بجلی کی طلب سے زیادہ پیداوار پاکستان کے لیے مسئلہ کیوں بن گئی ہے؟


بجلی

کراچی کے علاقے لیاری میں ریکسر لین، گل محمد لین، جمن شاہ پلاٹ اور غلام شاہ لین میں روزانہ ساڑھے سات گھنٹے کے لیے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔

روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والی یہ لوڈ شیڈنگ اعلانیہ ہے جبکہ کبھی کبھار غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اس کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔

غلام شاہ لین کے رہائشی فہیم علی کے مطابق بعض اوقات بجلی ساڑھے سات گھنٹے سے زیادہ ہی چلی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر روز سات سے آٹھ گھنٹے بجلی کے بغیر رہنے کے باوجود ان کے بجلی کے بل میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ گذشتہ چند برسوں سے تو اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا آیا ہے۔

فہیم علی کا جو بل آج سے چند سال قبل دو سے ڈھائی ہزار روپے آتا ہے اب ساڑھے تین ہزار ماہانہ سے تجاوز کر چکا ہے۔ فہیم علی کہتے ہیں کہ ’بجلی نہ آنے سے پانی بھی نہیں آتا اور چولہوں میں گیس بھی نہیں آتی کیونکہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر گھر گیس پر جنریٹر چلاتے ہیں جس کی وجہ سے چولہوں میں گیس آنا کم ہو جاتی ہے اور بجلی کی بندش سے پانی بھی لائن سے نہیں کھینچا جا سکتا۔‘

پاکستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ صرف لیاری کے ان علاقوں تک محدود نہیں بلکہ یہ صورت حال کراچی کے دوسرے حصوں اور اس سے بھی بڑھ کر ملک کے مختلف شہروں تک پھیلی ہوئی ہے۔

تاہم ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ہے اور اس کی پیداوار ملک کی مجموعی طلب سے زیادہ ہے۔ اضافی بجلی پیدا ہونے کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور مہنگی بجلی اس وقت پاکستان میں بجلی کے صارفین کے لیے دو بڑے مسئلے ہیں۔

پاکستان میں طلب سے زیادہ بجلی کی پیداوار اس وقت ملک میں توانائی کے شعبے کے لیے ایک بڑا بحران ہے جس کی وجہ سے اس شعبے کا گردشی قرضہ دو ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر وفاقی کابینہ نے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے ایک معاہدے کی منظوری دی ہے جس کے تحت آئی پی پیز کو دی جانے والی ادائیگیوں کی مد میں اگلے 20 برسوں میں 800 ارب روپے سے زائد کی بچت ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے

توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2300 ارب سے زائد، آخر اس کا حل کیا ہے؟

’بل زیادہ اور بجلی کم، ہر طرف ہے گیس بند‘

بجلی بچائیے سے بجلی جلائیے تک۔۔۔

پاکستان کے پاس بجلی اضافی ہے تو پھر بھی لوڈشیڈنگ کیوں

بجلی

پاکستان میں بجلی کی پیداوار و طلب کتنی ہے؟

پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 35 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ گذشتہ مالی سال کے اکنامک سروے میں جہاں ملک 35 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا تو دوسری جانب پاکستان میں بجلی کی کھپت ضرورت اور موسم کے لحاظ سے آٹھ ہزار سے 23 ہزار میگاواٹ کے درمیان رہی ہے۔

وزیر اعظم پاکستان کے توانائی کے شعبے پر معاون خصوصی تابش گوہر کے انٹرویو میں دیے گئے بیان کے مطابق 2023 تک پاکستان میں طلب سے 50 فیصد زیادہ بجلی موجود ہو گی۔ ان کے مطابق پاکستان کے پاس بہت زیادہ اور مہنگی بجلی ہے جو ملک پر ایک بوجھ ہے۔

توانائی کے شعبے کے ماہر سید اختر علی کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ پاکستان میں گذشتہ چند برسوں میں بجلی کے نئے پروجیکٹ لگے ہیں جن میں پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت لگنے والے بجلی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔

ان تمام منصوبوں کے مکمل ہونے کی وجہ سے ملک کی بجلی کی پیداواری صلاحیت بہت بڑھی اور اب یہ 35 ہزار میگاواٹ تک جا پہنچی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار میں مزید اضافہ بھی ہو گا کیونکہ ملک کے جنوبی حصے میں کوئلے اور نیوکلیئر بجلی کے چند نئے منصوبے بھی مکمل ہونے والے ہیں جو ملک میں بجلی کی پیداوار کو مزید بڑھا دیں گے۔

اضافی بجلی مسئلہ کیوں؟

پاکستان میں حکومت اور نجی شعبہ دونوں ملک کر بجلی بنا رہے ہیں۔ حکومت کی زیر نگرانی چلنے والے بجلی کے کارخانوں کے ساتھ نجی شعبے کے کارخانے بھی بجلی پیدا کر رہے ہیں۔

تاہم ملک میں بجلی کی خریدار صرف حکومت ہے اور ماضی میں بجلی کے پلانٹس لگانے کے معاہدوں میں یہ لازمی تھا کہ ملک میں بجلی کی کھپت ہو نہ ہو، بجلی کا ہر پیدا ہونے والا یونٹ حکومت کو خریدنا پڑے گا اور اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں حکومت کو اربوں روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔

یوں پاکستان میں طلب سے زیادہ بجلی کی پیداوار ملک کے توانائی کے شعبے کے لیے ایک مسئلہ بن چکی ہے اور حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بجلی پیدا کرنے والے نجی کارخانوں (آئی پی پیز) سے طویل عرصے سے مذاکرات کر رہی تھی۔

حال ہی میں وفاقی حکومت نے آئی پی پیز سے ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے اور اب پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ان آئی پی پیز سے معاہدے کے لیے حکومت کو منظوری دے دی ہے۔ اس معاہدے کے تحت حکومت کو اگلے 20 سالوں میں 800 ارب روپے کی بچت اور بجلی کی قیمت کم ہونے کی توقع ہے۔

سید اختر علی جو پلاننگ کمیشن آف پاکستان میں ممبر انرجی کے طور پر کام کر چکے ہیں، ان کے مطابق پاکستان میں اگر بجلی کی کھپت ہو رہی ہے تو اس کی ادائیگی تو صارف کرے گا لیکن اگر اس کی پیداوار ہے اور کھپت نہیں تو بھی حکومت کو اس کی ادائیگی کمپنیوں کو کرنی پڑے گی۔

بجلی

حکومت کو یہ ادائیگی کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں کرنی پڑتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ دو ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔

اختر علی نے کہا اگر حالیہ کچھ برسوں میں دیکھا جائے تو بجلی کے نئے پلانٹس کافی بڑی تعداد میں لگے ہیں جن میں کوئلے، گیس اور جوہری ایندھن کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس شامل ہیں۔

ان میں وہ منصوبے بھی شامل ہیں جو پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بجلی کے شعبے میں لگے ہیں۔ ’جیسے جیسے یہ نئے منصوبے لگتے گئے، حکومت کی اُنھیں ادائیگی کی ذمہ داری بھی بڑھتی گئی۔ بجلی کی پیداوار تو بہت تیزی سے بڑھ گئی لیکن اس کی طلب میں اس کے مقابلے میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا جس نے گردشی قرضے کو بڑھایا۔‘

اختر علی کے مطابق جس رفتار سے گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے، اگر یہی صورت حال رہی تو اگلے چند برسوں میں یہ گردشی قرضہ تین ہزار ارب سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔

ماہر معیشت مزمل اسلم نے کہا کہ ’پاکستان میں بجلی کے شعبے میں نئے پلانٹ اور کیپسٹی پیمنٹ کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک گھر میں چار افراد رہتے ہیں لیکن اُنھوں نے قرضے پر چھ گاڑیاں خرید لی ہیں۔ اب اُنھیں ان چھ گاڑیوں کے قرض کی واپسی کے ساتھ ان پر اٹھنے والے روز مرہ کے اخراجات بھی ادا کرنے ہوتے ہیں۔‘

مزمل اسلم نے بتایا کہ حکومتوں کو بجلی کے پلانٹس لگانے اور ان میں بننے والی بجلی پر دوہری ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ ’ایک تو سی پیک کے تحت لگنے والے منصوبوں پر اٹھنے والی لاگت کو حکومت نے واپس کرنا ہے اور اس پر سود کی ادائیگی بھی کرنی ہے۔ دوسری جانب ان سے پیدا ہونے والی بجلی کو خریدنا بھی ہے چاہے اس کی کھپت ہو نہ ہو۔‘

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی تابش گوہر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’بنیادی طور پر بجلی کے جو معاہدے ماضی میں کیے گئے وہ بجلی کی ضرورت سے زائد پیداوار کے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مہنگے داموں بھی کیے گئے۔‘

اُنھوں نے اسے پالیسی کی خامی قرار دیا۔

تابش گوہر نے کہا کہ ’اسی طرح بجلی کے ان معاہدوں میں جو ٹیرف سٹرکچر تھا وہ بھی مہنگی بجلی پیدا کرنے کی وجہ بنا۔ یہ تمام معاہدے ’ٹیک اور پے‘ کے اصول کی بنیاد پر تھے کہ پیدا کی جانے والی بجلی لو یا اس کی ادائیگی کرو۔‘

اُنھوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کے شعبے میں یہ مسائل پچیس تیس سال سے چلے آرہے تھے جس نے نا صرف بجلی کو مہنگا کیا بلکہ اس کی وجہ سے بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ بھی بڑھا کیونکہ کوئی بھی سیاسی حکومت بجلی کی ساری لاگت صارفین پر ڈالنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

معاون خصوصی نے بتایا کہ اب آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیا گیا ہے تاکہ پرانی شرائط پر نظرثانی کی جائے۔ اس کے ساتھ حکومت نے اپنی تحویل میں چلنے والے پاور پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کے نرخ بھی کم کیے ہیں۔

بجلی

بجلی کی پیداوار کے مقابلے میں طلب کیوں نہ بڑھ سکی؟

پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں اضافے کے مقابلے میں طلب اس شرح سے نہ بڑھ سکی۔ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے اختر علی نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں ہر 10 سال کے بعد طلب دگنی ہو جاتی ہے جس میں گھریلو صارفین کے ساتھ تجارتی صارفین بھی شامل ہیں تاہم پاکستان میں یہ طلب اس طریقے سے نہیں بڑھی جس طریقے سے بڑھنی چاہیے تھی۔

کسی بھی ملک میں بجلی کی طلب کا زیادہ تر انحصار تجارتی اور صنعتی شعبے پر ہوتا ہے۔ جب معیشت میں تیزی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ بجلی کی طلب میں بھی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے تاہم ملک کی معیشت اس شرح سے ترقی نہیں کر سکی کہ وہ اس اضافی بجلی کو استعمال کر سکے۔

پاکستان کی اقتصادی شرح نمو گذشتہ مالی سال میں 70 برسوں کے بعد منفی ہوئی اور اس برس بھی یہ دو فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

اختر علی نے کہا کہ معیشت میں تیزی آئے گی تو طلب بھی بڑھے گی جو گذشتہ چند برسوں میں نظر نہیں آئی۔

عارف حبیب لمیٹڈ میں توانائی کے شعبے کے تجریہ کار راؤ عامر نے اس سلسلے میں بتایا کہ پاکستان میں بجلی کے 50 فیصد صارفین گھریلو ہیں۔ اُن کے مطابق جب بجلی مہنگی ہوتی ہے تو ان کی کھپت کم ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے ان گھریلو صارفین نے بجلی کا خرچ کم کیا ہے۔

تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی بجلی کے سلسلے میں عامر نے کہا کہ پاکستان میں جب سی پیک کے تحت بجلی کے منصوبے لگے تو اس کے ساتھ صنعتی زونز کا بھی منصوبہ تھا۔ تاہم بجلی کے منصوبے تو لگ گئے لیکن صنعتی زونز پر اس طرح کام نہ ہوا کہ وہ ان پراجیکٹس کے مکمل ہونے کے فوراً بعد کام شروع کر دیتے۔

تابش گوہر نے اس سلسلے میں کہا کہ طلب نہ بڑھنے کی وجہ ایک تو کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی سست روی تھی تو دوسری طرف آئی ایم ایف کی شرائط نے بھی معیشت کے پہیے کو سست کیا۔

تاہم اُنھوں نے کہا کہ اب معیشت میں بحالی کے آثار موجود ہیں اور بجلی کی طلب میں بھی اس کی وجہ سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اسی طرح گیس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے کہا گیا ہے کہ بجلی کے ذریعے اسی کی مزید پیداوار کریں جس سے طلب بڑھے گی۔

ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور یہ مہنگی کیوں ہے؟

ملک میں طلب سے زیادہ بجلی ہونے کے باجود اس کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے تو اس کے ساتھ ملک میں بجلی مہنگی بھی ہے!

تجزیہ کار راؤ عامر نے اس سلسلے میں بتایا کہ ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی ایک وجہ تو واجبات کی عدم وصولی ہے، کیونکہ جہاں بلوں کی ادائیگی کم ہو گی وہاں پر بجلی کی ترسیل بھی کم ہوگی۔ دوسری وجہ لائن لاسز بھی ہیں، یعنی بجلی پیدا ہونے سے لے کر صارف تک پہنچنے تک ضائع ہو جاتی ہے۔

بجلی

اُنھوں نے کہا پاکستان میں بجلی کی پیداوار پر تو سرمایہ کاری کی گئی لیکن اس کی تقسیم و ترسیل کے نظام پر سرمایہ کاری نہیں ہوئی، اور اس وجہ سے بجلی پیداوار کے مرحلے سے لے کر ترسیل و تقسیم میں ضائع ہو جاتی ہے۔

اختر علی نے کہا کہ پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لائن لاسز بھی صارف کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں جو ملک میں اوسطاً 18 فیصد ہیں۔

راؤ عامر نے بتایا کہ بجلی کے بل میں دو طرح کے اخراجات ہوتے ہیں کیپسٹی پیمنٹ اور فیول پیمنٹ۔ ’حکومت بجلی خریدے نہ خریدے اسے ادائیگی کرنی پڑتی ہے جس کا اثر صارفین کے بلوں میں اضافی رقم کی صورت میں آتا ہے۔‘

تابش گوہر کے مطابق مہنگی بجلی کی ایک وجہ ماضی میں کیے گئے معاہدے تھے جو بجلی کی زیادہ قیمت کا باعث ہیں جبکہ ان کے مطابق لائن لاسز کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ ایک فیصد لائن لاسز سے سالانہ 17 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

اُنھوں نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ کراچی میں کے الیکڑک کی سربراہی کر رہے تھے تو اس وقت یہ پالیسی متعارف کروائی گئی تھی کہ جن فیڈرز سے کم ریکوری ہے وہاں کم بجلی فراہم کی جائے۔

تاہم اُنھوں نے کہا کہ اب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب یہ پالیسی بوسیدہ ہو چکی ہے اور اس پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

’اگر ایک ایک فیڈر پر ایک صارف اپنا بل پورا دے رہا ہے تو اسے دوسرے صارف کی جانب سے عدم ادائیگی پر بجلی کی بندش کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔ ادائیگی نہ کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینا چاہیے ناکہ اجتماعی طور پر ایک فیڈر پر موجود سارے صارفین کو سزا دی جائے۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp