الوداع فاروق بھائی (ڈاکٹر سید احمد فاروق مشہدی)


فاروق میرا بھائی مجھ سے تین سال چھوٹا مگر شباہت سے ہم عمر محسوس ہوتا تھا۔ ہم دونوں میں اتنی مشابہت تھی کہ بعض لوگ پوچھ لیتے کہ آپ ”جڑواں“ ہیں؟ کئی دلچسپ واقعات بھی پیش آئے۔ ایک دفعہ بی زیڈ یو کے طلبا کا ایک گروپ دفتر ”نوائے وقت“ کے مطالعاتی دورے پر آیا۔

ایک طالب علم مجھے وہاں دیکھ کر حیرت زدہ ہوا ، میرے پاس آیا اور بولا ”سر آپ ڈبل ڈیوٹی“ کرتے ہیں؟ میں نے کہا ”مجبوری ہے مگر بتانا مت کسی کو“ کبھی فاروق کے طالب علم اسے کہتے سر آپ کہتے ہیں میں نے کبھی موٹرسائیکل نہیں چلائی ، کل آپ کینٹ بازار میں موٹرسائیکل پر جا رہے تھے۔ اگر مجھے بازار میں کوئی لڑکا یا لڑکی تپاک سے سلام کرتا تو میں سمجھ جاتا کہ فاروق کے سٹوڈنٹ ہوں گے۔ مگر آشنائی کی گرم جوشی نہ پا کر اگلے روز فاروق سے شکوہ کرتے کہ سر، کل آپ نے لفٹ ہی نہ کروائی۔

ایسے بے شمار واقعات کا اختتام یوں ہوا کہ میں فاروق کو ملنے ہسپتال پہنچا جہاں وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔ ہسپتال سے واپڈا ٹاؤن ان کی رہائش گاہ آنا پڑا،  ایک ہمسائے نے مجھے گاڑی سے اترتے دیکھا اور گھر جا کر اپنی اہلیہ کو بتایا کہ فاروق صاحب ٹھیک ہو گئے ہیں ابھی گھر واپس آئے ہیں۔ مگر ایسا نہیں تھا وہ گھر واپس ضرور آیا لیکن ایمبولینس سے اسٹریچر پر جبکہ وہ گیا اپنے قدموں پر چل کر تھا۔ کورونا تو اس کا ختم ہو گیا تھا۔

دو بڑی لیبارٹریز نے نیگیٹو رزلٹ دیا تھا۔ چند روز میں پتہ چلا کہانی بس ایک ہفتے میں ختم ہو گئی۔ ڈاکٹر تسلیاں دیتے اور بے ہوش جسم کو ٹیکوں سے چھلنی کرتے رہے۔ ڈاکٹر نے جھانک کر بھی دیکھا تو وزٹ فیس 1500 روپے لکھوا دی گئی۔ اور میت کے ساتھ پہاڑ جتنا لاکھوں کا بل بھی تھما دیا گیا۔ خدا ہسپتالوں خصوصاً پرائیویٹ ہسپتالوں سے بچائے آمین۔ ہسپتال کیا ہیں بس قصاب گھر سمجھئے۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ مریض بچ نہیں سکے گا مگر ہزاروں روپے کے ٹیکے لگتے رہتے ہیں۔ علاج کے نام پر مریض اور لواحقین کو یرغمال بنائے رکھتے ہیں۔ بل میں اضافے کے لئے علاج کو ممکنہ حد تک طویل کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات یہ طوالت ہی موت کا باعث بن جاتی ہے۔ گو یہ صورتحال ہر ہسپتال میں نہیں ہوتی مگر اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔

بھائی ہونے کے ناتے اس سے پیار فطری تھا لیکن جس طرح ان کے سٹوڈنٹس اور ساتھی اساتذہ نے اس کے انتقال پر جذبات کا اظہار کیا۔ ان سے اس کی شخصیت کے بعض ایسے گوشے میرے علم میں آئے جن سے میں واقف نہ تھا۔ جب وہ پی ایچ ڈی کر کے برطانیہ سے واپس آیا تو کم از کم میری خواہش تھی کہ وہ سی ایس ایس کرے اور میں نے اسے قائل کرنے کی کوشش بھی کی مگر وہ اپنے ارادے پر جما رہا۔ اپنے استاد مرحوم فرخ درانی سے مشورہ کیا تو انہوں نے ”کرپٹ بیوروکریٹ“ بننے کی بجائے تعلیم و تدریس کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ محترم ڈاکٹر انوار اور محترم اے بی اشرف نے بھی یہی رائے دی۔ اگرچہ سول سروس میں بھی دیانت دار اور باصلاحیت افراد کی ضرورت ہوتی ہے تاہم جو ہوا وہ ٹھیک ہوا۔ اس نے اپنے فیصلے پر کبھی پچھتاوے کا اظہار نہیں کیا۔

چیئرمین شعبہ کی حیثیت سے بھی صحیح اور غلط فیصلے میں ہمیشہ امتیاز رکھا۔ بعض دوست اصرار کرتے کہ ہمارے ساتھ چلیں اور فاروق سے سفارش کردیں ، میں انہیں سمجھاتا کہ اس کی ضرورت نہیں اگر کام ٹھیک ہے تو وہ ضرور ہو گا اور اگر غلط ہوا تو اپنے باپ کی بھی نہیں سنے گا۔ آپ مطمئن رہیں۔ ہم نے خود کبھی ایسا کام اسے نہیں کہا جو خلاف ضابطہ ہو۔ اس نے بڑی صاف ستھری اور محتاط زندگی گزاری۔ بعض اوقات چھٹی کے روز جب یونیورسٹی کی بسیں نہیں چل رہی ہوتیں اور بعض لڑکے اور لڑکیاں یونیورسٹی گیٹ سے پیدل ہوسٹل جا رہے ہوتے جن کے ساتھ سامان بھی ہوتا وہ لفٹ کے لئے اشارہ کرتیں لیکن اس نے از روئے احتیاط کبھی گاڑی نہیں روکی کہ فوراً بات کا بتنگڑ بن جانا ہے۔ یونیورسٹی کے کسی شخص سے اس کی شکایت نہیں سنی۔ یہ معمولی بات نہیں کہ اتنی طویل ملازمت میں کسی کو اس سے شکایت نہ ہوئی ہو۔

فاروق نے کچھ عرصہ نوائے وقت میں بھی کام کیا تھا اور نوائے وقت میں مضامین بھی لکھتا تھا اور جب میں نوائے وقت میں ملازمت کے لئے محترم مجید نظامی سے ملا تو انہیں یاد تھا کہ ”ایک مشہدی“ پہلے بھی نوائے وقت میں رہا ہے۔ پوچھنے لگے کہ وہ آپ تھے یا کوئی رشتہ دار، میں نے بتایا کہ وہ میرے چھوٹے بھائی تھے۔ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد جب انٹرویو کے لئے بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو بورڈ کے کچھ ارکان اس سے غائبانہ متعارف تھے چنانچہ وہاں سے بھی بغیر کسی مشکل کے کامیاب ہو گیا۔ پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ خواجہ فرید کالج رحیم یار خان میں ہوئی جہاں اس کے ہم خیال دوستوں کا ایک حلقہ بن گیا اور جب وہ پی ایچ ڈی کے لئے برطانیہ جا رہا تھا تو رحیم یار خان سے دوستوں کا ایک گروپ اسے الوداع کہنے ملتان ایئرپورٹ پہنچا تھا۔

بیرون ملک سفر اور قیام کے دوران پیش آنے والے بعض دلچسپ واقعات سنایا کرتا تھا۔ پیرس کا ایک واقعہ سنایا کہ اپنے دوست محترم اسلم ادیب کے ساتھ کھانا کھانے ایک ترک ہوٹل گئے۔ منیجر نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو؟ ”پاکستان“ انہوں نے جواب دیا۔ ”اوہ بھوتو“ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا اور پھر گلے پر چھری پھیرنے کا اشارہ دیا (کہ اچھا وہاں سے آئے ہو جہاں بھٹو کے گلے پر چھری چلائی گئی)

نوٹرے ڈیم کا تاریخی گرجا بھی دیکھا اور تصاویر بھی بنائیں۔ میں نے ازراہ مذاق پوچھا کہ جینالولو پریجیڈا سے بھی ملاقات ہوئی۔ میرے ذہن میں شہرہ آفاق فلم ”ہنچ بیک آف نوٹرے ڈیم“ کا وہ سین آ گیا جس میں جینا بریجیڈا جپسی لڑکی کے روپ میں اپنی بکری لئے گرجا کے پہلو سے نمودار ہوتی ہے۔ اس میں ”کبڑے“ کا لافانی کردار لیجنڈ اداکار انتھونی کوئن نے ادا کیا اور حق ادا کر دیا۔

برطانیہ میں قیام کے دوران سپین بھی گئے۔ بھابھی رضوانہ بھی ساتھ تھیں اور مسلم دور کی یادگاریں دیکھ کر کہیں خوشی اور کہیں دکھ محسوس کیا۔ برطانیہ سے واپسی پر مصری ایئرلائن پر سفر کیا جس نے قاہرہ میں قیام دیا۔ جس سے اہرام مصر سمیت ماضی کے عجائبات دیکھنے کا موقع مل گیا اگر ہوشیاری سے کام لیتا تو قیام برطانیہ، پیرس، قرطبہ اور قاہرہ کے تین چار سفرنامے بھی ”پھڑکا“ سکتا تھا۔

پہلی بار برطانیہ گیا تو دوستوں کے لئے آم کا تحفہ لے گیا۔ ایئرپورٹ پر خاتون اہلکار نے پوچھا کہ کس مقصد کے لئے برطانیہ آئے ہو۔ جب بتایا کہ ”سٹڈی“ کے لئے تو اس نے آموں کی پیٹی بغیر کھولے اوکے کر دی۔ برطانوی معاشرے کی اچھائیوں کے بے شمار واقعات تھے جو اس نے خود دیکھے۔ اس نے بتایا کہ ایک دفعہ وہ ایک جاننے والے ہم وطن کے گھر ملنے گیا ہوا تھا کہ پولیس گاڑی نے دروازے پر سائرن بجایا۔ باہر نکل کر دیکھا تو سرکاری اہلکار نے اطلاع دی کہ آپ کے کیس کی کل تاریخ ہے مگر متعلقہ مجسٹریٹ چھٹی پر ہے ، اس لئے آپ کل زحمت نہ کریں۔

ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی

برطانیہ روانگی سے چند روز قبل تک اسے شدید کمر درد کی تکلیف تھی۔ باتھ روم جانا بھی مشکل تھا۔ برطانیہ کی سردی نے تکلیف میں اضافہ کر دیا چنانچہ یونیورسٹی ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ مقررہ وقت پر ڈاکٹر نے خود دروازہ کھولا اور اسے منتظر کھڑا دیکھ کر پوچھا ”آر یو مسٹر شاہ“ ، اثبات میں جواب ملنے پر اندر بلا لیا۔ معائنہ اور مرض کی تفصیل سن کر اسپرین کی گولیاں تجویز کر دیں۔ فاروق نے اسے بتایا کہ اسپرین غیر مؤثر ہے تو اس نے ”پونسٹان“ تجویز کیں۔

فاروق نے اس گولی کا نام لیا جو وہ درد کے لئے استعمال کرتا تھا تو ڈاکٹر نے ہاتھ اٹھا دیے کہ اس کے علاج کے لئے آپ کو سپیشلسٹ سے ملنا ہو گا۔ جب یہ مقررہ وقت پر سپیشلسٹ سے ملنے پہنچا تو ڈاکٹر کی معاون خاتون اس کے کیس کی فائل لیے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ڈاکٹر نے تفصیلی معائنہ کے بعد بتایا کہ آپ کے پٹھوں میں کھچاؤ ہے جس کی وجہ ایکسرسائز نہ کرنا ہے۔ آپ کو ہسپتال کے اندر ہماری نگرانی میں چند مخصوص ورزشیں کرنا ہوں گی۔ چنانچہ کچھ روز فاروق ہسپتال جاتا رہا جہاں ایک خاتون اسے ورزش کرواتی۔ چند روز کے بعد واقعی درد جاتا رہا۔ فاروق نے بتایا کہ اسے وہاں بھوک نہیں لگتی تھی جس کے لئے ڈاکٹر سے ملا۔ جس کو بتایا کہ اسے بھوک نہیں لگتی۔( I do not feel Appetite) ڈاکٹر نے پوچھا ”You mean you take food less than normal؟اس پر اس نے دوا تجویز کردی۔

ایک دفعہ فاروق گھر میں گر پڑا جس سے اس کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ وہ قریبی ہسپتال جا پہنچا جہاں ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد کہا کہ اسے کسی دوائی کی ضرورت نہیں حالانکہ ہاتھ پر کافی زخم تھے اور خون بھی بہہ نکلا تھا۔ فاروق نے اصرار کیا کہ پٹی وغیرہ کردیں جیسا کہ پاکستان میں رواج ہے مگر ڈاکٹر مصر رہا کہ یہ ٹھیک ہو جائے گا اور کھانے یا لگانے کی کسی دوائی کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ وہ واپس آ گیا اور واقعی یہ زخم بغیر کسی دوا کے بالکل ٹھیک ہو گیا۔

رضوانہ بھابھی کے ساتھ اس کی شادی بھی درست فیصلہ تھا۔ کچھ وسوسے تھے مگر رضوانہ کے برتاؤ نے سب غلط ثابت کر دیے۔ اس شادی میں میرا بھی کچھ کردار تھا جس پر میں نے کئی بار خود کو شاباش دی۔ دل چاہتا ہے اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ بیان کر ہی دوں۔ فاروق کی خواہش تھی کہ نکاح ہو جائے مگر رخصتی اس کی برطانیہ سے واپسی پر ہو گی۔ یہی پروگرام رضوانہ کے گھر والوں کے ساتھ طے ہوا کہ ہم 4 افراد آئیں گے اور صرف نکاح ہو گا ، رخصتی بعد میں ہو گی مگر نہ جانے کیسے یہ پیغام پہنچا کہ 40 افراد کی بارات آئے گی اور رخصتی بھی ہو گی۔

حسب پروگرام ہم 4 افراد میں فاروق، اباجی اور ماموں زکریا جب ان کے گھر پہنچے تو میزبان ہار لیے ہمارے منتظر تھے۔ انہوں نے ہار تو ہمیں پہنا دیے مگر پوچھا کہ بارات پیچھے آ رہی ہے؟ ”کون سی بارات“ ہم نے حیرت سے پوچھا۔ جب ان کو پتہ چلا کہ صرف 4 افراد ہی آئے ہیں اور کوئی خاتون بھی ساتھ نہیں تو قدرے بدمزگی کا سماں پیدا ہو گیا۔ ڈاکٹر انوار نے جو وہیں موجود تھے، مجھے الگ کر کے کہا کہ گیلانی صاحب (رضوانہ بھابھی کے ابو) ناراض ہیں۔ آپ کسی طرح چند خواتین کا بندوبست کریں۔ دلہن کے گھر والوں کے لئے بڑی سبکی کی بات ہے۔ ان کے تمام رشتہ دار جمع ہیں اور محسوس ہو رہا ہے کہ آپ نے خوشدلی سے شادی کا فیصلہ نہیں کیا۔

میں نے فوراً سمیجہ آباد کا رخ کیا جہاں فاروق صاحب (دوست نیوپاک آٹوز والے ) کا گھر تھا۔ خوش قسمتی سے سب گھر پر ہی موجود تھے اور خواتین ایک شادی میں شرکت کے لئے ”تیار“ تھیں۔ صورتحال کا علم ہونے پر انہوں نے وہ شادی ترک کردی اور میرے ہمراہ چلی آئیں۔ فاروق کے کچھ دوستوں کو بھی فون کر دیا کہ فوراً کمک لے کر پہنچیں چنانچہ کم و بیش ایک گھنٹے میں ہم نے ہنگامی طور پر بارات تیار کرلی اور اس طرح یہ مہم کسی نہ کسی انداز میں سر کر لی۔

فاروق کو ذہانت اور دیانت ورثہ میں ملی تھی، ہمہ جہت صلاحیتوں کا حامل ہونے کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس نے جو علمی میراث قلم و قرطاس کے حوالے سے چھوڑی ، وہ اس سے بہت کم ہے جس کی وہ قدرت رکھتا تھا۔ ”اجنبی مسافر، اداس شاعر“ اس کا ایم اے کا مقالہ تھا جس کو پالش کر کے چھپوایا جب کہ ”حصار خواب“ شعری مجموعہ ہے۔ ”حصار خواب“ سے انتخاب دشوار نظر آتا ہے جس طرح خوبصورت نگینوں سے بھرے تھال سے ایک نگینہ اٹھانا مشکل ہے۔

زخموں سے چور لوگ ہیں، گھر بھی جلے ہوئے
بستی میں رات بھر یہ کیا حادثے ہوئے
لائی ہیں رنگ کچھ تو غیروں کی سازشیں
کچھ اپنے لوگ بھی ہیں عدو سے ملے ہوئے
پھر اتفاق سے وہ سرراہ مل گیا
سب زخم آرزوؤں کے پھر سے ہرے ہوئے
کھوئے رہے ہیں اپنی انا کے حصار میں
سب ماہ و سال اپنے اسی میں بسر ہوئے
وہ راہ رو تھے ہم، جنہیں منزل نہ مل سکی
یہ حاصل سفر تھا کہ ہم دربدر ہوئے
فاروق عہدِنو کا نرالا ہے انقلاب
جتنے بھی بے ضمیر تھے، سب تاجور ہوئے
سب مصلحت کی رات میں چھپ کر چلے گئے
بستی میں کوئی شخص بھی سچا نہیں رہا
شاید اسے بھی کچھ نئے احباب مل گئے
میں بھی دیار درد میں تنہا نہیں رہا
وہ جھیل جیسی آنکھیں کہیں چھپ چھپا گئیں
ہم جس کو دیکھ جیتے تھے، چہرہ نہیں رہا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments