مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کی وفات پر سیاسی قائدین اور عوام کا سوشل میڈیا پراظہار افسوس


مسلم لیگ ن کے سنیئر رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان طویل علالت کے بعد بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب وفات پا گئے ہیں۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر عفنان اللہ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں ان کی وفات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ ان کی نماز جنازہ جمعرات کو اسلام آباد میں ادا کی جائے گی۔

68 سالہ سینیٹر مشاہد اللہ خان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ انھوں نے 12 اکتوبر 1999 کے بعد مشکل صورتحال میں مسلم لیگ ن کے سینٹرل سیکریٹری کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ بعد میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران وہ وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی بھی رہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بے باک اندازِ بیان اختیار کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’انھی سے مشورہ لیں جن کے مشوروں پر چلتے آ رہے ہیں‘

’دھرنے میں فوج کا ہاتھ ثابت ہوا تو مستعفی ہو جاؤں گا‘

سنہ 2015 میں مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے دوران جب وہ وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی تھے تو انھیں سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ظہیر السلام کے بارے میں بیان دینے پر ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔

ان کی وفات کو مسلم لیگ ن کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ان کی وفات کی خبر پر سوشل میڈیا پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے اور سیاست اور جمہوریت کے لیے ان کی خدمات اور نڈر انداز بیان پر انھیں خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے ان کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ ’مشاہد اللہ خان نواز شریف کے وفادار اور غیر معمولی ساتھی ہمیں چھوڑ گئے ہیں۔ میں اس افسوسناک خبر کو سن کر صدمے میں ہو۔ ان کے پدرانہ انداز اور محبت کو کبھی بھول نہیں پاؤں گی۔ ایک بہت بڑا صدمہ۔ خدا انھیں اپنی جوار رحمت میں رکھے۔آمین۔‘

مسلم لیگ کے رہنما احسن اقبال نے اپنے پیغام میں کہا پاکستان مسلم لیگ ن ایک بہادر، وفادار اور انتہائی زیرک پارلیمینٹیرین سے محروم ہو گئی۔

مسلم لیگ کے رہنما سنینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ ’وہ متفرق خوبیوں کے مالک تھے۔ وہ ایک جانے مانے ٹریڈ یونینسٹ تھے، پی آئی اے کی ایئر لیگ کے بانی، انھوں نے کراچی کے ایڈمنسٹیٹر اور بطور وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی بہت خوب کام کیا۔ انھوں نے نئے پروگرامز شروع کیے ان کا بیٹا عفنان اللہ ایک بہت قابل سکالر ہے۔‘

قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں مشاہد اللہ کے اہلِ خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا اور مشاہد اللہ کی وفات کو ایک بڑا نقصان قرار دیا۔

مشاہد اللہ خان اپنے دلیرانہ اور بے باک انداز بیان کی وجہ سے میڈیا اور پارلیمان کے اندر دونوں جگہ مقبول شخصیت تھے۔ ٹی وی پروگرامز میں ان کی شرکت اکثر دیکھنے کو ملتی تھی۔

ایک سوشل میڈیا صارف عدیل خان نے ٹوئٹر پر ’اپنے پیغام میں لکھا کہ آج پارلیمینٹ کی رونق چلی گئی ہے۔‘

صحافی حامد میر نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’ہم ان کی برجستہ شعر گوئی کو کبھی نہ بھولیں گے۔‘

جبکہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔

مشاہد اللہ خان کون تھے؟

مشاہد اللہ خان کی پیدائش سنہ 1953 میں راولپنڈی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم راولپنڈی سے حاصل کی اورپھر کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔

اس وقت وہ ایوی ایشن کمیٹی کے چیئرپرسن تھے۔ ہاؤس آف بزنسز کی ایڈوائزری کمیٹی، پارلیمینٹری کمیٹی برائے کشمیر، پارلیمینٹری کمیٹی برائے نیشنل سکیورٹی، چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن آف پاکستان کے تقرر سے متعلق کمیٹی کے ممبر سمیت کل بارہ کمیٹیوں کے رکن بھی تھے۔ وہ سنہ 1975 سے 1997 تک پی آئی اے کے ریفک سپروائزر رہے۔ سنہ 1997 سے 1999 تک افرادی قوت اور سمندر پار پاکستانیوں سے متعلق وزارت میں ایڈوائزر رہے۔ سنہ 1999 میں کراچی میونسپل کارپوریشن میں ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر گئے لیکن پھر پرویز مشرف کی جانب سے مارشل لا لگائے جانے کے بعد تین ماہ بعد ہی انھیں یہ عہدہ چھوڑنا پڑا۔ وہ 1994 سے 1999 تک سیکریٹری جنرل لیبر وونگ کے عہدے پر رہے۔ سنہ 2000 سے 2001 تک وہ مسلم لیگ ن کے چیف کوارڈینیٹر رہے۔ سنہ 2002 سے لے کراب تک وہ مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp