔ اپوزیشن کا جواب بھی سیاسی تھا۔

تحریک انصاف کے اسی رویہ سے اب یہ واضح ہونے لگا ہے کہ دراصل تمام صوبوں میں پارٹی ارکان سینیٹ کے لئے ہونے والی نامزدگیوں پر ناراض ہیں۔ عمران خان کو اندیشہ ہے کہ ان کی اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی سیاسی ناراضی، قیادت سے مایوسی اور امیدواروں کے بارے میں ناپسندیدگی کی وجہ سے نامزد کردہ امیدواروں کی بجائے مخالف پارٹیوں کے امیدواروں کو کامیاب کروا دیں گے۔ اسی لئے وہ اوپن ووٹنگ کا تقاضہ کررہے ہیں تاکہ پارٹی قیادت کو معلوم ہو کہ کس رکن نے کسے ووٹ دیا ہے اور اس کے مطابق اس کے ساتھ ’معاملہ ‘ کیا جا سکے۔ یہ بھی واضح ہے کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کا معاملہ تحریک انصاف کے سوا کسی پارٹی نے نہیں اٹھایا اور نہ ہی کسی دوسری پارٹی کے ارکان پر ووٹ فروخت کرنے کا الزام عائد ہؤا ہے۔ یہ خالصتاً تحریک انصاف کا مسئلہ ہے اور اس وقت وہی اس کی زد پر ہے۔ تاہم اصلاح احوال کے لئے تعاون کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے الزام تراشی کا طریقہ اختیار کیا گیا جس کی وجہ سے یہ معاملہ پیچیدہ اور مشکل ہو چکا ہے۔

سپریم کورٹ کے اصرار پر الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخاب شفاف بنانے کے لئے تین اقدام کرنے کا یقین دلایا ہے۔ سپریم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ انتخاب میں کرپشن کی روک تھام کے لئے نگران کمیٹی بنائی جائے گی، آن لائن شکایت سنٹر قائم ہوگا اور تمام امید واروں سے حلف لیا جائے گا کہ وہ ووٹوں کی خرید و فروخت میں ملوث نہیں ہوں گے۔ یہ تینوں اقدامات سطحی اور ناقابل بھروسہ ہیں۔ اگر سینیٹ کے انتخاب میں واقعی ووٹ خریدے اور بیچے جائیں گے تو ان اقدامات سے ان کی روک تھام ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی قابل غور ہے کہ موجودہ قانون اور طریقہ کارکے تحت الیکشن کمیشن اور کر بھی کیا سکتا ہے۔

البتہ اگر حکومت ووٹوں کی خرید و فروخت کےسوال پر واقعی سنجیدہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ مشکوک ارکان کے اکاؤنٹس کی نگرانی کے ذریعے رقوم کی منتقلی کا سراغ لگا کر ایسے لوگوں کو قانون سے سزا نہیں دلوا سکتی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے اس نے ٹھوس اور مبسوط قانون سازی کی ہے۔ ان قوانین کے ہوتے حکومت کےلئے کثیر مقدار میں وسائل کی منتقلی کی نگرانی کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر حکومت ابھی تک کوئی ایسا انتظامی و قانونی ڈھانچہ استوار نہیں کرسکی کہ ملک میں دولت کی ناجائز نقل و حرکت کی نگرانی ہو سکے تو وہ پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے سامنے اپنا مقدمہ کیسے پیش کرے گی؟

سینیٹ انتخاب کے حوالے سے روپے لے کر ووٹ دینے کا معاملہ دراصل پارٹی قیادت کے فیصلہ سے اختلاف کرنے والوں پر سیاسی دباؤ کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ملک کے اٹارنی جنرل عدالت عظمی میں ریفرنس کی سماعت کے دوران اس سیاسی کھیل میں حکومت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اسی لئے سینیٹر رضا ربانی نے عدالت کے سامنے واضح کیا ہے کہ اٹارنی جنرل جو تجاویز دے رہے ہیں، انہیں حکومت یا تحریک انصاف کی تجاویز سمجھا جائے۔ اس پہلو پر غور کرتے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کرنا بھی اہم ہے کہ اگر کوئی رکن اسمبلی اپنی پارٹی کے امیدوار سے متفق نہیں ہے اور کسی دوسرے امید وار کو زیادہ اہل سمجھتا ہے تو کیا کوئی قانون اسے پارٹی قیادت کے فیصلہ کے خلاف جانے سے روکتا ہے؟ اور کیا کوئی پارٹی اپنے ’باغی‘ ارکان کو سزا دینے کے لئے ان پر ووٹ بیچنے کا الزام عائد کرکے سراسیمگی کا ماحول پیدا کر سکتی ہے؟

اسی حوالے سے آج سپریم کورٹ کے دو فاضل جج حضرات نے سینیٹ میں متناسب نمائندگی کے اصول پر بھی سوال اٹھائے اور یہ تاثر دیا کہ متناسب نمائندگی کا مفہوم یہ ہے کہ ’ہر پارٹی کو صوبائی اسمبلیوں میں اپنے ارکان کی تعداد کے حساب سے نمائندگی ملنی چاہئے‘۔ چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ 3 مارچ کے انتخاب میں اگر یہ صورت دیکھنے میں نہ آئی تو اس کا مقصد ہوگا کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخاب کروانے میں ناکام رہا۔ لگتا ہے کہ فاضل جج متناسب نمائندگی کی ایک نئی تفہیم سے ارکان اسمبلی کے انفرادی فیصلہ کو پارٹی قیادت کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ سینیٹ انتخاب میں متناسب نمائندگی کا مفہوم اصولی طور سے تو یہ ہونا چاہئے کہ وفاق کے چاروں صوبوں کو اپنے حجم اور آبادی سے قطع نظر سینیٹ میں مساوی نمائندگی ملے گی۔ اگر متناسب نمائندگی کو صوبوں کے مابین سیاسی توازن کے نقطہ نظر سے ہٹ کر دیکھا جائے گا تو اس سے ارکان ا سمبلی کا رائے کا حق متاثر ہو گا۔

اسمبلیوں میں پارٹی نمائندگی کی بنیاد پر سینیٹ میں نشستوں کا اصول ہی اگر قانون کا تقاضہ ہے تو پھر سینیٹ کا انتخاب کروانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی کے حساب سے پارٹیوں کو نشستیں مختص کردی جاتیں اور پارٹی قیادت اپنی مرضی کے لوگوں کو سینیٹ میں بھیج دیتی۔ سینیٹ انتخاب کو خفیہ ووٹنگ سے کروانے کا ایک ہی مقصد قابل فہم ہے کہ ارکان اسمبلی اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں۔ اسی لئےخفیہ ووٹ کے ذریعے انہیں کسی خوف کے بغیر اپنی رائے دینے کا حق دیا گیا ہے۔ حکومت شفافیت کے نام پر ارکان کے اس حق کو سلب کرنا چاہتی ہے۔ دھاندلی کی روک تھام کے مقصد سے یہ بنیادی حق چھیننا آئینی تقاضوں کے برعکس ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments