اومیگل: ویڈیو چیٹ ویب سائٹ جہاں بچوں کی جنسی نمائش عام ہے


Omegle logo

خبردار: اس سٹوری میں بالغانہ موضوعات ہیں جو تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔

تیزی سے شہرت پاتی لائیو ویڈیو چیٹ ویب سائٹ اومیگل (Omegle) کے متعلق بی بی سی کی ایک تحقیقات میں یہ سامنے آیا ہے کہ بظاہر یہاں کم سن لڑکے اجنبیوں کے سامنے خود کو شہوت انگیز انداز میں چھوتے ہیں۔

اومیگل ویڈیو اور ٹیکسٹ چیٹنگ کے لیے اجنبی لوگوں کو آپس میں ملاتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ مواد کی نگرانی کی جاتی ہے مگر یہ غیر متوقع اور حیرت زدہ کر دینے والے مواد کے لیے مشہور ہے۔

بچوں کے تحفظ کی عالمی تنظیموں کو اس حوالے سے تشویش ہے کہ جنسی ہوس کے حامل افراد بچوں کے جنسی استحصال پر مبنی ایسے مواد کے حصول کے لیے اسے استعمال کر رہے ہیں جسے بچے خود تیار کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پورن ویب سائٹس پر کریڈٹ کارڈز منجمد کرنے کا مطالبہ

چائلڈ پورنوگرافی پر پاکستان میں پہلا اور تاریخی فیصلہ

والدہ کی شکایت پر کارروائی، چائلڈ پورنوگرافی کا ملزم گرفتار

بچوں کی سیکس کی ویڈیو شیئر کرنے پر ایک ہزار افراد سے پوچھ گچھ

ویب سائٹ کے بانی لیف کے بروکس نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی ویب سائٹ نے حالیہ مہینوں میں مواد کی نگرانی بڑھا دی ہے۔

ڈیٹا تجزیہ کار گرم سیمرش کے مطابق اومیگل کی مقبولیت میں عالمی طور پر اضافہ ہوا ہے اور اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے والے افراد کی ماہانہ تعداد جنوری 2020 میں تین کروڑ 40 لاکھ وزٹس سے بڑھ کر اب چھ کروڑ 50 لاکھ ہو گئی ہے۔

اومیگل

دو گھنٹے کے ایک دورانیے میں بی بی سی کا رابطہ مشت زنی کرتے 12 مردوں، آٹھ برہنہ مردوں اور پورن کے سات اشتہارات سے ہوا

اس ویب سائٹ میں دلچسپی اور خصوصی اضافہ امریکہ، برطانیہ، انڈیا اور میکسیکو سے دیکھنے میں آیا ہے۔

صرف برطانیہ میں ہی اس کی ٹریفک میں 61 فیصد اضافہ ہوا اور دسمبر میں اسے 37 لاکھ افراد نے کھولا۔ ان میں سے زیادہ تر صارفین کی عمر 34 سے کم تھی اور کئی ٹین ایجرز بھی تھے۔

اومیگل کے متعلق حال ہی میں مشہور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے ایس آئی، چارلی ڈی امیلیو، جیمز چارلس اور ایما چیمبرلین نے ویڈیوز بھی بنائی ہیں۔

اومیگل

Tiktok
ٹک ٹاک پر اومیگل کی ویڈیوز 9.4 ارب مرتبہ دیکھی جا چکی ہیں

صرف ٹک ٹاک پر ہی اومیگل کے ہیش ٹیگ کی حامل ویڈیوز کو نو اعشاریہ چار ارب مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔

ٹک ٹاک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہماری تحقیق کے نتیجے میں اس نے اب اومیگل کے لنکس شیئر کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔‘ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کی سیفٹی ٹیموں کو اپنے پلیٹ فارم پر اومیگل کا کوئی ضرر رساں مواد نہیں ملا ہے تاہم وہ ویڈیوز کی نگرانی جاری رکھیں گے۔

’مردوں کی نازیبا حرکات‘

امریکہ سے تعلق رکھنے والی 15 سالہ کیرا نے ویب سائٹ پر ویڈیو چیٹ کے بارے میں بتایا کہ ’ٹک ٹاک پر یہ ٹرینڈ ہے کہ اب ہر کوئی اومیگل استعمال کر رہا ہے سو میں نے اور میرے دوستوں نے سوچا کہ ہم بھی آزمائیں گے۔‘

’میں اور دوست مردوں کی نازیبا حرکات بہت دیکھتے ہیں۔ اس کی زیادہ نگرانی ہونی چاہیے۔ یہ ڈارک ویب کی طرح ہے مگر جو سب کی رسائی میں ہے۔‘

گذشتہ چھ ماہ میں برطانیہ، امریکہ، ناروے، فرانس، کینیڈا اور آسٹریلیا میں کئی سکولوں، پولیس، اور حکومتی اداروں نے اس ویب سائٹ کے متعلق وارننگز جاری کی ہیں۔

اومیگل

ویڈیو چیٹ میں شامل ہونے کے لیے عمر کی تصدیق یا رجسٹریشن کی ضرورت نہیں

ہم نے جن 10 گھنٹوں میں اومیگل کی مانیٹرنگ کی، اس کے دوران ہمارا رابطہ 18 سال سے کم عمر درجنوں بچوں سے کروایا گیا جن میں سے کچھ تو بظاہر سات آٹھ سال کے بھی تھے۔

اومیگل کی ویب سائٹ پر نوٹس دیا گیا ہے کہ صارفین کو کم از کم 18 سال کا ہونا چاہیے مگر عمر کی تصدیق کا کوئی نظام موجود نہیں۔

دو گھنٹوں کے دورانیے میں ہی ہمارا رابطہ مشت زنی کرتے 12 مردوں، آٹھ برہنہ مردوں اور پورن کے سات اشتہارات سے ہوا۔

اس کے علاوہ مخلتف موضوعات میں دلچسپی مثلاً فٹ بال یا موویز کی بنا پر لوگوں کو تلاش کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔ جب ہم نے بالغانہ مواد سے متعلق ایک عام فقرے کا استعمال کیا تو ہمیں نازیبا حرکات کرتے ہوئے لوگوں سے اور بھی زیادہ رابطہ کروایا جانے لگا۔

بچوں کی جنسی حرکات

اس کے علاوہ دو مرتبہ ہمارا رابطہ کم سن لڑکوں سے بھی قائم ہوا جو ویڈیو چیٹ پر لائیو مشت زنی کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ اس کی عمر 14 سال ہے۔

یہ واقعات ریکارڈ نہیں کیے گئے اور ہم نے دونوں چیٹس فوراً بند کر کے حکام کو اطلاع دے دی تھی۔

اومیگل

بچوں کے تحفظ کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اومیگل کا استعمال بچوں کے جنسی استحصال پر مبنی مواد اکٹھا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے

امریکہ میں گمشدہ اور استحصال کے شکار بچوں کے قومی مرکز کی ترجمان نے کہا: ’اس رفتار سے آپ کو بچوں کے ممکنہ جنسی استحصال پر مبنی مواد ملتا ہے، اس سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عمروں کی تصدیق کے نظام کی اہمیت معلوم ہو جانی چاہیے۔‘

ویب سائٹ کے مالک لیف بروکس کا کہنا ہے کہ اب انھوں نے اس فقرے کو بلاک کر دیا ہے تاہم بی بی سی اس کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

اومیگل سے مواد کا انٹرنیٹ پر پھیلاؤ

انٹرنیٹ سے بچوں کے جنسی استحصال کی تصاویر اور ویڈیوز ہٹانے کی ذمہ دار تنظیم انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ’ہماری تحقیق کے نتائج پریشان کُن ہیں مگر حالیہ رجحان کے مطابق ہیں۔‘

فاؤنڈیشن کی ہاٹ لائن کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ’ہمیں استحصال پر مبنی خود بنایا گیا مواد انٹرنیٹ پر دوسری جگہوں پر بھی ملا ہے جسے جنسی ہوس کے حامل افراد نے اومیگل سے ریکارڈ کیا اور پھیلایا۔‘

’ہم نے جو ویڈیوز دیکھی ہیں ان میں کچھ میں تو لوگ ویب کیم پر اپنے جنسی اعضا میں چیزیں داخل کر رہے ہوتے ہیں اور یہ سرگرمیاں ایسے گھروں میں ہو رہی ہوتی ہیں جہاں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ والدین موجود ہیں۔ آپ گفتگو بھی سن سکتے ہیں اور یہاں تک کہ بچوں کو چائے پر نیچے بھی بلایا جا رہا ہوتا ہے۔‘

سنہ 2020 میں انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن نے کہا کہ تجزیہ کاروں نے ایسی 68 ہزار شکایات پر اقدام کیا جن میں بچوں کے ’خود بنائے گئے‘ جنسی استحصالی مواد کی نشاندہی کی گئی تھی۔

یہ تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں 77 فیصد زیادہ تھی۔

ہم نے برطانیہ میں ایک والدہ سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ اُن کی آٹھ سالہ بیٹی کو اس ویب سائٹ پر ایک بڑی عمر کے شخص نے جنسی سرگرمی کرنے کے لیے تقریباً ورغلا ہی لیا تھا۔

اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’میری بیٹی نے ٹک ٹاک پر ویڈیوز وائرل ہوتے دیکھی تھیں کہ لوگ اومیگل پر موجود ہیں، سو اس نے یہ ویب سائٹ کھولی اور یہاں کوئی لاگ ان یا عمر کی قید نہیں ہے۔‘

’یہ افراد کہہ رہے تھے کہ وہ خوبصورت ہے، پرکشش ہے اور سیکسی ہے۔ اُس نے انھیں بتایا کہ وہ صرف آٹھ سال کی ہے مگر انھیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس نے ایک شخص کو مشت زنی کرتے ہوئے دیکھا اور ایک اور شخص اس کے ساتھ ٹروتھ اور ڈیئر کھیلنا چاہتا تھا۔‘

’وہ اس سے اپنا پچھلا حصہ ہلانے، اپنی قمیض اور اپنا پاجامہ اتارنے کے لیے کہہ رہا تھا جو شکر ہے اس نے نہیں کیا۔‘

برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اور سپورٹ سیلیکٹ کمیٹی کی چیئرمین جولیئن نائٹ نے کہا کہ ’اومیگل کے مسائل سے برطانیہ میں مزید قانون سازی کی ضرورت کا اندازہ ہوتا ہے۔‘

’مجھے بہت زیادہ حیرت ہوئی ہے۔ اس طرح کی ویب سائٹس کو اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی سے لینی چاہییں۔ ہمیں ان پر جرمانے عائد کرنے چاہییں اور ضرورت ہو تو ان کا کاروبار بھی معطل کرنا چاہیے، جس کے تحت بچوں کو کوئی تحفظ نہ فراہم کرنی والی ویب سائٹس بلاک کی جائیں گی۔‘

تین ماہ کے دوران بی بی سی نے اومیگل اور اس کے بانی لیف کے بروکس سے تبصرے کے لیے کئی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی۔

اومیگل سے ویب سائٹ یا کسی اور آن لائن ذریعے سے رابطہ کرنے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔

لیف کے بروکس کی تلاش

بروکس نے کئی برسوں سے اومیگل کے بارے میں عوامی طور پر بات نہیں کی ہے۔ جس کمپنی اوکٹین اے آئی کے وہ شریک بانی ہیں، اس کو چھ ای میلز کرنے کے بعد بالآخر اُنھوں نے جواب دیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کی ویب سائٹ کی نگرانی کی جاتی ہے اور اُن کی ٹیم اُن صارفین کو بلاک کرتی ہے جو ’13 سال سے کم عمر لگتے ہیں۔‘

اُنھوں نے اپنی ای میل میں یہ بھی کہا کہ انھوں نے سنہ 2020 میں نگرانی کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا: ’خامیوں سے پاک ہونا ممکن نہیں مگر اومیگل کی ماڈریشن ویب سائٹ کو خاصہ صاف رکھتی ہے اور اس نے ایسی رپورٹس بھی دی ہیں جن کی وجہ سے کئی جنسی شکاریوں کو گرفتار کیا گیا اور اُن پر مقدمہ چلایا گیا۔‘

اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ ویب سائٹ پر پورن کے اشتہارات کم عمر لوگوں کو دکھائی نہیں دیتے مگر یہ تفصیلات فراہم نہیں کیں کہ عمر کی تصدیق کے بغیر ایسا کیسے ممکن ہے۔

اُنھوں نے ان پورن اشتہارات کو ’محتاط‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ اشتہارات دکھانا ایسی صورتحال ہے کہ جب زندگی آپ کو موقع دے تو اس کا فائدہ اٹھائیں۔

بروکس

Octane AI Facebook
بروکس اپنی ایک اور کمپنی اوکٹین اے آئی کے سٹاف کے ساتھ

اومیگل اُن لوگوں کے لیے نہیں بنائی گئی جو جنسی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس لیے جب بالغ افراد اس نیت سے اس ویب سائٹ کا دورہ کریں، تو انھیں زیادہ موزوں جگہ بھیج دینا زیادہ قابلِ فہم ہے۔‘

اُنھوں نے مزید کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp