کیا مائیں بچے جننا چھوڑ دیں؟


زمین بھی وہاں موجود تھی، آسمان بھی تھا  لیکن پھر بھی معصوم آہوں اور سسکیوں کی آواز میرے کانوں کے پردوں کو چاک کر کے کہہ رہی تھی کیا ایسا ہوتا ہے انسان، ایسا ہوتا ہے معاشرہ۔

ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بدتر ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ اس ملک میں بڑے بڑے سانحے ہوتے ہیں۔ ایک ہی جھٹکے میں درجنوں لوگوں کا لہو بہانا کوئی معمولی بات نہیں، ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے کرتا ہے اور دندناتا پھرتا رہتا ہے جیسے کچھ کیا ہی نہیں۔

17 فروری 2021 بروز بدھ  سندھ کے ضلع دادو میں پانچ سالہ بچی افشاں مستوئی جب گھر سے باہر کھیلنے کے لئے نکلی تو اس کے ساتھ زیادتی ہو گئی۔ پانچ سالہ بچی افشاں گھر سے اس گمان سے باہر کھیلنے کے لئے نکلی کہ شاید وہ انسانوں کے درمیان بستی ہے۔

پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی روز کا معمول بن گئی ہے۔ گلی گلی میں انسان کے لبادے میں جنسی درندے پھر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کے تقریباً چار ہزار واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ بہت سے واقعات مختلف وجوہات کی بناء پر متأثرہ خاندانوں کی جانب سے رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی دراصل ایک ایسا المیہ ہے، جس کے سدباب کے لیے کوششیں کرنے کے بجائے ہم ان واقعات کے رونما ہونے کے بعد حرکت میں آتے ہیں۔ ہر بچے کا بنیادی حق ہے کہ وہ ہر قسم کے ذہنی، جسمانی اور جنسی استحصال کے بغیر پرورش پائے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان بھر میں جس تیزی کے ساتھ جنسی درندگی جیسے واقعات رونما ہو رہے ہیں ، اس کی نظیر کسی بھی ملک میں نہیں ملتی۔ سانحہ قصور، سانحہ موٹروے، سانحہ کشمور سمیت دیگر اس جیسے سانحات رونما ہونا ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے۔

ملک میں کچھ عرصے سے معصوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، اس سے معاشرے میں موجود بے راہ روی اور حیوانیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا، جنسی درندوں میں اکثر ایسے شعبوں کے افراد بھی شامل ہیں جنہیں معاشرے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جنگل کے قانون کی کمزوریوں کے باعث بچے پامال اور بھیڑیے آزاد ہو چکے ہیں۔

آئے روز معصوم بچے کسی نہ کسی انسان نما درندے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور جنسی ہوس مٹانے کے بعد یا تو ان ننھی کلیوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا جاتا ہے یا پھر وہ عمر بھر کے لئے جیتے جی مر جاتے ہیں لیکن ان واقعات کی وجہ سے نہ تو آسمان پھٹتا یے اور نہ ہی زمین شق ہوتی ہے۔ یہ گھناؤنا سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔

جب بے حسی اور ارباب اقتدار کی سنگدلی اور قانون کے اندھے پن کا یہ عالم ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ معاشرے کی اخلاقی و انسانی اقدار کی موت واقع ہو چکی ہے۔

غیر سرکاری ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر روز 10 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں بچیوں کی تعداد زیادہ ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ ہماری قوم اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ ہو چکی ہے۔ کوئی ایسی خرابی نہیں جو ہم میں موجود نہ ہو۔ نتیجتاً ہم بدتہذیبی کی جس نہج پر کھڑے ہیں وہاں صرف اور صرف بھوک، افلاس، قحط، افراتفری اور زلزلوں جیسے عذاب ہی آتے ہیں۔

شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو، جب پاکستان میں کم سن بچوں، بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات پیش نہ آئے ہوں۔ جب ذرائع ابلاغ محدود تھے تو نہ جانے کتنے بچے جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد اپنی خاندانوں کو دکھوں کی آگ میں جھلستا چھوڑ کر چپ چاپ دنیا سے رخصت ہو جایا کرتے، لیکن جب سے میڈیا، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا نے وسعت اختیار کی ہے، ملک کے کسی بھی حصے میں رونما ہونے والے واقعے کی گونج لمحوں میں سنائی دینے لگتی ہے۔

شرم ناک اور انسانیت سوز واقعات کی روزانہ سامنے آنے والی رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے چہرے پر کتنے بدنما داغ ہیں۔ کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ایسے ہول ناک واقعات بھی منظرعام پر آنے لگے ہیں کہ لوگ انہیں قیامت کی نشانیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔

اس ملک میں بچے کہیں پر بھی محفوظ نہیں، بچے اپنے گھروں میں محفوظ نہیں، بچے قبروں میں محفوظ نہیں، بچے تعلیمی اداروں میں محفوظ نہیں، کیا مائیں بچے پیدا کرنا چھوڑ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments